سروے کے نتایج بی بی سی کی سایٹ سے لیے گیے ہیں،
انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کے تازہ سروے کے مطابق اٹھاسی فیصد پاکستانیوں کے خیال میں ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور اکثر لوگ پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
امریکی ادارے نے یہ سروے رواں سال پندرہ سے تیس اکتوبر کے درمیان کیا جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے پچاس اضلاع کے ساڑھے تین ہزار افراد سے ملکی صورتحال پر رائے معلوم کی گئی۔
سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت ناامیدی اور عدم اطمینان کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ تاہم معاشی مستقبل کے بارے میں لوگوں کی ناامیدی میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
انسٹھ فیصد افراد کے خیال میں آئندہ برس ان کی اقتصادی حالت مزید خراب ہوگی۔ رواں سال جون میں یہ تناسب چھیالیس جبکہ جنوری میں اڑتالیس فیصد تھا۔ اکتوبر میں اٹھہتر فیصد اپنے آپ کو زیادہ غیرمحفوظ بھی قرار دیتے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اس سال جنوری میں یہ تناسب پچاسی فیصد تھا۔
تازہ سروے میں پیپلز پارٹی حکومت کی مقبولیت میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ محض اکیس فیصد کا جواب مثبت تھا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا ان کے خیال میں نئی حکومت کی اہم مسائل پر کارکردگی کیسی رہی۔ چھہتر فیصد کے خیال میں حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔
جمہوری حکومت اور منتخب پارلیمان کی موجودگی میں حالات کی بہتری سے متعلق ستاسٹھ فیصد پرامید نہیں جبکہ پندرہ فیصد کو امید دکھائی دے رہی تھی۔ محض اٹھائیس فیصد کے خیال میں ملک نے صدر اور فوجی سربراہ کے عہدے علیحدہ ہونے اور صدر مشرف کے مستعفی ہونے سے جمہوریت کے جانب پیش رفت کی ہے جبکہ باون فیصد اس سے متفق نہیں تھے
یس فیصد لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کو بحال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تاہم ساٹھ فیصد نے ان کی علیحدگی کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری پر ڈالی۔ ستائیس فیصد لوگوں کے خیال میں پیپلز پارٹی اب مسلم لیگ (قاف) کے ساتھ اتحاد استوار کرے گی۔
دہشت گردی کے زمرے میں ساٹھ فیصد افراد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے مذہبی انتہا پسندی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس رائے عامہ میں دس فیصد افراد نے خودکش حملوں کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔
زیادہ تر افراد اس حق میں تھے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تاہم یہ رائے رکھنے والوں میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ صرف چون فیصد افراد نے مذاکرات کے حق میں رائے دی۔ جبکہ پینتیس فیصد افراد مذاکرات کے خلاف ہیں۔ مذاکرات کے خلاف رائے رکھنے والے افراد میں جون سے سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے حوالے سے اڑتیس فیصد اس آپریشن کے حق میں تھے جبکہ پچاس فیصد اس کے خلاف تھے۔
خصوص سوال کہ آیا فوجی آپریشن کے حق میں ہیں کیونکہ شدت پسند پاکستانیوں پر خودکش حملے کر رہے تھے تو تریسٹھ فیصد نے ہاں میں جبکہ پچیس فیصد نے نفی میں جواب دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حلیف ہونے کے حوالے سے اٹھائیس فیصد افراد اس کے حق میں تھے جبکہ تریسٹھ فیصد افراد حریف ہونے کے خلاف تھے۔
معیشت کے شعبے میں اٹھاون فیصد کے خیال میں افراط زر سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ ستتر فیصد نے کہا کہ پٹرول، قدرتی گیس، گندم اور بجلی کی کمی بھی بڑے مسائل میں شامل ہیں۔
معزول ججوں کے قضیے کے بارے میں اڑتیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے نکالے گئے چونٹسھ میں سے اٹھاون کی بحالی سے مطمئن نہیں تھے۔ تاہم تیس فیصد ان اقدامات سے خوش تھے۔
