زین
لائبریرین
از شاہنواز فاروقی
ہماری قومی زندگی میں امریکہ کہاں نہیں ہے! ہماری حکومتیں امریکہ تخلیق کرتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے چہروں پر امریکی ساختہ لکھا ہوا ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں امریکہ کی سیاسی موسیقی پر رقص کرتی ہیں۔ ہمارے دفاع پر امریکہ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے قلب میں امریکی پرچم لہرا رہا ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کے مالیاتی اداروں کے احکامات پر چلتی ہے۔ ہماری داخلہ پالیسی امریکی ترجیحات کے مطابق مرتب ہوتی ہے۔ ہمارے جرنیل اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکی ماہرین ہمارا قومی بجٹ بناتے ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں ہمارے تعلیمی نصاب کا بڑا حصہ مشرف بہ امریکہ ہوچکا ہے۔ ہمارے بہت سے دینی مدارس میں امریکہ کی اصلاحات تاریکی پھیلا رہی ہیں۔ آغا خان بورڈ پر بہت سے لوگوں کو امریکہ کا سایہ نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان پر امریکہ کی مکمل گرفت کا منظرنامہ ہے، مگر امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُس نے پاکستان کے ”ابلاغی اغوا“ کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس منصوبے کا ایک پہلو پاکستان پر امریکی چینلوں کی یلغار ہے۔ پاکستان میں سی این این، فوکس نیوز اور سی این بی سی پہلے ہی موجود تھے مگر پاکستان میں امریکی چینلوں کا اردو روپ بھی ظاہر ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں مواد کی اشاعت و پیشکش پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے معاملے سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے۔ اس معاملے کا لب ِلباب یہ ہے کہ شیریں مزاری نے پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں بلیک واٹر کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، مگر امریکی سفارت کاروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے یہ مضمون شائع ہونے سے رکوا دیا، تاہم جب شیریں مزاری کا یہ مضمون انٹرنیٹ کے ایک بلاگ پر طلوع ہوگیا تو مذکورہ اخبار نے بھی اسے شائع کردیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی ہمارے ابلاغی اغوا کے لیے کس سطح پر اتر کر کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملات یہیں تک محدود نہیں۔
دی نیوز کراچی کی 24 دسمبر کی اشاعت میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں یو ایس ایڈ نے پاکستان میں بچوںکے ٹیلی وژن پروگرام کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ اشتہار کے مطابق ان پروگراموں کا عرصہ چار سال پر محیط ہوگا اور اس پر امریکہ ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو امریکہ پاکستان میں بچوں کے ٹی وی پروگراموں کی تیاری پر تقریباً ایک ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت بچوں کے لیے مقامی امریکی ٹی وی چینل شروع ہوگا یا محض بچوںکے لیے پروگرام تیار کیے جائیں گے؟ یہ امر اشتہار سے پوری طرح واضح نہیں، لیکن اشتہار میں منصوبے کے تین مقاصد واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اشتہار میں منصوبے کا پہلا مقصد بچوں کو زبان کی تشکیل میں مدد دینا، دوسرا مقصد بچوں میں مسائل حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ منصوبے کا تیسرا مقصد بچوں میں ”تنقیدی فکر“ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
منصوبے کے یہ تینوں مقاصد بظاہر سیدھے سادے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ کیا جائے تو اصل حقیقت تک رسائی ہوجاتی ہے۔ زبان بیرونی دنیا سے بچے کے تعلق اور رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ بچے زبان کے وسیلے ہی سے دنیا کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ جیسی ان کی زبان ہوگی ویسی ہی ان کی دنیا بھی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر زبان کا ”ماڈل“ بھی امریکی ہوگا تو بچوں کا زاویہ ¿ نگاہ ابتدا ہی سے ”امریکی“ ہوجائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ زبان کے ذریعے ذہن اور تصور کی ”امریکہ کاری“ ہے۔ زبان ”تعمیر“ کا ذریعہ ہے۔ ”تخلیق“ کا وسیلہ ہے۔ مگر امریکہ پاکستان میں اسے بھی ”تخریب“ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا اچھی بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مسائل کا ”تصور“ کیا پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کی ترجیحات کے حوالے سے مسائل کی ایک فہرست ”اسلامی“ ہے۔ ترجیحات کے اعتبار سے مسائل کی دوسری فہرست ”مغربی“ ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ امریکہ ہمارے بچوں کو مسائل کی اسلامی فہرست کے ذریعے تو تربیت دینے سے رہا۔
بچوں میں تنقیدی فکر کی صلاحیت پیدا کرنا بظاہر بڑی دانش ورانہ بات لگتی ہے، لیکن مغرب اسلام کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اُسے دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں میں تنقیدی فکر پیدا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی بچوں میں اسلامی عقائد و نظریات اور اسلامی تصورات و اقدار کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان پیدا کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہماری نئی نسل کے روحانی، تہذیبی، نفسیاتی و ذہنی اغوا کا منصوبہ ہے جو ہماری ہی سرزمین پر ہمارے ہی لوگوں کی مدد سے بروئے کار آنے والا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
