پاکستان کے بڑے شہروں کے رقبے کا تقابلی جائزہ ۔۔ بذریعہ گوگل ارتھ

مر ہی نہ جائیں اس مظلومیت کے۔
ایک طرف بلوچ غنڈےاور گینگسٹر، دوسری طرف سندھی قوم پرست اور بدمعاش، تیسری طرف پٹھان دہشت گرد اورپنجابی کمبخت پنجاب سے بیٹھ کر ان سب کو یہ ٹریننگز دے رہے ہیں اور سپورٹ کر رہے ہیں
اور بیچ میں !!! ہائے رضیہ معصوم
جس کا ایک بکرا بھی بھاگا ہوا ہے اور دور کہیں سے ڈکارتا رہتا ہے۔
حق کی بات تو یہ ہے کہ جیسے تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور پانی ہمیشہ نشیب کی طرف ہی بہتا ہے اور گھٹنا ہمیشہ پیٹ کی جانب ہی مڑتا ہے لہذا، کراچی کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں سب ہی نے بھرپور کردار ادا کیا ہے کسی ایک قومیت یا پارٹی کو مورد الزام ٹھرانا سراسر زیادتی ہو گی ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کسی نے شروعات کی یا نئے نئے راستے دکھائے تو کسی نے ان راستوں پر اتنی خاک پھانکی کے دوسروں کے لئے کچھ نہیں بچا۔ جنگ سنڈے میگزین میں ایک بہت اچھا مضمون کراچی کے ماضی کے بارے میں چھپا تھا جس میں صاحب مضمون نے بڑی خوبصورت بات لکھی تھی کہ اگر کراچی کے مزدور کو روزگار نا ملے تو پورے ملک کے مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ اپنی زندگی سنوارنے اور قرینے سے گزارنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے یہ شہر ایک بہترین پناہ گاہ تھا۔ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے ملاپ سے ایک نئی تہذیت و ثقافت جنم لے رہی تھی ، دیہی آبادی سے منتقلی کی شرح بہت دھیمی تھی جس کی وجہ سے مختلف زبان بولنے والوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے سے ہم آھنگ ہونے یا گھلنے ملنے کا وقت مل رہا تھا (یہ کراچی کے حالات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ اب ہر کوئی اپنے آبائی علاقے یا ہم زبانوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے یا بقول شخصے اپنے خول سے نکل نہیں پاتا اور دوسرے کی مسائل اور وسائل سے لاعلم رہتا ہے)
 

وجی

لائبریرین
4 سمتوں سے میری مراد کراچی کے داخلی راستے ہیں۔۔۔
کراچی میں داخل ہونے کے لیے ایک طرف حب (بلوچستان) ہے جو کہ لیاری کو چھوتا ہے۔ ایک طرف نیشنل ہائی وے ہے (اسٹیل ٹاؤن)۔ ایک طرف سپر ہائی وے ہے جو کہ سہراب گوٹھ سے ہو کر گزرتا ہے۔
حب کی طرف شروع کیے گئے رہائشی منصوبوں میں "کراچی" کے عوام اس لیے دلچسپی نہیں رکھتے کہ یہ لیاری کے پاس ہے اور لیاری گینگ وار والوں کی بدمعاشیاں جانتے ہی ہونگے آپ۔
نیشنل ہائی وے پر اسٹیل ٹاؤن اور گلشنِ حدید کے علاوہ کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں ہے (شاہ لطیف ٹاؤن وہیں ہے مگر وہ بڑا اور کامیاب پروجیکٹ نہیں ہے)۔ دوسرے یہ کہ اس طرف سندھی قوم پرستوں کی اکثریت ہے جن کی بدمعاشیاں بھی اظہر من الشمس ہیں۔
سپر ہائی وے پر کافی پروجیکٹس شروع کیے گئے مگر وہاں ابھی تک آبادی نہیں ہوسکی۔ آبادی سے میری مراد ہے کہ وہاں بغیر جھجک کے عوام آ جا سکیں۔ گلشنِ معمار بہت اچھا تھا مگر اب وہ بھی لوٹ مار اور قوم پرستوں کی ضد کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔ راستے میں سپر ہائی وے پڑتا ہے جو کہ افغان، پٹھان اور طالبان عنصر کی وجہ سے صرف عوام ہی کے لیے نہیں رینجرز اور پولیس کے لیے بھی خطرناک ہے۔
نہ جانے آپ کے پیمانے اور معلومات کے ذرائع کیا ہیں۔ معذرت کے ساتھ آپ نے جو باتیں کیں اور مثالیں دیں ان پر ہنسنے اور افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا :)
جاوداں سمینٹ فیکٹری کی جگہ نیا ناظم آباد کا پروجیکٹ شروع ہوا ہے۔ بہت بڑا اور اچھا پروجیکٹ ہے مگر اس میں رہائش لیتے ہوئے بھی عوام جھجک رہے ہیں کیوں کہ وہاں کے راستے لسانیت پر بدمعاشی کرنے والوں کے علاقوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔
۔
بھائی آپکے اس جائزے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آخر کیوں دیفنس فیز 9 کراچی شہر کی حدود سے باہر بنایا گیا ہے ۔
 
Top