ساٹھ فیصد افراد کے خیال میں اب عدلیہ سے بڑھ کر معیشت اور سکیورٹی کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اکتیس فیصد تمام ججوں کی بحالی کے لیے احتجاج جاری رکھنے کے حق میں تھے۔
سروے میں شامل تہتر فیصد افراد قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں کے مخالف ہیں البتہ تیرہ فیصد اس کے حق میں بھی تھے۔ تاہم جب ان افراد سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو پہلے اطلاع دینے اور پاکستانی فوج کے تعاون سے ایسی کارروائی کریں تو وہ ان کی حمایت کریں گے تو انچاس فیصد اس کے حق جبکہ پینتیس فیصد اس کے بھی مخالف تھے۔
افغانستان کے رہنما حامد کرزئی کی حکومت کے بارے میں چون فیصد افراد کی رائے تھی کہ وہ بھارت نواز ہیں۔
اسلام آباد میں میریئٹ ہوٹل پر حملے کی بابت پچاس فیصد کا کہنا تھا انہیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کون ہے جبکہ بیس فیصد کا شک امریکہ، تیرہ فیصد پاکستان، پانچ فیصد طالبان اور دو فیصد کا دہشت گردوں پر تھا۔
پاکستان میں سیاسی عدم اطمینان سیاستدانوں کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ فیصد صدر آصف علی زرداری کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی مقبولیت اس سروے میں بیس فیصد ہے جبکہ جون کے سروے میں ان کی مقبولیت پینتالیس فیصد تھی۔
تاہم جون کے جائزے میں مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف سب سے مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ صدر مشرف کے جانے سے ان کی حمایت بڑھی ہے تاہم مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جون میں ان کی مقبولیت بیاسی فیصد تھی اور حالیہ سروے میں ان کی مقبولیت اب ساٹھ فیصد پر آگئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے بہترین شخصیت کون ہے تو اکتیس فیصد نے نواز شریف جبکہ محض آٹھ فیصد نے زرداری کے حق میں ووٹ دیا۔ بطور صدر انسٹھ فیصد نواز شریف جبکہ انیس فیصد زرداری کے حق میں تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے بارے میں بائیس فیصد انہیں معاف کرنے، اکیس فیصد کوئی سزا دینے جبکہ انسٹھ فیصد کو نہیں معلوم تھا ان کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔ جون میں بتیس فیصد کے مقابلے میں اب اسے صرف انیس فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمایت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
موجودہ پاکستانی قانون کے مقابلے میں شریعت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں باسٹھ فیصد شریعت کے حق میں جبکہ چودہ فیصد شریعت کے کردار میں کمی کے خواہاں تھے۔ اڑتالیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے پارلیمان سے لیے گئے اختیارات واپس لینے کے حق میں تھے۔ تاہم اڑتیس فیصد صدر کے پاس انہیں رہنے دینا چاہتے تھے۔
پاکستانی اداروں میں میڈیا کے بعد فوج سب سے مقبول ادارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ فوج کے حق میں اڑسٹھ فیصد جبکہ میڈیا بہتر فیصد کی حمایت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔
چھبیس فیصد کے خیال میں سویلین حکومت کا فوج پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیے جبکہ اڑتالیس فیصد کچھ کنٹرول کے حق میں تھے۔ چھپن فیصد صرف ہنگامی حالات میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے حق میں تھے۔ پینتالیس فیصد کے خیال میں فوج کا اختیار صدر جبکہ چالیس فیصد وزیر اعظم کے پاس ہونے کے حق میں تھے۔
ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف نے اس تنظیم کے سروے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حقیقی عوامی رائے کی ترجمانی نہیں کرتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں تازہ سروے کے نتائج کوئی زیادہ حیرت انگیز نہیں ہیں۔