ہمارے یہاں امریکی فکر اور امریکی اقدامات کے حوالے سے ”امریکی سازش“ کی اصطلاح مروج ہے۔ اس اصطلاح کے تحت ہم کہتے ہیں کہ امریکہ ہمارے خلاف فلاں سازش کررہا ہے۔ لیکن سازش ”خفیہ“ ہوتی ہے۔ امریکہ زیربحث اقدام کے حوالے سے جو کچھ کررہا ہے وہ سازش نہیں ہے، ”منصوبہ“ ہے۔ سازش خفیہ ہوتی ہے اور منصوبہ سرعام بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اور امریکہ نے تو اس منصوبے کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا ہے۔ اس سے امریکہ کے اس اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آخر یہ ہماری کیسی ”پاکستانیت“ ہے جو بھارت کے نیوز چینلز کو روکتی ہے مگر امریکہ کے کسی طرح کے چینلز پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
امریکہ کا زیر بحث منصوبہ چار سال پر محیط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے سلسلے میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کررہا ہے اور وہ ایک آدھ سال میں پاکستان سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کا مسئلہ ”اسلامی انتہا پسند“ ہیں۔ لیکن امریکہ کا مذکورہ منصوبہ اسلامی انتہا پسندوں سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ امریکہ ہمارے پورے معاشرے کی تشکیلِ نو چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بچوں تک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں پہلے ہی بچوں کے لیے مغربی چینلوں کی بھرمار ہے۔ ان میں کارٹون نیٹ ورک، ڈزنی، نکلوڈین اور بے بی ٹی وی سرفہرست ہیں۔ ان چینلوں کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں ان چینلوں نے لاکھوں بچوں کو ٹی وی کا قیدی اور ٹی وی کا مریض بنادیا ہے۔ مگر امریکہ کے لیے یہ کافی نہیں ہے، اور وہ ہمارے بچوں کے لیے مقامی ابلاغی قتل گاہیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جس طرح جیکب آباد اور پسنی کے ہوائی اڈوں پر امریکی قبضے کو قبول کرلیا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ابلاغی اغوا کے امریکی منصوبے کو بھی قبول کیے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے یہاں روسی ایجنٹ کی اصطلاح رائج تھی اور ان ایجنٹوں کی شناخت واضح تھی۔ بھارتی ایجنٹوں کی شناخت بھی ہمارے یہاں واضح رہی ہے۔ مگر امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کو تو ہم امریکی ایجنٹ تک کہنے اور ان کی شناخت متعین کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ماخذ:
بشکریہ فرائیڈے اسپیشل ، کراچی
کمپوزنگ: تلخابہ
ہماری قومی زندگی میں امریکہ کہاں نہیں ہے! ہماری حکومتیں امریکہ تخلیق کرتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے چہروں پر امریکی ساختہ لکھا ہوا ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں امریکہ کی سیاسی موسیقی پر رقص کرتی ہیں۔ ہمارے دفاع پر امریکہ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے قلب میں امریکی پرچم لہرا رہا ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کے مالیاتی اداروں کے احکامات پر چلتی ہے۔ ہماری داخلہ پالیسی امریکی ترجیحات کے مطابق مرتب ہوتی ہے۔ ہمارے جرنیل اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکی ماہرین ہمارا قومی بجٹ بناتے ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں ہمارے تعلیمی نصاب کا بڑا حصہ مشرف بہ امریکہ ہوچکا ہے۔ ہمارے بہت سے دینی مدارس میں امریکہ کی اصلاحات تاریکی پھیلا رہی ہیں۔ آغا خان بورڈ پر بہت سے لوگوں کو امریکہ کا سایہ نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان پر امریکہ کی مکمل گرفت کا منظرنامہ ہے، مگر امریکہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُس نے پاکستان کے ”ابلاغی اغوا“ کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس منصوبے کا ایک پہلو پاکستان پر امریکی چینلوں کی یلغار ہے۔ پاکستان میں سی این این، فوکس نیوز اور سی این بی سی پہلے ہی موجود تھے مگر پاکستان میں امریکی چینلوں کا اردو روپ بھی ظاہر ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں مواد کی اشاعت و پیشکش پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے معاملے سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے۔ اس معاملے کا لب ِلباب یہ ہے کہ شیریں مزاری نے پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں بلیک واٹر کے حوالے سے ایک مضمون لکھا، مگر امریکی سفارت کاروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے یہ مضمون شائع ہونے سے رکوا دیا، تاہم جب شیریں مزاری کا یہ مضمون انٹرنیٹ کے ایک بلاگ پر طلوع ہوگیا تو مذکورہ اخبار نے بھی اسے شائع کردیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی ہمارے ابلاغی اغوا کے لیے کس سطح پر اتر کر کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملات یہیں تک محدود نہیں۔
