مہوش بہن
اگر الطاف حسین کسی مذہبی لیڈر کے ساتھ بیٹھ جائے تو کیا وہ انتہا پسند ہوجائے گا؟ سب جانتے ہیں کہ الطاف حسین کیا ہے اور وہ کس طرح قادیانیوں کو سپورٹکرتا ہے اور اس نے کراچی کی معصوم عوام کس بیدردی سے مروایا ہے؟ یہ سب یاد کرکے دل خون کے آنسو روتا ہے۔
راشد بھائی، آپ اختلاف رائے کا لحاظ رکھئیے۔
قادیانی حضرات کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ ایک طرف رہا، مگر وہ پاکستانی شہری ہیں اور انکو پاکستانی شہری کے حساب سے وہ تمام حقوق ملنے چاہیے ہیں جو کسی عام مسلمان کا حق ہے، اور صرف قادیانی ہونے کیوجہ سےکوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے اور نہ انکا کوئی معاشی یا معاشتری استحصال ہونا چاہیے۔
افسوس کہ ہم لوگ انڈیا میں انڈین مسلموں کے انتہا پسند ہندؤوں کے ہاتھوں ہوئے استحصال و ظلم پر تو دھائیاں دیتے ہیں، مگر ادھر خود یہی کام قادیانی حضرات کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ چاہے اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں، یہ الگ مسئلہ ہے، مگر آپ کو یہ چیز اختلاف رائے کے نام پر قبول کرنا پڑے گی۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ نریندر مودی اور الطاف حسین میں کوئی فرق نہیں۔ نریندر مودی نے تو ہندو ہوکر مسلمانوں کا قتل عام کرایا لیکن الطاف حسین نے مسلمان ہو کر معصوم مسلمانوں کا قتل عام کرایا اور ان کی بوری بند لاشیں ہرروز ملتی تھیں۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ آپ کی نظر بوریوں میں بند لاشوں پر تو گئی، مگر اُس ریاستی جھوٹے الزام اور ریاستی دہشتگردی پر نہ گئی کہ جسکے جواب میں بنیادی طور پر بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
سانحہ سہراب گوٹھ سے لیکر جناح پور کے جھوٹے الزام تک، اور پھر وہاں سے حکیم سعید کے جھوٹے قتل کے الزام کے نام پر شروع کیے گئے آپریشن اور ریاستی دہشتگردی کو آپ ڈکار مارے بغیر اگر ہضم کر جائیں گے اور ساری سوئی فقط آ کر متحدہ پر رک جائے گی تو ایسے میں مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔
مجھے یہ بتادیں کہ الطاف حسین کا لندن میں ذریعہ معاش کیا ہے؟ کیا وہاں کوئی نوکری کرتا ہے؟
الطاف حسین پاکستان کیوں نہیںآتا اسے کس کا ڈر ہے؟
راشد بھائی، یہ آپ کا سر درد نہیں ہے۔ اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہی۔
آج بھی جب ملک کسی مسئلے میں پھنسا ہوا ہو تو یہ موصوف لسانیت کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں یا سندھ دھرتی کارڈ کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کراچی، حیدرآباد کے علاوہ سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان میں کوئی پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے صوبے جب ایم کیو ایم کا نام سنتے ہیں تو انہیں بوری بند لاشیں یاد آجاتی ہیں اور یہ ذہنی طور پر ایم کیو ایم کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس کا واضح ثبوت الطاف بھائی نے اپنی ہیپی برتھ ڈے والی تقریر میں دیا ہے کہ ناپ تم تیار رکھو، بوریاں ہم خود تیار کرلیں گے۔ یعنی اس کا مقصد یہی ہے کہ ایم کیو ایم نے پنجاب میںآکر وہی بوریوں والا کام کرنا ہے جو ماضی میں اس کا خاصہ رہا ہے۔
باقی صوبے والے تو پنجاب کو بھی پسند نہیں کرتے۔ اور بوریوں میں شاید ہی کسی جماعت اسلامی والے کی لاش ملی ہو۔ بلکہ یہ ریاستی دہشتگردی کا جواب تھا جس میں دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل پولیس اور رینجرز فورس اپنی سازش کے تحت "حقیقی" کے دہشتگردوں کی مدد سے کراچی میں مہاجروں کا قتل و خون کر رہے تھے۔ بوریوں میں لاشیں انہیں پولیس کے قاتلوں کی ہوتی تھیں یا پھر حقیقی کے قاتلوں کی۔ اور یہ وہ عالمگیر رد عمل ہے جسے کبھی روکا نہیں جا سکتا۔ چاہے یہ کراچی ہو یا پھر مشرقی پاکستان یا پھر انڈیا میں خود موجود مسلمان کہ جب ہندو انتہا پسند انہیں فسادات میں قتل کرتے ہیں تو جواب میں مسلمان بھی اپنی مقدور بھر قوت کے مطابق انہیں جوابا قتل کرتے ہیں۔
