محمد تابش صدیقی
منتظم
یہی تو وہ مشینی کام ہے۔ ہمارے دوستوں میں ایسے ڈاکٹر بھی پائے جاتے ہیں جو مریض کے کلینک میں داخل ہوتے ہی نسخہ لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ تین منٹ میں مریض کلینک سے باہر
میرا ایسا ہی کچھ تلخ تجربہ اسلام آباد کے ایک مانے ہوئے نیورو سرجن کا ہے کہ جن کے پاس ان کے ویٹنگ روم میں تین گھنٹے بیٹھنے کے بعد جب باری آئی تو موصوف میری شکل سے بیماری سمجھ گئے اور میری بات بھی پوری طرح نہ سنی. 3 منٹ میں، میں ان کے کمرے سے باہر تھا. ان کی مقبولیت کے سہارے ان کی دی گئی دوائی کھاتا رہا. اور نوبت کولہے کی ہڈی کی تبدیلی تک پہنچی، کیونکہ انہوں نے مرض کی درست تشخیص ہی نہیں کی تھی.