اپنے آپ کو غیرسیاسی اور غیرمنافع بخش قرار دینے والے آئی آر آئی سنہ دو ہزار دو سے اس قسم کے سروے کر رہی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا فروغ ہے جس کے لیے وہ سیاسی جماعتوں اور سول اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کے تازہ سروے کے مطابق اٹھاسی فیصد پاکستانیوں کے خیال میں ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور اکثر لوگ پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
امریکی ادارے نے یہ سروے رواں سال پندرہ سے تیس اکتوبر کے درمیان کیا جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے پچاس اضلاع کے ساڑھے تین ہزار افراد سے ملکی صورتحال پر رائے معلوم کی گئی۔
سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت ناامیدی اور عدم اطمینان کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ تاہم معاشی مستقبل کے بارے میں لوگوں کی ناامیدی میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
انسٹھ فیصد افراد کے خیال میں آئندہ برس ان کی اقتصادی حالت مزید خراب ہوگی۔ رواں سال جون میں یہ تناسب چھیالیس جبکہ جنوری میں اڑتالیس فیصد تھا۔ اکتوبر میں اٹھہتر فیصد اپنے آپ کو زیادہ غیرمحفوظ بھی قرار دیتے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اس سال جنوری میں یہ تناسب پچاسی فیصد تھا۔
تازہ سروے میں پیپلز پارٹی حکومت کی مقبولیت میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ محض اکیس فیصد کا جواب مثبت تھا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا ان کے خیال میں نئی حکومت کی اہم مسائل پر کارکردگی کیسی رہی۔ چھہتر فیصد کے خیال میں حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔
جمہوری حکومت اور منتخب پارلیمان کی موجودگی میں حالات کی بہتری سے متعلق ستاسٹھ فیصد پرامید نہیں جبکہ پندرہ فیصد کو امید دکھائی دے رہی تھی۔ محض اٹھائیس فیصد کے خیال میں ملک نے صدر اور فوجی سربراہ کے عہدے علیحدہ ہونے اور صدر مشرف کے مستعفی ہونے سے جمہوریت کے جانب پیش رفت کی ہے جبکہ باون فیصد اس سے متفق نہیں تھے
یس فیصد لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کو بحال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تاہم ساٹھ فیصد نے ان کی علیحدگی کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری پر ڈالی۔ ستائیس فیصد لوگوں کے خیال میں پیپلز پارٹی اب مسلم لیگ (قاف) کے ساتھ اتحاد استوار کرے گی۔
دہشت گردی کے زمرے میں ساٹھ فیصد افراد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے مذہبی انتہا پسندی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس رائے عامہ میں دس فیصد افراد نے خودکش حملوں کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔
زیادہ تر افراد اس حق میں تھے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تاہم یہ رائے رکھنے والوں میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ صرف چون فیصد افراد نے مذاکرات کے حق میں رائے دی۔ جبکہ پینتیس فیصد افراد مذاکرات کے خلاف ہیں۔ مذاکرات کے خلاف رائے رکھنے والے افراد میں جون سے سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے حوالے سے اڑتیس فیصد اس آپریشن کے حق میں تھے جبکہ پچاس فیصد اس کے خلاف تھے۔
خصوص سوال کہ آیا فوجی آپریشن کے حق میں ہیں کیونکہ شدت پسند پاکستانیوں پر خودکش حملے کر رہے تھے تو تریسٹھ فیصد نے ہاں میں جبکہ پچیس فیصد نے نفی میں جواب دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حلیف ہونے کے حوالے سے اٹھائیس فیصد افراد اس کے حق میں تھے جبکہ تریسٹھ فیصد افراد حریف ہونے کے خلاف تھے۔
معیشت کے شعبے میں اٹھاون فیصد کے خیال میں افراط زر سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ ستتر فیصد نے کہا کہ پٹرول، قدرتی گیس، گندم اور بجلی کی کمی بھی بڑے مسائل میں شامل ہیں۔
معزول ججوں کے قضیے کے بارے میں اڑتیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے نکالے گئے چونٹسھ میں سے اٹھاون کی بحالی سے مطمئن نہیں تھے۔ تاہم تیس فیصد ان اقدامات سے خوش تھے۔
