مذہب کو نشانے بنائے بغیر بھی یہ بات کہی جا سکتی تھی یا نہیں؟
کیا مرتد ہونا ممکن ہے؟
30/07/2020 حاشر ابن ارشاد
ہم عموماً بلاسفیمی کا ترجمہ توہین کرتے ہیں تاہم یہ ترجمہ اس وسیع المعانی ترکیب کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ بلاسفیمی مذہب کی نگاہ میں جرم اور گناہ کے توافق کی اعلی ترین مثال ہے اس لیے سامی مذاہب کی حد تک اس کی سزا بھی شدید ترین ہے۔ آج کے دن گرچہ عیسائیت اور یہودیت بلاسفیمی کی سزا کو تج چکے ہیں لیکن کچھ مسلمان ممالک میں اب بھی یہ ایک حد اور تعزیر کے طور پر رائج ہے۔ رہے ہندوازم، بدھ ازم اور سکھ ازم جیسے بڑے مذاہب یا فلسفوں کے پیروکار، تو وہ بلاسفیمی کو کبھی بھی قانونی دائرے میں نہیں لائے۔
اکثر مسلمان ممالک میں بلاسفیمی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی قانون سازی موجود ہے تاہم پچاس اسلامی ممالک میں صرف چند ملک ایسے ہیں جہاں بلاسفیمی کی سزا موت ہے۔ ان ممالک میں شیعہ فکر کا مرکز ایران اور سنی وہابی فکر کا مرکز سعودی عرب نمایاں ہیں۔ یہاں یہ بات محل نظر ہے کہ یہ دونوں ممالک مذہب کی بالکل جدا گانہ تشریح کرتے ہیں لیکن ایک مذہبی ریاست ہونے کے ناتے بلاسفیمی کی شدید ترین سزا پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس فہرست میں اور نمایاں ممالک افغانستان، قطر، متحدہ عرب امارات، موریطانیہ، یمن اور پاکستان شامل ہیں۔
بلاسفیمی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہودیت اور عیسائیت میں بلاسفیمی کو خدا کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے اور صدیوں اس کا ارتکاب کرنے والے موت کی سزا کے مستحق ٹھہرے ہیں تاہم وقت کے تقاضوں کے پیش نظر اس کی تعریف بدلتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ سائنس دانوں کی تحقیق اور فلسفیوں کے افکار کو بھی بلاسفیمی کے زمرے میں ڈالا گیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہبی پیشواؤں نے بلاسفیمی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور لاکھوں لوگ صدیوں پر محیط ایک کشمکش میں اس کا شکار بنے تاہم اجتماعی معاشرتی شعور کے ارتقاء کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بلاسفیمی کو عیسائی اور یہودی معاشروں میں جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تاہم اب بھی ان مذاہب کے سخت گیر شارح اس کو ایک گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔
اسلامی طرز فکر میں اب بھی بلاسفیمی کو ایک گناہ کے ساتھ ساتھ جرم بھی سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس کی قانونی تشریحات میں بہت سے داخلی تضادات موجود ہیں۔ جن ممالک میں بلاسفیمی کے لیے موت کی سزا مقرر ہے وہاں اس کا ناتہ شارحین ارتداد سے جوڑتے ہیں اور اس پر حد جاری کرتے ہیں۔ حدود کے بارے میں یہ اتفاق ہے کہ اس کی نص براہ راست قرآن سے برآمد کی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں جمہور علماء کا یہ اتفاق فراموش کر دیا جاتا ہے کیونکہ قرآن میں بلاسفیمی کسی بھی صورت جرم کے طور پر مذکور نہیں۔ اسی طرح قرآن میں ارتداد کی بھی کسی دنیاوی سزا کا ذکر نہیں۔ کن لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے، اس پر قرآن میں سیر حاصل مواد ہے لیکن اس فہرست میں مرتد یا گستاخ کسی بھی طرح شامل نہیں ہیں۔
