پاکستان کے تمام مسائل کا حل.... مغربی جمہوریت سے نجات، سید سردار علی

arifkarim

معطل
لاہور اپڈیٹس پہ یہ انٹرویو پڑھا۔ سوچا شیئر کر لوں۔ حیرت ہے کہ ابھی بھی کچھ لوگ مغربی جمہوریت کو ناپسند کرنے والے باقی ہیں!
چیئرمین پاکستان کریسنٹ فرنٹ سید سردار علی کا لاہور اپ ڈیٹس کو خصوصی انٹرویو
انٹرویو: محمد راشد

لاہور اپ ڈیٹس: پاکستان کریسنٹ فرنٹ قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟
سید سردار علی: پاکستان کریسنٹ فرنٹ قائم کرنے کا مقصد پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانا ہے۔

لاہور اپ ڈیٹس: موجودہ صورت حال میں آپ کو پاکستان کا مستقبل کیا نظر آتا ہے؟
سید سردار علی: پاکستان کا مستقبل بہت شاندار ہے۔ ان شاءاللہ۔ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے وسیع، نظریاتی اعتبار سے قوی، معاشی اعتبار سے طاقت ور اور اقوام عالم کی قیادت کی ذمہ داری ادا کرے گا۔

لاہور اپ ڈیٹس: کیا دو قومی نظریے سے شروع ہونے والا نظریہ پاکستان کی صورت مکمل ہو گیا ہے یا ابھی جاری ہے اور جاری رہے گا۔
سید سردار علی: نظریے دو ہیں۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں کو دوسری اقوام کے مقابلے میں اپنی الگ شناخت اور الگ تہذیب کے لئے جذبہ عمل فراہم کرتا ہے ۔اس جذبے کے تحت مسلمانان برصغیر نے ہندوستانی قومیت کے پر فریب نعرے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت اور تہذیب کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور اس میں کامیاب ہوئے ،جبکہ نظریہ پاکستان اس نئی ریاست کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی اصولوں کی روشنی میں ریاست مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے جذبے اور ارادے کا نام ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام ابھی ادھورا ہے ۔گویا دوقومی نظریہ تو قیام پاکستان کی شکل میں اپنی منزل پا گیا لیکن نظریہ پاکستان اپنے عملی اظہارکے لئے پا کستان کی شکل میں ایک جدید اسلامی ریاست کے بروئے کار آنے تک نامکمل رہے گا ۔

لاہور اپ ڈیٹس: آج پاکستان کو کن نظریات اور افکار کی ضرورت ہے اور پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
سید سردار علی: پاکستان کے مسائل کا حل مغربی جمہوریت سے نجات ہے۔معاشرتی استحکام کے پیچھے سیاسی قوت کارفرما ہوتی ہے۔ اگر پولیٹیکل ول (Political Will) کرپٹ ، منقسم اور کمزور ہے تو معاشرہ انٹرسٹ گروپس میں بٹ جاتا ہے اور یہ انٹرسٹ گروپ ایک مافیا کے طور پر کام کرتے ہےں اور معاشرے میں تمام وسائل کے ہوتے ہوئے اجتماعی ترقی رک جاتی ہے۔ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا ۔ اس کے لیے ہم اصلاح کی کوشش کریں گے۔نبی کریم ﷺ کا طریقہ کار یہ ہے کہ برائی کو ایسی ضرب لگاﺅ کہ جب اسے زیر کر لیا تو یہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ ان تمام چھوٹے انٹرسٹ گروپس کو اسی معاشرے کے سیاسی لٹیروں اور مروجہ سیاسی نظام سے تحفظ ملتا ہے اور ان تمام چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس سیاسی نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جائے جو ان تمام برائیوں کی جڑ ہے۔مغربی جمہوریت ہمیں آپس میں بانٹ کر ان چھوٹے انٹرسٹ گروپس کو پروان چڑھاتی ہے اور ہمیں تہذیب وتمدن اور ترقی سے دور کرتی ہے۔ اس لیے معاشرے اور قوم کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اس سیاسی نظام کے خاتمے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہمارے نزدیک اس مغربی جمہوریت کا خاتمہ پاکستان کے حالات میں بہتری کا نقطہ آغاز ہے۔

لاہور اپ ڈیٹس: جمہویت سے نجات کے لیے آپ کا طریقہ کار کیا ہے؟
سید سردار علی: اس وقت پاکستان کے 60سے 65فی صد شہری موجودہ انتخابی نظام سے لاتعلق ہیں۔ اس کے لیے ہم نے لوگوں کو آگاہی دینے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسی معاشرتی تحریک چلائیں گے جس سے عوامی دباﺅ پر اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