ساٹھ فیصد افراد کے خیال میں اب عدلیہ سے بڑھ کر معیشت اور سکیورٹی کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اکتیس فیصد تمام ججوں کی بحالی کے لیے احتجاج جاری رکھنے کے حق میں تھے۔
سروے میں شامل تہتر فیصد افراد قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں کے مخالف ہیں البتہ تیرہ فیصد اس کے حق میں بھی تھے۔ تاہم جب ان افراد سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو پہلے اطلاع دینے اور پاکستانی فوج کے تعاون سے ایسی کارروائی کریں تو وہ ان کی حمایت کریں گے تو انچاس فیصد اس کے حق جبکہ پینتیس فیصد اس کے بھی مخالف تھے۔
افغانستان کے رہنما حامد کرزئی کی حکومت کے بارے میں چون فیصد افراد کی رائے تھی کہ وہ بھارت نواز ہیں۔
اسلام آباد میں میریئٹ ہوٹل پر حملے کی بابت پچاس فیصد کا کہنا تھا انہیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کون ہے جبکہ بیس فیصد کا شک امریکہ، تیرہ فیصد پاکستان، پانچ فیصد طالبان اور دو فیصد کا دہشت گردوں پر تھا۔
پاکستان میں سیاسی عدم اطمینان سیاستدانوں کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ فیصد صدر آصف علی زرداری کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی مقبولیت اس سروے میں بیس فیصد ہے جبکہ جون کے سروے میں ان کی مقبولیت پینتالیس فیصد تھی۔
تاہم جون کے جائزے میں مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف سب سے مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ صدر مشرف کے جانے سے ان کی حمایت بڑھی ہے تاہم مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جون میں ان کی مقبولیت بیاسی فیصد تھی اور حالیہ سروے میں ان کی مقبولیت اب ساٹھ فیصد پر آگئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے بہترین شخصیت کون ہے تو اکتیس فیصد نے نواز شریف جبکہ محض آٹھ فیصد نے زرداری کے حق میں ووٹ دیا۔ بطور صدر انسٹھ فیصد نواز شریف جبکہ انیس فیصد زرداری کے حق میں تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے بارے میں بائیس فیصد انہیں معاف کرنے، اکیس فیصد کوئی سزا دینے جبکہ انسٹھ فیصد کو نہیں معلوم تھا ان کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔ جون میں بتیس فیصد کے مقابلے میں اب اسے صرف انیس فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمایت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
موجودہ پاکستانی قانون کے مقابلے میں شریعت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں باسٹھ فیصد شریعت کے حق میں جبکہ چودہ فیصد شریعت کے کردار میں کمی کے خواہاں تھے۔ اڑتالیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے پارلیمان سے لیے گئے اختیارات واپس لینے کے حق میں تھے۔ تاہم اڑتیس فیصد صدر کے پاس انہیں رہنے دینا چاہتے تھے۔
پاکستانی اداروں میں میڈیا کے بعد فوج سب سے مقبول ادارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ فوج کے حق میں اڑسٹھ فیصد جبکہ میڈیا بہتر فیصد کی حمایت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔
چھبیس فیصد کے خیال میں سویلین حکومت کا فوج پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیے جبکہ اڑتالیس فیصد کچھ کنٹرول کے حق میں تھے۔ چھپن فیصد صرف ہنگامی حالات میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے حق میں تھے۔ پینتالیس فیصد کے خیال میں فوج کا اختیار صدر جبکہ چالیس فیصد وزیر اعظم کے پاس ہونے کے حق میں تھے۔
ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف نے اس تنظیم کے سروے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حقیقی عوامی رائے کی ترجمانی نہیں کرتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں تازہ سروے کے نتائج کوئی زیادہ حیرت انگیز نہیں ہیں۔
اپنے آپ کو غیرسیاسی اور غیرمنافع بخش قرار دینے والے آئی آر آئی سنہ دو ہزار دو سے اس قسم کے سروے کر رہی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا فروغ ہے جس کے لیے وہ سیاسی جماعتوں اور سول اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