اس کے بعد سیرت کے کچھ واقعات، کچھ روایات اور احادیث سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے دور میں توہین اور ارتداد کی سزا موت دی گئی تھی لیکن یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ یہ نتائج قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم ہیں۔ سورۃ بقرہ کی آیت 256 میں یہ واضح ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر ممکن نہیں ہے۔ قرآن کے کچھ مفسرین اس مشکل سے نکلنے کے لیے بعض اوقات دور کی کوڑی لانے سے پرہیز نہیں کرتے جیسا کہ مودودی صاحب سورۃ التوبہ کی بارہویں آیت سے یہ استدلال لاتے ہیں کہ مرتد مباح الدم ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس آیت کو جس طرح مرضی پڑھ لیجیے، اس سے کسی بھی طرح یہ مطلب نکالنا ممکن نہیں ہے۔ روایات کو پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی اسی طرح کی تشریح سے کام چلایا گیا ہے اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے۔
مثال کے طور پر ابن خطل کا واقعہ اس ضمن میں بار بار پیش کیا جاتا ہے کہ توہین کے جرم میں اسے اس حال میں قتل کر دیا گیا کہ وہ محفوظ رہنے کی خاطر کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا تھا اور وہ بھی ایسے دن جب مکہ میں فتح کے بعد ہر ایک کے لیے عام معافی کا اعلان تھا۔ اس سے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ توہین کا مرتکب ہر حال میں موت کا سزاوار ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے یہ واقعہ براہ راست کسی ماخذ سے پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ابن خطل کی کہانی تھی کیا۔ عبداللہ ابن خطل کو ٹیکس وصولی مہم پر ایک غلام کے ہمراہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا۔ راستے میں انہوں نے غلام کو قتل کر دیا اور رقم کے ساتھ فرار ہو کر مکہ پہنچ گئے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ان کے خلاف غبن اور قتل کا مقدمہ اسلامی اصول کے مطابق تو صرف موت تھا جس کا اعلان مدنی ریاست میں کر دیا گیا تھا تو ابن خطل مرتد ہو کر مکہ میں پناہ گزین ہو گئے۔ فتح مکہ کے وقت وہ مکہ میں موجود واحد شخص تھے جو باقاعدہ ایک اسلامی عدالت سے سزا یافتہ تھے اور اس سزا کا اطلاق ان کے پکڑے جانے پر کر دیا گیا۔ باقی اہل مکہ جنگی حریف تھے اور جنگ میں کیے گئے قتل خواہ وہ ہندہ اور وحشی کے ہاتھوں حضرت حمزہ کی شہادت ہی کیوں نہ ہو، جنگ کا ناگزیر لازمہ سمجھے گئے اور اس پر کسی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وہ لوگ جو برسوں سے اسلام اور نبوت کا ٹھٹھا اڑاتے تھے، ان پر بھی کسی جرم میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ باقی روایات کا بھی بغور جائزہ لیا جائے تو وہ اس کسوٹی پر کھری نہیں اتریں گی جس سے موت کی سزا کا تعین کرنا مقصود ہے۔ اب یہ بات بتانا ہمارے خطیب کیوں مناسب نہیں سمجھتے، یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں
اس بات پر یہاں سانس لیتے ہیں اور پھر تیسرے بنیادی ماخذ کا جائزہ لے لیتے ہیں یعنی کہ اصول فقہ۔ پاکستان میں حنفی فقہ قانون سازی کی بنیاد ہے۔ احناف توہین کو ارتداد کے زمرے میں گنتے ہیں اور رائے یہ ہے کہ جرم کا مرتکب اگر مسلمان ہو تو اسے موت کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن ساتھ ساتھ مجرم کو تین دن کی مہلت بھی دی جائے گی جس دوران وہ توبہ کر سکتا ہے اور توبہ پر سزا ساقط ہو جائے گی۔ پوچھیے کہ ہمارے توہین کے قانون میں یہ گنجائش کہاں گئی؟ اس سے بھی دل چسپ امر یہ ہے کہ احناف کے نزدیک غیر مسلم پر یہ حد جاری نہیں ہو سکتی۔ کیا ہمارا قانون یہ تفریق کرتا ہے؟
