محمد علم اللہ
محفلین
محمد علم اللہ اصلاحی
آخر کار مملکت خداداد یعنی اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں انتخابات ہوگئے اور نتائج بھی تقریبا واضح ہو گئے ہیں۔ ابتدائی رجحانات اور غیر سرکاری ذرائع بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کوتقریباً اکثریت ملنے جا رہی ہے اور اب نواز شریف ہی تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے، چونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طور پر منتخب کسی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور اس کے بعد انتخابات بھی تقریبا پرامن طریقے سے نمٹ گئے، اس لئے ان انتخابات کو صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں امید افزا نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ایک ملک کے طور پر جہاں فوج نے بار بار جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا ہو، دیکھا جائے تو اس طرح کے انتخابات واقعی غیر معمولی ہیں، لیکن اس موقع سے یہ دیکھنا ہے کہ صرف کامیاب انتخابات کا انعقاد اور پارٹی کا تقریبا واضح اکثریت لے کر اقتدار میں آنامحض ہے یا اس بات کی ضمانت ہے کہ پاکستان کے بیشتر مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا؟
اس سوال پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو ذرا دیر کے لئے 1997 کے پاکستانی عام انتخابات کی طرف لے جانا چاہوں گا۔اس الیکشن میں نواز شریف کی اسی پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کل 207 میں سے 137 نشستیں جیت لی تھیں، اس وقت ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، جسے مسلم لیگ (نواز) نے صرف اٹھارہ نشستوں پر سمیٹ دیا تھا۔ اس تاریخی جیت کے بعد نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا، لیکن بعد میں کیا ہوا؟ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس موقع پر یہ یاد دلانے کا مقصد یہی ہے کہ صرف انتخابات جیت لینا یا یا بازی مار لینا ہی اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ جمہوری نظام اور ریاست کےاجزائے ترکیبی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
اس وقت پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں، ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اولاً اندرون خانہ پاکستان میں برپا دہشت گردی اور تشدد کو ختم کرنا۔
ثانیاً پاکستان پر خارجہ برتری کو ختم یا کم سے کم محدود کرنا۔
اور ثالثاً پاکستان میں جمہوری اداروں کو استحکام دینا، تاکہ مستقبل میں فوجی ڈکٹیٹر عوام کی گردن پر لاگو نہ ہو۔
جہاں تک پہلے مسئلے یعنی پاکستان میں اندرونی تشدد کے خاتمے کا سوال ہے تو اس کی جڑیں دراصل فرقہ وارانہ اختلافات اور کٹر مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر میں اندر تک جمی ہوئی ہیں۔
اب پیچیدہ سوال یہ ہے کہ کیا محترم نواز شریف بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کی جرأت دکھا سکیں گے؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ نواز شریف کی کامیابی دراصل ان کی پنجاب میں حمایت دینا ہے اور اتفاق سے تقریبا تمام عسکریت پسند مذہبی جماعتوں کا بیس کیمپ بھی پنجاب کی ریاست ہی ہے، ایسے میں اپنے حامیوں کی ہی گردن کاٹنا شاید نواز شریف کے لئے آسان ثابت نہ ہو۔
پنجاب میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان جیسی جماعتیں، ساتھ ہی ان جماعتوں کے حامی پنجاب کے باہر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر ان تینوں میں سے کسی بھی گروپ کے خلاف مسلم لیگ(ن) کی حکومت کچھ کرنے کی کوشش کرے گی تو ہنگامہ ہونا طے ہے۔
دوسرا مسئلہ پاکستان پر خارجہ تسلط ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کی مسلسل بمباری سے سینکڑوں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کی ان کارروائیوں کو عام پاکستانی سخت ناپسند کرتے ہیں، بلکہ محتاط تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جو درگت ہوئی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں امریکہ نے پاکستان میں جب جو چاہاکیا، لیکن پاکستانی حکومت اس کے خلاف چوں کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ ایسے میں نئی حکومت کو عوام کے جذبات کا احترام بالخصوص مذہبی جماعتوں کی ہمدردی حاصل کرنی ہے تو انھیں امریکی کارروائی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اس سال کے آخر میں امریکہ اپنےآپریشن کے خاتمہ کے بطور پاکستانی علاقوں میں کارروائی اور تیز کردے، ایسے میں نئے وزیر اعظم کے لئے امتحان کی اصل گھڑی ہوگی کہ وہ امریکہ کی خوشی اور عوام کے جذبات میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں؟
