محمد بن قاسم اور تاریخ پاکستان
حوالہ :
محمد بن قاسم ۔ ویکیپیڈیا
وادی مہران (جغرفیائی علاقہ جو آجکل پاکستان کہلاتا ہے) کی تاریخ موہنجوداڑو اور ہڑپہ سے بھی پہلے کی ہے۔ مختلف پاکستانی ویب سائٹ پاکستان کی تاریخ وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ ان کا سارا زور پاکستان کی سندھی (وادی مہران) ثقافت سے عرب ٹرانسفارمیشن پر ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہی کہ آج بھی پاکستانی معاشرے پر قدیم تہذیبی ورثہ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ جدید تہذیبی ورثہ جو ہمیں زبردستی دیا جارہا ہے وہ افغان، ترک، منگول اور عرب حملہ آوروں کا کلچر تھا جو نہ کبھی ہمارا تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ وادی مہران کے رہنے والے نہ تھے اور نہ ان میں سے کسی حملہ آور نے وادی مہران کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔
محمد بن قاسم کا حوالہ اوپر موجود ہے۔ وہاں پر کچھ لنکس بھی ہیں جنہیں پڑھ کر مزید معلومات حاصل ہوسکتی ہیں اور پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں کہ بن قاسم کے سندھ پر حملے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب عربوں نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ مسلمان تاجروں کے جہاز کے روکے جانے سے بہت پہلے ہی عربوں نے سندھ پر حملے شروع کردئیے تھے۔ سندھ پر عربوں کے حملے حضرت عمر بن خطاب اوعر حضرت عثمان بن عفان کے دور سے شروع ہوتے ہیں۔ جو کہ تمام ناکام ہوتے رہے حالانکہ سندھ کی وجی طاقت اتنی بہتر نہیں تھی جتنی عربوں کی تھی۔ ان حملوں اہم ترین وجہ بحری راستہ، تجارتی مفادات اور سندھ کے وسائل پر قبضہ تھا نہ کہ سندھ کو مسلمان کرنا۔
سندھ کے فتح ہونے کے فورا بعد محمد بن قاسم نے غیر مسلم رعایا پر بھاری جزیہ عائد کردیا۔ مفتوح قوم کے مزاحمت پسند عناصر بے دریغ قتل کئیے گئے۔ اگر حملے کا مقصد مسلمان تاجروں کو چھڑانا تھا تو داہر کو شکست دینے کے بعد حملے رک جانا چاہئیے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سندھ کے مشرقی علاقوں میں راجھستان تک اور شمال میں ملتان تک فتوحات کی گئیں جس کے نتیجے میں انتہائی زرخیز میدانی علاقوں پر عرب قابض ہوگئے اور مغرب میں فارس، جنوب میں جزیرہ نما عرب اور شمال مغرب سے افغانستان تک تجارت میں آسانی پیدا ہوئی جس کا سارا فائدہ عربوں کو ہوا کیونکہ مقامی آبادی پر ٹیکس اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس تجارت میں سراسر گھاٹے میں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو تاجر بظاہر مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ مذاہب کی تاریخ میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ جب کسی علاقے کے امراء یا حکمران نیا مذہب قبول کرنے لگتے ہیں تو وہ مذہب غرباء اور عوام کی بھی توجہ پانے لگتا ہے۔ بھاری ٹیکس، معاشی فوائد اور معاشرتی حیثیت میں اضافہ محمد بن قاسم کے دور میں اور اسکے کچھ عرصے بعد تک کئی لوگوں کر مسلمان کر گیا۔ معاشی فوائد نومسلموں کو یہ تھے کہ عرب فوج کو افرادی قوت کی اتنی زیادہ ضرورت تھی کہ اسوقت سب سے زیادہ نوکریاں فاتح فوج ہی کے پاس تھیں مگر فاتح فوج میں غیرمسلموں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ معاشرتی فوائد یہ تھے کی نوکریوں، تجارتی فوائد کے بعد جب نو مسلم خوشحال ہونے لگتے تو انہیں دوسرے مقامی لوگوں پر واضح برتری حاصل ہوجاتی تھی اور ان کا سماجی اسٹیٹس بلند ہوجاتا تھا۔
مذہبی رواداری کا دعوی کا بھی جھوٹا ہے چونکہ عربوں نے بے دریغ بدھ مذہب اور ہندو مذہب کے مندروں کو نقصان پہنچایا۔ سندھ میں موجود گوتم بدھ کے سینکڑوں مجسمے اسٹوپاز مسمار کئیے گئے کیونکہ اسوقت اس ریجن میں بدھ مذہب سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب تھا نہ کہ اسلام۔