مالکی اور حنبلی فقہ میں ارتداد پر توبہ کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح غیر مسلم مجرم اگر اسلام قبول کر لے تو اس کی سزا موقوف ہو جاتی ہے۔ ویسے ہمارے یہاں مالکی فقہ پر کیا کوئی قانون بنایا گیا ہے؟
شافعی توبہ کا دروازہ کھلا رکھنے کے قائل ہیں یعنی کہ مجرم کی توبہ کی صورت میں سزا معاف کر دی جائے گی۔
فقہہ جعفریہ میں بھی موت کی سزا ہے لیکن مسلمان کے لیے، غیر مسلم اسلام قبول کر کے سزا سے بچ سکتا ہے۔
تمام مکتبہ ہائے فکر اس حوالے سے تین باتوں پر متفق ہیں
1۔ مسلم اور غیر مسلم کی سزا یکساں نہیں ہو گی کیونکہ توہین کا بنیادی مقدمہ ارتداد سے جڑے گا اور غیر مسلم مرتد نہیں ہو سکتا
2۔ توہین اپنی نوع میں اس وقت تک جرم نہیں ہے جب تک اسے ارتداد کے درجے میں ثابت نہ کر دیا جائے
3۔ کسی بھی صورت میں یہ فیصلہ کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں، صرف عدالت کا دائرہ کار ہے اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر حد جاری کرنا یا تعزیر نافذ کرنا ممکن نہیں ہے
4۔ مباح الدم، یعنی جس کا قتل جائز ہو، صرف ریاست اور عدالت سے مشروط ہے۔ کسی ایک شخص یا گروہ کے پاس کسی کو مباح الدم سمجھ کر قتل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس معاملے میں یہ توجیہ کہ عدالت یا ریاست یہ سزا نہیں دے رہی، قتل کو جواز نہیں بخش سکتی
ان تمام موشگافیوں میں وہ نکتہ جو ہمارے اکثر احباب نظر انداز کر جاتے ہیں وہ ہے ارتداد کا مقدمہ۔ چلیے ہم یہ بحث نہیں کرتے کہ ارتداد قرآن کی رو سے جرم نہیں ہے اور بربنائے بحث اس کا جرم ہونا تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ارتداد کی تعریف متعین کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم نے ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ادارے جامعہ بنوریہ کے دارالافتا سے جاری کردہ تعریف آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مرتد کون ہے؟ اس سوال کا جواب علامہ محمد یوسف یہ دیتے ہیں۔
”مرتد وہ شخص ہے کہ اپنی مرضی اور رضامندی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے“
ستانوے فی صد آبادی والے مسلم ملک مین کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی اور رضامندی سے اسلام قبول کیا ہے؟ سوائے ایسے بالغ مردوں کے جو کسی دوسرے مذہب سے اسلام میں داخل ہوئے، کوئی بھی شخص اس تعریف پر پورا نہیں اترے گا۔ ہمارا اسلام پیدائش کے اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں اس لیے اس ملک میں یوسف یوحنا جیسے پندرہ بیس لوگوں کو چھوڑ کر کسی کا ارتداد ممکن ہی نہیں۔ ایک قمیض خریدنے جائیں تو۔ لوگ پندرہ قمیضوں کو پرکھ کر ایک کا انتخاب کرتے ہیں، اس طرح مذہب کا مرضی اور رضامندی سے انتخاب بھی اس وقت ممکن ہے جب اور کچھ نہیں تو دس بارہ بنیادی مذاہب کا تقابل تو کسی نے کیا ہو۔ یہ کہنا کہ ہم مرضی اور رضامندی سے مسلمان ہوئے ہیں، اتنی ہی حقیقت ہے جتنا یہ کہنا کہ ہم اپنی مرضی اور رضامندی سے پیدا ہوئے ہیں۔
ارتداد کا کوئی مقدمہ کسی ایسے مسلمان پر قائم کرنا ممکن ہی نہیں جو ”پیدائشی مسلمان“ ہو اس لیے یہ ساری فقہی اور قانونی عمارت جو بڑی محنت سے اس ملک پر قابض آمروں نے کھڑی کی تھی بغیر کسی بنیاد کے ہے اور بغیر بنیاد کے عمارت مکینوں کے لیے تحفظ کا نہیں، موت کا پیغام ہوتی ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ایک اور رجحان جو اب فروغ پا رہا ہے، اس میں سکہ بند مذہبی معذرت خواہ اکثر بہت خوشنما لبادے میں لپیٹ کر توہین کے نام پر کیے گئے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ معذرت خواہ اس بات سے تو مکر نہیں پاتے کہ فقہی لحاظ سے بھی توہین کے ملزم سے پوچھے بغیر اس جرم کا فیصلہ ممکن نہیں اور وہ اگر جرم سے انکاری ہو تو خواہ شواہد کتنے ہی مضبوط ہوں اسے مجرم قرار دینا ممکن نہیں۔ اور اگر کسی طرح ارتداد ثابت ہو بھی جائے تو عدالت توبہ کے لیے تین دن کی مہلت دینے کی پابند ہے۔ اور مجرم صرف اس صورت ٹھہرائے گی جب تین دن بعد بھی ملزم توہین پر مصر ریے۔ رہے ذمی تو ان پر یہ حد جاری کرنا ممکن ہی نہیں۔
اب اس دلیل کے بعد یہ ظاہر ہے کہ ملزم یا تو مجرم قرار پائے گا یا پھر معصوم۔ اور ریاست کے لیے محض ایک مجرم مباح الدم ہو گا۔ اب اس کے بعد مسئلہ رہ گیا ان لوگوں کا جو اپنے ہاتھ میں قانون لیں اور کسی ”ملزم“ کو قتل کردیں۔ یہاں چونکہ ہمدردی اور معذرت خواہی آڑے آتی ہے اس لیے تقی عثمانی صاحب جیسے حضرات ایک نیا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ اپنی ہی تراشی گئی دلیل کی کھائی میں گر کر فنا ہو جاتا ہے۔ اس دلیل کی رو سے اگر یہ امکان ہو کہ ایک شخص کسی کو گستاخ سمجھ کر قتل کر دے تو وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کی گستاخ ارتداد کے باعث مباح الدم ہے، لہذا قاتل کو قصاصاً سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے۔
اب کوئی پوچھے کہ اے شیخ الاسلام، پہلے آپ کہتے ہیں کہ ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر حد جاری کرنا ممکن نہیں اور حد جاری کرنے کے بعد بھی توبہ کا موقع دیے بغیر اسے قتل کرنا ممکن نہیں تو مارے جانے والے کو کوئی مرتد کیسے ثابت کر سکتا ہے۔ نہ وہ قبر سے اٹھ کو صفائی دے سکتا ہے اور نہ ہی اب توبہ کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔ ہر حال میں قاتل نے ایک معصوم کو قتل کیا ہے اور اس کی کوئی صفائی دینا ممکن نہیں ہے۔ لیکن چھوڑیے جناب، اس ملک میں جبہ اور دستار والوں سے سوال ممکن نہیں ہے۔
بحث کو یہاں سمیٹتے ہیں۔ توہین اور ارتداد کے نام پر قانون سازی کم ازکم اسلام کی رو سے ممکن نہیں ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اسلام کا کندھا استعمال کر کے شدت پسندی کو فروغ دینے والی یہ بندوق چلائی جاتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فقہی لحاظ سے یہ قانون بن گیا ہے تو بھی اس کے تحت مقدمہ کبھی بھی براہ راست توہین کا نہیں ہو گا بلکہ براستہ ارتداد ہو گا اور کسی ”پیدائشی مسلمان“ کا ارتداد ایک ناممکن امر ہے۔ رہے ہمارے خطیب اور علماء دین تو ان کی خلعت احمریں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہے اور وہ اسے وجہ افتخار سمجھتے ہیں اس لیے ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ملک میں اب ان قوانین پر بات کرنا بھی توہین گنا جاتا ہے تو معنی خیز مکالمہ کیسے ہو۔ نوجوانوں کو عشق کے نام پر سر اتارنا سکھایا جاتا ہے۔ قاتل محترم ٹھہرتے ہیں اور مقتولین کے خاندان بھی در بدر ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سب روز بروز بدتر ہوا چلا جاتا ہے۔
جدلیاتی مادیت یہ بتاتی ہے کہ فرد کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ معاشرتی ڈھانچہ درست نہ کر دیا جائے اور معاشرتی اصلاح کے لیے جو سیاسی ارادیت درکار ہے وہ موہوم نہیں بلکہ معدوم ہے۔
تو گھوم پھر کر نتیجہ وہی نکلا جو فیض صاحب نے نکالا تھا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ انسان ایک دن سب فنا ہو جائیں گے اور آخر میں، بس نام رہے گا اللہ کا۔ ۔ ۔