دی نیوز کراچی کی 24 دسمبر کی اشاعت میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں یو ایس ایڈ نے پاکستان میں بچوںکے ٹیلی وژن پروگرام کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ اشتہار کے مطابق ان پروگراموں کا عرصہ چار سال پر محیط ہوگا اور اس پر امریکہ ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو امریکہ پاکستان میں بچوں کے ٹی وی پروگراموں کی تیاری پر تقریباً ایک ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت بچوں کے لیے مقامی امریکی ٹی وی چینل شروع ہوگا یا محض بچوںکے لیے پروگرام تیار کیے جائیں گے؟ یہ امر اشتہار سے پوری طرح واضح نہیں، لیکن اشتہار میں منصوبے کے تین مقاصد واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اشتہار میں منصوبے کا پہلا مقصد بچوں کو زبان کی تشکیل میں مدد دینا، دوسرا مقصد بچوں میں مسائل حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ منصوبے کا تیسرا مقصد بچوں میں ”تنقیدی فکر“ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
منصوبے کے یہ تینوں مقاصد بظاہر سیدھے سادے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ کیا جائے تو اصل حقیقت تک رسائی ہوجاتی ہے۔ زبان بیرونی دنیا سے بچے کے تعلق اور رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ بچے زبان کے وسیلے ہی سے دنیا کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ جیسی ان کی زبان ہوگی ویسی ہی ان کی دنیا بھی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر زبان کا ”ماڈل“ بھی امریکی ہوگا تو بچوں کا زاویہ ¿ نگاہ ابتدا ہی سے ”امریکی“ ہوجائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ زبان کے ذریعے ذہن اور تصور کی ”امریکہ کاری“ ہے۔ زبان ”تعمیر“ کا ذریعہ ہے۔ ”تخلیق“ کا وسیلہ ہے۔ مگر امریکہ پاکستان میں اسے بھی ”تخریب“ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی استعداد پیدا کرنا اچھی بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مسائل کا ”تصور“ کیا پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کی ترجیحات کے حوالے سے مسائل کی ایک فہرست ”اسلامی“ ہے۔ ترجیحات کے اعتبار سے مسائل کی دوسری فہرست ”مغربی“ ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ امریکہ ہمارے بچوں کو مسائل کی اسلامی فہرست کے ذریعے تو تربیت دینے سے رہا۔
بچوں میں تنقیدی فکر کی صلاحیت پیدا کرنا بظاہر بڑی دانش ورانہ بات لگتی ہے، لیکن مغرب اسلام کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اُسے دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں میں تنقیدی فکر پیدا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی بچوں میں اسلامی عقائد و نظریات اور اسلامی تصورات و اقدار کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان پیدا کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہماری نئی نسل کے روحانی، تہذیبی، نفسیاتی و ذہنی اغوا کا منصوبہ ہے جو ہماری ہی سرزمین پر ہمارے ہی لوگوں کی مدد سے بروئے کار آنے والا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
ہمارے یہاں امریکی فکر اور امریکی اقدامات کے حوالے سے ”امریکی سازش“ کی اصطلاح مروج ہے۔ اس اصطلاح کے تحت ہم کہتے ہیں کہ امریکہ ہمارے خلاف فلاں سازش کررہا ہے۔ لیکن سازش ”خفیہ“ ہوتی ہے۔ امریکہ زیربحث اقدام کے حوالے سے جو کچھ کررہا ہے وہ سازش نہیں ہے، ”منصوبہ“ ہے۔ سازش خفیہ ہوتی ہے اور منصوبہ سرعام بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اور امریکہ نے تو اس منصوبے کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا ہے۔ اس سے امریکہ کے اس اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آخر یہ ہماری کیسی ”پاکستانیت“ ہے جو بھارت کے نیوز چینلز کو روکتی ہے مگر امریکہ کے کسی طرح کے چینلز پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
امریکہ کا زیر بحث منصوبہ چار سال پر محیط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے سلسلے میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کررہا ہے اور وہ ایک آدھ سال میں پاکستان سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کا مسئلہ ”اسلامی انتہا پسند“ ہیں۔ لیکن امریکہ کا مذکورہ منصوبہ اسلامی انتہا پسندوں سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ امریکہ ہمارے پورے معاشرے کی تشکیلِ نو چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بچوں تک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں پہلے ہی بچوں کے لیے مغربی چینلوں کی بھرمار ہے۔ ان میں کارٹون نیٹ ورک، ڈزنی، نکلوڈین اور بے بی ٹی وی سرفہرست ہیں۔ ان چینلوں کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں ان چینلوں نے لاکھوں بچوں کو ٹی وی کا قیدی اور ٹی وی کا مریض بنادیا ہے۔ مگر امریکہ کے لیے یہ کافی نہیں ہے، اور وہ ہمارے بچوں کے لیے مقامی ابلاغی قتل گاہیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جس طرح جیکب آباد اور پسنی کے ہوائی اڈوں پر امریکی قبضے کو قبول کرلیا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ابلاغی اغوا کے امریکی منصوبے کو بھی قبول کیے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے یہاں روسی ایجنٹ کی اصطلاح رائج تھی اور ان ایجنٹوں کی شناخت واضح تھی۔ بھارتی ایجنٹوں کی شناخت بھی ہمارے یہاں واضح رہی ہے۔ مگر امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کو تو ہم امریکی ایجنٹ تک کہنے اور ان کی شناخت متعین کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ماخذ:
بشکریہ فرائیڈے اسپیشل ، کراچی
کمپوزنگ: تلخابہ