تیسرا اور اہم مسئلہ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کا ہے، چونکہ خود نواز شریف تختہ الٹے جانے کا درد جھیل چکے ہیں، اس لئے وہ اصل میں کبھی نہیں چاہیں گے کہ مستقبل میں تاریخ دہرائی جائے، اس لیے عجب نہیں کہ فوج کے اختیارات کو کم کرنے پر غور کیا جانے لگے، مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا فوج خود اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے وردی اتروانے پر راضی ہو جائے گی؟ ابھی تو ایسا نہیں لگتا۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بارے میں ایک اور اہم قدم آئی۔ایس۔آئی پر لگام ڈالنا بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی ناکامی میں جتنا اہم کردار اس خفیہ ایجنسی نے انجام دیا ہے، اتنا تو پاکستان کے کسی دشمن نے نہیں دیا۔
اس وقت نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ(ن) فتح کا جشن منانے میں مصروف ہوں گے، ہمارا ارادہ بھی ان کی تقریب کو بدمزہ اور کرکرا کرنے کا نہیں ہے، لیکن چونکہ جمہوری انتخابات ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور اچھے خوابوں کی تکمیل کرنے کا نام ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والے ارباب سیاست ایک مضبوط حکمت عملی تیار کریں کہ وہ پاکستان میں پیش آمدہ ان تین مسائل سمیت دیگر محاذوں پر کس طرح لڑیں گے۔
ان انتخابات کو سب سے زیادہ پر امید نظر وں سے ہمارا ملک ہندوستان دیکھ رہا ہے۔ اب پاکستان کی نئی حکومت کے پالے میں گیند ہے کہ وہ کس طرح ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خوشگوار کرتی ہے۔ مجھے ہند و پاک دوستی کو لے کر پاکستان کی نئی حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر بہت جلد دونوں ممالک کے رشتوں میں تلخی گھول دے گا، چونکہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا ہے اور ایسے میں کونسل جہاد کے سربراہ سید صلاح الدین نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ افغانستان سے نپٹ کر ان کے جنگجو کشمیر جائیں گے۔ ویسے بھی افضل گرو کی پھانسی نے انتہا پسند جماعتوں کو موقع دیا ہے کہ وہ کشمیر میں تشدد کو فروغ دیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان پر دباؤ ہندوستان ہی سے نہیں، دنیا بھر سے ہوگا کہ وہ تشددپسند جماعتوں کو کنٹرول کرے اور پھر وہی پرانا سوال حکومت پاکستان کے سامنے منہ اٹھائے کھڑا ہوگا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
آخر کار مملکت خداداد یعنی اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں انتخابات ہوگئے اور نتائج بھی تقریبا واضح ہو گئے ہیں۔ ابتدائی رجحانات اور غیر سرکاری ذرائع بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کوتقریباً اکثریت ملنے جا رہی ہے اور اب نواز شریف ہی تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے، چونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طور پر منتخب کسی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور اس کے بعد انتخابات بھی تقریبا پرامن طریقے سے نمٹ گئے، اس لئے ان انتخابات کو صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں امید افزا نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ایک ملک کے طور پر جہاں فوج نے بار بار جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا ہو، دیکھا جائے تو اس طرح کے انتخابات واقعی غیر معمولی ہیں، لیکن اس موقع سے یہ دیکھنا ہے کہ صرف کامیاب انتخابات کا انعقاد اور پارٹی کا تقریبا واضح اکثریت لے کر اقتدار میں آنامحض ہے یا اس بات کی ضمانت ہے کہ پاکستان کے بیشتر مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا؟
اس سوال پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو ذرا دیر کے لئے 1997 کے پاکستانی عام انتخابات کی طرف لے جانا چاہوں گا۔اس الیکشن میں نواز شریف کی اسی پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کل 207 میں سے 137 نشستیں جیت لی تھیں، اس وقت ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، جسے مسلم لیگ (نواز) نے صرف اٹھارہ نشستوں پر سمیٹ دیا تھا۔ اس تاریخی جیت کے بعد نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا، لیکن بعد میں کیا ہوا؟ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس موقع پر یہ یاد دلانے کا مقصد یہی ہے کہ صرف انتخابات جیت لینا یا یا بازی مار لینا ہی اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ جمہوری نظام اور ریاست کےاجزائے ترکیبی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
اس وقت پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں، ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اولاً اندرون خانہ پاکستان میں برپا دہشت گردی اور تشدد کو ختم کرنا۔