محمد بن قاسم نے سینکڑوں سندھی سپاہیوں کو غلام بنا کر شام روانہ کیا، راجہ داہر کی دو بیٹیاں خلیفہ کو پیش کی گئیں اور شاہی خزانے پر قبضہ کر کے تمام مال و زر خلافت کو بھیجا گیا۔ جسے اگر ہم آج کے دور کے حساب سے دیکھیں تو یہ سراسر ناجائز نظر آتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ محمد بن قاسم کے دور حکومت اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک بھی سندھ میں مسلمان پھر بھی اقلیت ہی تھے۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے اس کے پیچھے مسلمانوں کے حسن سلوک کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ نہ ہی مسلمانوں نے نچلی ذات کے ہندوؤں کو گلے لگایا تھا۔ مسلمانوں نے صرف اونچی ذات کے ہندوؤں اور تاجروں کو ہی نوازا تھا اور اس کے پیچھے بھی مقصد تجارت، سیاست اور قبضے کا استحکام تھا نہ کہ اسلام کی سربلندی۔
ہمارے بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ہندو جو اپنے بادشاہ کے ظلم و ستم سے تنگ تھے وہ محمد بن قاسم کو مسیحا سمجھتے تھے۔ جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا وجہ تھی کہ بن قاسم سے پہلے عربوں کو بری طرح شکست فاش ہوتی رہی اور دریائے سندھ عربوں کے خون سے لال ہوتا رہا؟ کیا وجہ تھی کہ محمد بن قاسم کی ٹیکنالوجیکلی برتر، تجربہ کار اور مالدار فوج بھی آسانی سے قبضہ نہ کرسکی؟ عوام اور فوج پوری طرح راجہ داہر کے ساتھ تھی لیکن راجہ داہر کے راجپوتوں سے تنازعات اور اس کے دور ایلائٹ برہمنوں کی درباری سازشیں برہمنوں اور بدھ ازم کے کھنچاؤ نے راجہ داہر کو شکست سے دوچار کیا۔
میرے خیال میں پاکستانیوں کو یہی تاریخ پڑھائی جانی چاہئیے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں میں عقلیت پسندی پیدا ہوگی۔ جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس زمانے میں طاقتور قومیں اسی طرح اپنے تجارتی اور مالی مفادات محفوظ کرتی تھیں۔ جنگوں کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ جنگ ذریعہ آمدنی سمجھا جاتا تھا اور ریاستوں کے استحکام کے لئیے اسے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہم اگر اپنے بچوں کو یہ چیپٹر یوں پڑھائیں تو اس سے بچوں کے دلوں میں سندھ کی ہندو تاریخ جاننے کا بھی شوق پیدا ہوگا اور انہیں احساس ہوگا کہ ان کا کلچر ان کی تہذیب عربوں کی دی ہوئی نہیں ہے بلکہ ان کے اجداء کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ کی ثقافت پر عربوں نے اتنا حیرت انگیز اثر نہیں چھوڑا جتنا سندھیوں نے عرب ثقافت پر چھوڑا ہے۔ سندھی لباس، زبان، بول چال، طرز تعمیر، فنون جیسے کپڑوں پر ڈیزائنز کی چھپائی، کشیدہ کاری، پینٹنگ، موسیقی اور ریاضی میں سندھیوں کی مہارت اور علم نے عربوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ آج کے دور کے موجودہ سندھیوں میں بھی ماضی کی جھلک بآسانی دیکھی جاسکتی ہے وہ آج بھی عرب کم اور سندھی زیادہ ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے عرب حملوں کی کبھی ستائش نہیں کی تھی اور ہمیشہ مزاحمت جاری رکھی تھی۔ موجودہ دور کے اکثر سندھی قوم پرست باوجود مسلمان ہونے کے محمد بن قاسم کو ولن تصور کرتے ہیں۔
سندھ کے لوگوں نے ایک طویل عرصے تک مسلمان حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے۔ اگر جنگ کو ہی گلوریفائی کرنا ہے تو پاکستانیوں کی بہادری کو گلوریفائی کیا جائے نہ کہ عربوں کی۔ میرے خیال میں اس سے کم از کم سندھیوں کے اسلامی تشخص پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کی ثقافت، مذہبی زندگی اور معاشرت پر صوفی ازم کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ ایک معمولی ان پڑھ سندھی بھی اسلام کو سندھی مذہب سمجھتا ہے یہ اس کے کلچر کا حصہ ہے مگر اسطرح نہیں جسطرح یہ عربوں میں ہے۔ اس سے ایک اور بحث کا دروازہ کھلتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مقامی کلچر ساتھ نہیں چل سکتے؟
مزید حوالہ جات:
1
2
3
4
5