کیا آپ کو اندازہ نہیں اس قتل و خون کی داستان آپ لوگوں نے اُس دن رقم کر دی تھی جس دن کراچی کے لاکھوں مہاجروں کو جناح پور کے الزام میں ملک توڑنے والا غدار کہا گیا تھا۔ اور پھر یہ الزام اسی بقیہ پاکستان میں بڑھتا ہی چلا گیا کہ جس کا آج نام لیکر آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم سے نفرت کرتے ہیں۔
راشد بھائیِ، دوسروں پر الزام لگا دینا بہت آسان ہے۔ مگر خود اپنے اعمال اور غلطیوں کا جائزہ لینا بہت مشکل۔
عمران خان کا موقف کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیںکی اس کا تو یہ بہت پرانا 2004 سے موقف تھا کہ فوج وزیرستان میں نہ بھیجی جائے۔ امریکہ کو افغانستان سےنکالا جائے اور پھر انٹیلی جینس اداروں اور پولیس کی مدد سے آپریشن شروع کیا جائے۔ الطاف حسین دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تو بہت بڑا حمایتی ے لیکن اس نے آج تک ڈرون حملوں کی مذمت نہیںکی اور نہ ہی یہ کہا کہ یہ بند کئے جائیں اس میں زیادہ نقصان بے گناہوں کا ہوتا ہے کیونکہ بم کی آنکھیں نہیںہوتیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون دہشت گرد ہے اور کون معصوم۔
پلیز مجھے بریک دیجئے۔
عمران خان اپنے مفادات کے لیے منافقت کی سیاست کرتا رہا ہے۔
آپ کیسے اس بات سے آنکھیں بند کر سکتے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی کے سربراہ سرحد میں طالبان لیڈروں سے بغلگیر ہو کر انہیں پھولوں کے ہار پہنا رہے ہیں؟
یہی طالبان جب معصوموں پر خود کش حملے کر رہے ہوتے ہیں، اپنے علاقے میں لوگوں کو ذبح کر رہے ہوتے ہیں تو آپ لوگ انکار کرتے ہیں کہ ہمارے مسلم بھائی ہیں۔ بلکہ اس وقت بہانہ ہوتا ہے یہ سب کچھ انڈین را کے ایجنٹ آ کر کر رہے ہیں اور یہ ازبک و دیگر قومیتیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب وقت پڑتا ہے تو پھر یہ طالبان ہمیں اپنے دینی بھائی اور بہترین اسلامی ریاست بنے نظر آتے ہیں۔
عمران خان شروع سے طالبان کے خود کش حملوں پر تنقید کرنے کی بجائے اُن کو بطور مظلوم پیش کرتا تھا اور اسکے نزدیک یہ ہمارے وہ دینی بھائی ہیں جو بالکل ٹھیک ہیں اور امریکہ دشمنی میں آ کر وہ ایسا کر رہے ہیں۔ پھر وہ طالبان کے خلاف کسی بھی فوجی کاروائی کی مخالفت کرتا رہا اور اسی وجہ سے طالبانی فتنہ بڑھ کر اتنا پھیلا کہ جب بعد میں ہمیں ہوش آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی اور ہزاروں لاکھوں معصوم انکے ہاتھوں قتل ہوئے یا بے گھر ہوئے۔
ان لاکھوں معصوموں کے خون کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا، اور نہ کوئی اس پر بات کرتا ہے۔ میرے نزدیک عمران خان اس کے ایک ذمہ داروں میں ہے جس نے طالبانی فتنے کے خلاف پہلے دن سے آواز اٹھانے کی بجائے سیاسی مفادات کے لیے انکے نام پر ہمدردیاں سمیٹیں۔ آپ چاہیں تو مجھ سے اختلاف رکھ سکتے ہیں، مگر میں عمران خان کو اس معاملے میں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں اور میرے لیے یہ شخص اپنے مفادات کو پاکستان کے مفادات پر عزیز تر رکھنے کا مجرم ہے۔
جو تصویر یہاں پیش کی گئی ہے وہ اس دور کی ہے جب گجرات میں فسادات نہیں ہوئے تھے اور دوسری بات یہ کہ عمران خان ایک مشہور کرکٹر رہا ہے جس کے دنیا بھر میں فین ہیں ہوسکتا ہے کہ نریندرمودی بھی اس کا فین ہو۔اس وقت عمران خان نہ صرف نریندر مودی سے ملا تھا بلکہ بھارت کی کئی اہم شخصیات سے بھی ملا تھا اور مختلف ٹی وی شوز میں بھی شمولیت کرتا رہا اس نے وہاں جاکر الطاف حسین کی طرح یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا بننا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔
دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے غالب۔ نریندر مودی جس دن سے وزیر اعلی بنا ہے، بلکہ اس سے بہت پہلے سے اسکی پارٹی پاکستان اور مسلم دشمنی کے لیے مشہور و مقبول رہی ہے۔ اور گجرات میں فسادات کئی مرتبہ ہوئے ہیں اور میرے خیال میں آپکا یہ قیاس درست نہیں کہ اس وقت تک گجرات میں فسادات نہیں ہوئے تھے۔ (میرے پاس وقت نہیں ورنہ میں آپ کو چیک کر کے بتاتی)۔
اور عمران خان نہ صرف مقبول کرکٹر رہے ہیں، بلکہ مقبول پلے بوائے بھی رہے ہیں۔ بہرحال آج قوم انکے پورے ماضی کو بھلانے کے لیے تیار ہے کیونکہ آج یہ ایم کیو ایم دشمنی رکھنے والوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