ثانیاً پاکستان پر خارجہ برتری کو ختم یا کم سے کم محدود کرنا۔
اور ثالثاً پاکستان میں جمہوری اداروں کو استحکام دینا، تاکہ مستقبل میں فوجی ڈکٹیٹر عوام کی گردن پر لاگو نہ ہو۔
جہاں تک پہلے مسئلے یعنی پاکستان میں اندرونی تشدد کے خاتمے کا سوال ہے تو اس کی جڑیں دراصل فرقہ وارانہ اختلافات اور کٹر مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر میں اندر تک جمی ہوئی ہیں۔
اب پیچیدہ سوال یہ ہے کہ کیا محترم نواز شریف بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کی جرأت دکھا سکیں گے؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ نواز شریف کی کامیابی دراصل ان کی پنجاب میں حمایت دینا ہے اور اتفاق سے تقریبا تمام عسکریت پسند مذہبی جماعتوں کا بیس کیمپ بھی پنجاب کی ریاست ہی ہے، ایسے میں اپنے حامیوں کی ہی گردن کاٹنا شاید نواز شریف کے لئے آسان ثابت نہ ہو۔
پنجاب میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان جیسی جماعتیں، ساتھ ہی ان جماعتوں کے حامی پنجاب کے باہر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر ان تینوں میں سے کسی بھی گروپ کے خلاف مسلم لیگ(ن) کی حکومت کچھ کرنے کی کوشش کرے گی تو ہنگامہ ہونا طے ہے۔
دوسرا مسئلہ پاکستان پر خارجہ تسلط ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کی مسلسل بمباری سے سینکڑوں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کی ان کارروائیوں کو عام پاکستانی سخت ناپسند کرتے ہیں، بلکہ محتاط تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جو درگت ہوئی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں امریکہ نے پاکستان میں جب جو چاہاکیا، لیکن پاکستانی حکومت اس کے خلاف چوں کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ ایسے میں نئی حکومت کو عوام کے جذبات کا احترام بالخصوص مذہبی جماعتوں کی ہمدردی حاصل کرنی ہے تو انھیں امریکی کارروائی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اس سال کے آخر میں امریکہ اپنےآپریشن کے خاتمہ کے بطور پاکستانی علاقوں میں کارروائی اور تیز کردے، ایسے میں نئے وزیر اعظم کے لئے امتحان کی اصل گھڑی ہوگی کہ وہ امریکہ کی خوشی اور عوام کے جذبات میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں؟
تیسرا اور اہم مسئلہ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کا ہے، چونکہ خود نواز شریف تختہ الٹے جانے کا درد جھیل چکے ہیں، اس لئے وہ اصل میں کبھی نہیں چاہیں گے کہ مستقبل میں تاریخ دہرائی جائے، اس لیے عجب نہیں کہ فوج کے اختیارات کو کم کرنے پر غور کیا جانے لگے، مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا فوج خود اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے وردی اتروانے پر راضی ہو جائے گی؟ ابھی تو ایسا نہیں لگتا۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بارے میں ایک اور اہم قدم آئی۔ایس۔آئی پر لگام ڈالنا بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی ناکامی میں جتنا اہم کردار اس خفیہ ایجنسی نے انجام دیا ہے، اتنا تو پاکستان کے کسی دشمن نے نہیں دیا۔
اس وقت نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ(ن) فتح کا جشن منانے میں مصروف ہوں گے، ہمارا ارادہ بھی ان کی تقریب کو بدمزہ اور کرکرا کرنے کا نہیں ہے، لیکن چونکہ جمہوری انتخابات ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور اچھے خوابوں کی تکمیل کرنے کا نام ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والے ارباب سیاست ایک مضبوط حکمت عملی تیار کریں کہ وہ پاکستان میں پیش آمدہ ان تین مسائل سمیت دیگر محاذوں پر کس طرح لڑیں گے۔
ان انتخابات کو سب سے زیادہ پر امید نظر وں سے ہمارا ملک ہندوستان دیکھ رہا ہے۔ اب پاکستان کی نئی حکومت کے پالے میں گیند ہے کہ وہ کس طرح ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خوشگوار کرتی ہے۔ مجھے ہند و پاک دوستی کو لے کر پاکستان کی نئی حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر بہت جلد دونوں ممالک کے رشتوں میں تلخی گھول دے گا، چونکہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا ہے اور ایسے میں کونسل جہاد کے سربراہ سید صلاح الدین نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ افغانستان سے نپٹ کر ان کے جنگجو کشمیر جائیں گے۔ ویسے بھی افضل گرو کی پھانسی نے انتہا پسند جماعتوں کو موقع دیا ہے کہ وہ کشمیر میں تشدد کو فروغ دیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان پر دباؤ ہندوستان ہی سے نہیں، دنیا بھر سے ہوگا کہ وہ تشددپسند جماعتوں کو کنٹرول کرے اور پھر وہی پرانا سوال حکومت پاکستان کے سامنے منہ اٹھائے کھڑا ہوگا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