موجودہ حکومت بہترین
میرے خیال سے موجودہ حکومت بدترین حکومتوں میں سے ہے۔ سارا زور مشرف کے خلاف نہ بولنے پر ہے۔ آپ نے شائد پاکستان میں تیل کی سیاست کہانی نہیں پڑھی۔
پچھلی حکومتوں میں سب سے بری بات ہوتی ہی پچھلی حکومت ہونا ہے۔ وہ بھی بدترین تھی مگر موجودہ سے نہیں۔ کم از کم ووٹ لینے کے لئے ان کو کچھ اقدامات تو کرنے ہوتے تھے ان کو تو وہ بھی نہیں کرنے ہوتے۔
مغرب میں بھی مہنگائی بڑھی مگر کسی نہ کسی نسبت سے تنخواہ بھی بڑھی۔ دوسرے مغرب میں اگر آپ ہلیں تک نہ پھر بھی آسانی سے گزارہ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ہٹا کٹا ہو تو اس کو تھوڑا بے حس ہونا پڑتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ہی تو حکومت میں شامل ہے تو آپ حکومت کو کہیں یا اس نظام کو بات ایک ہی ہے۔ پاکستان میں ترقی کی رفتار بلاشبہ قابل رشک ہے۔ صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند ہے۔ بجلی کی قلت 1990-1993 میں گرمیوں میں ہوتی تھی اب سردیوں میں ہو گئی ہے۔ ڈیم بنانے کے بجائے اونچے کئے جا رہے ہیں۔
عالمی حالات سے میں صرف تیل کی مثال دیتا ہوں پاکستان میں تیل قیمت کے پندرہ روزہ ڈرامے کا سب کو پتہ ہے۔ اس قمیت میں سے 30 روپے خالص فی لیٹر حکومت کو جا رہے ہیں اب اس میں کرپشن اور باقی چیزوں کا اندازہ لگائیے اور پھر پاکستان میں روزانہ پیٹرول کی کھپت کا اندازہ لگا کر حکومت کی آمدنی کی تخمینہ لگائیے۔ جس وقت پیٹرول 30 روپے ہوا تھا مجھے اس وقت اطلاع مل گئی تھی کہ یہ 50 تک جائے گا مجھے یقین نہیں آیا تھا اب دیکھیں 60 کو چھو رہا ہے۔
ابھی آپ کا ڈالر 60 سے 72 ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ اس میں میرے جیسے خودغرض آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ہو اور کب یہاں سے وہاں پیسوں کا ڈھیر لگایا جائے۔
پراپرٹی قیمتوں کا ڈرامہ جس کامیابی سے کھیلا اس کی مثال ایسی ہی حکومتوں میں ملتی ہے۔ حکومت کس پر مشتمل ہے؟ فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں پر اور اس پراپرٹی ڈرامے کی تفصیلات جب اس حکومت کے ہٹنے پر سامنے آئیں گی تب اس حکومت کے کرتوت سامنے آئیں گے۔ میرے تین چچا نے اسی پراپرٹی ڈرامے میں عام عوام میں سے ہو کر لاکھوں کو کروڑوں میں تبدیل کر لیا تو اعلیٰ عہدیداروں کا سوچیں۔
ابھی سب اچھا اس لئے ہے کہ ہر چیز پر بات کرنے کی اجازت ہے سوائے حکومت پر اور اس کی حرکات پر۔ جس طرح انڈیا کی غربت گلیم نے چھپا لی ہوئی ہے ویسے ہی پاکستان میں بھی میڈیا یہی حرکت مقابلے کے نام پر کر رہا ہے اصل ایشوز پر کوئی بات ہی نہیں۔
ٹوپی ڈرامہ یعنی کے ہیلمٹ ڈرامہ جو کھیلا گیا۔ وہ حکومتی ارکان کے کسی رشتہ دار کی ایما پر مل کر کھیلا گیا۔ پہلے ہیلمٹ درآمد کیے گئے اور پھر مارکیٹ میں لا کر کھیل شروع۔ اب کہاں ہے ہیلمٹ پابندی؟
پراپرٹی سے جو پیسا کمایا گیا وہ اب بینک لیزنگ کے نام پر نئے ڈرامے میں لگایا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے میں سے جب ہوا نکلے گی تب رپورٹس پڑھنے والی ہونگیں۔ ابھی ہر کسی کو جان عزیز ہے وہ نہیں بول یا لکھ سکتے۔
لاہور میں ٹرانسپورٹ سے جو مذاق کیا گیا۔ اس پر تو اس حکومت کو ڈوب کر مر جانا چاہئے۔ 500 ویگنوں کی جگہ 33 بسیں روٹ نمبر 47 پر لائیں گئیں۔ بوڑھے لوگ تو ٹانگ اتنی اوپر کر کے چڑھ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان لوگوں کو رلتے میں نے دیکھا ہے۔ ان تمام روٹس پر جو بسیں چل رہی ہیں ان کے مالکوں کے نام کی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیں سب کے سب حکومت میں شامل ہیں۔ ابھی ایک بینک کرپٹ ہوئی ہے۔ تو اس کا ترجمان تیل پر بات ڈال رہا تھا۔ ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی رپورٹ بھی کیا مزے کی باعث عبرت رپورٹ ہے۔
حکومت کو الزام دینا صیح نہیں "سوادیس" میں اچھا لگتا ہے۔ پاکستان میں حکومت کا ایک ایک شخص کرپٹ ترین اور نا اہل ہے اور چونکہ یہ جوابدہ نہیں اور انہوں نے منتخب نہیں ہونا لہذا ان کو کئی پرواہ نہیں۔ دوسرے ہماری حکومت صرف اسلام آباد میں ہے باقی جگہ اس کے نیچے گماشتے من مانی کر رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو کارکردگی دیکھانے کے لئے ۵ سال کافی ہوتے ہیں اس کو تو 7 سے بھی اوپر ہو گئے یہ دن بدن بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
اس حکومت کو برطرف کرنے سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو یہی بہت ہو گا کہ لوگوں کو منتخب ہونے کے لئے عوام نام کے جانوروں کے کام کسی بھی طریقے سے کرنے ہونگے۔ ملک میں چاہے میڈیا آج کی طرح کی آزاد نہ ہو اتنی ضرور ہو گی کہ حکومت کی پالیسیوں پر رائے دے سکے۔ اپنی ہی عوام کو فتح کرنے سے باز رہے گی اور لوگ "گم" ہونا بند ہو جائیں گے۔ اور ان کے لواحقین ان کے لئے سڑکوں پر احتجاج نہیں کرتے پائیں جائیں گے۔