لاہور اپ ڈیٹس: کیا جمہوری نظام کو اسلامی کہا جا سکتا ہے؟
سید سردار علی: جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ عوام جبکہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ مغربی جمہوریت میں اکثریت جو قانون بنا لے وہ لاگو ہو جاتا ہے جبکہ اسلام میں سو فیصد اکثریت بھی اللہ تعالیٰ کے قانون میں زیر زبر کی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ مغربی جمہوریت میں غیر اخلاقی اقدار اور سود کو جائز، مرد مرد کی شادی کو قانونی حیثیت دی جا سکتی ہے جبکہ اس قسم کی غیر اخلاقی اقدار کی اسلامی نظام حکومت میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔ مغربی جمہوریت میں سیاسی نظام کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو ضروری خیال کیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں حکمرانوں کے احتساب کا حق عوام کو حاصل ہے لیکن اپوزیشن برائے اپوزیشن کی کوئی گنجائش نہیں۔مغربی جمہوریت میں ہر بالغ مرد عورت چاہے وہ جرائم پیشہ ،سزا یافتہ ،بد کردار اور جاہل ہی کیوں نہ ہو اس کی رائے کو حکومت سازی میں اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے جتنی کہ ایک صاحبِ علم ،قانون پسند ،باعزت اور باکردار کی رائے کو ،جبکہ اسلام میں اہلِ علم اورجاہل کی رائے برابر نہیں ہو سکتی اسی طرح ایک بد کردار شخص کی رائے یعنی ووٹ ایک صاحبِ کردار کی رائے کے برابر نہیں ہوسکتی ۔

لاہور اپ ڈیٹس: پاکستان کے اندر دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں پھر آپ نے الگ تنظیم کیوں بنائی؟
سید سردار علی: پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے دوسری جماعتیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن وہ مغربی جمہوریت کے مر وجہ نظام میں کام کر رہی ہیں جس کے اندر رہتے ہوئے ہم کبھی بھی نظام کو تبد یل نہیں کر سکتے جبکہ ہم پاکستان کو صرف اسلامی نہیں بلکہ جدید اسلامی ریاست بنائیں گے جو ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرے جو آج کے معاشی، سیاسی اور صنعتی چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

لاہور اپ ڈیٹس: کیا کریسنٹ فرنٹ ملک میں نظام شریعت چاہتی ہے؟
سید سردار علی: ہم ریاست مدینہ کے اصولوں کے مطابق پاکستان میں شریعت اور سماجی انصاف کا نظام چاہتے ہیں۔ ایسا نظام جو اللہ کی شریعت اور حدود کے اندر ہو۔

لاہور اپ ڈیٹس: اپنی تحریک کا نام پاکستان کریسنٹ فرنٹ رکھنے کی کوئی خاص وجہ؟
سید سردار علی: جس طرح عیسائیوں کا ممتاز نشان صلیب، اور یہودیوں کا چھ کونوں والا ستارہ ہے اسی طرح مسلمانوں کا بین الاقوامی نشان ہلال یعنی کریسنٹ ہے اس لیے ہم نے اسلامی تہذیب کے ایک نمائندہ نشان کے طور پر اپنی تحریک کے نام کے لیے” کریسنٹ “چنا ہے۔
سورس:
http://lahoreupdates.com/index.php?...0-02-09-19-11-02&catid=68:2010-02-09-19-07-32
 

arifkarim

معطل
ویسے تو سید سردار علی صاحب نے باقی جواب درست دئے ہیں پر ایک جگہ وہ بھی پلٹا کھا گئے:
سید سردار علی: جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ عوام جبکہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
جمہوریت کی تھیوری میں اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ عوام ہیں، پر پریکٹکلی جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کا چشمہ کرپٹ کارپوریشنز اوربینکسٹر نظام کی ممتاز شخصیات ہیں۔ دنیا کا سب سے طاقت امریکی صدر بھی اپنی وال اسٹریٹ اقتصادی محل چلانے والوں کے آگے بے بس۔ پس جمہوریت حقیقت میں عوام کی طاقت نہیں بلکہ امراء کی طاقت کا نام ہے۔ بے شک ٹیکسٹ کتب میں الٹا لکھا ہو!
 
1956 سے یہی سنتے آرہے ہیں۔۔ ۔ ۔یہی باتیں قراردادِ مقاصد کا بھی حصہ ہیں۔ ۔ ۔ اصل بات یہی ہے کہ مذہب کا نام لیکر ایک طبقہ لوگوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کچھ لوگ لاہور اپڈیٹس سے پورا مراسلہ یہاں کاپی پیسٹ کر رہے ہیں۔ کیا یہ کوئی بلاگ ہے یا کوئی باقاعدہ نیوز سائٹ ہے؟
 
Top