محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ہر سیاسی مخالف کو ملک دشمن اور غدار کہنے کے بجائے دوسرے کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ دوسرے کی رائے سے آپ کبھی متفق نہیں ہوسکتے لیکن اس کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک صحت مند بحث کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔اس ٹوئٹ میں پاکستان فوج کے خلاف کس قدر بغض بھرا ہے۔۔ جو دراصل پاکستان کے خلاف ہے ۔
پاکستانی فوج ہمارے پیارے وطن پاکستان کی اصلی سرحدوں کی حفاظت کی زمہ دار ہے۔ نہ اس پر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرض ہے نہ ان کے پاس ایسا تھنک ٹینک موجود ہے۔ یہ کام ملک کے دانشوروں کا ہے۔ حال ہی میں دو عدد ایسے گیت نشر کیے گئے جنہیں سن کر صرف عقلوں کا ماتم کیا جاسکتا ہے۔
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
یا
انڈیا جا جا جا
کشمیر سے نکل جا
اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت سب لکھاریوں، ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کا کام ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق فوج ان دانشورانہ کاموں میں مشغول ہوجائے گی تو اپنے فرائض منصبی سے غفلت کی مرتکب ہوسکتی ہے۔
پاکستان ہم سب کا وطن ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس مارد گیتی سے محبت ہے۔ ہمارے ماں باپ نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں۔اس ملک کی جانب ہجرت کی ہے اور اسے اپنا وطن مالوف قرار دیا ہے ۔ ہم انہی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ہم اس وطن مالوف کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
ادھر
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے کافی تنقید کی زد میں ہے۔
ہندوستان کے کشمیر پر کیے گئے فیصلوں پر احتجاج کا وزیراعظم ئے ایک نیا انداز اپنایا دو ہفتوں تک دفتروں سے باہر نکل کر آدھے گھنٹے تک خاموش کھڑے رہنے کو ہی کافی سمجھاگیا۔ تیسرے ہفتے خاموشی سے اس روش کو بے کار سمجھ کر تک دیا گیا۔
وزیراعظم ئے پہلے خود فیصلہ کیا کہ ہندوستان سے کچھ مخصوص اشیاء کی درآمد شروع کی جائے۔ قوم کی تنقید اور پھر اپنی ہی کابینہ کی مخالفت کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد ملتوی کیا گیا۔ حکومت نے پہلے اعلان کیا کہ جب تک کشمیر پر کیے گیے اقدامات کو واپس نہیں لیتا نہ اس بات کی جائے گی اور نہ تجارت۔۔ پھر خود ہی سکیورٹی اداروں کی سطح پر ہندوستان سے بات چیت
شروع کی۔ اس کے بعد وزیر خارجہ نے ببانگ دہل قوم سے جھوٹ بولا کہ ہندوستان سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہورہی، پھر بھانڈا پھوٹ گیا۔
ان باتوں کا تذکرہ ملک دشمنی نہیں بلکہ نالائقوں کی ناعاقبت اندیشی کا ماتم ہے۔