پاکستان کے قومی ترانے کی بحر، ہیئت اور زبان

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پاکستان کے قومی ترانے کی بحر، ہیئت اور زبان
راحیلؔ فاروق

7 نومبر 2019ء

پاک سرزمین شاد باد
كشورِ حسين شاد باد
تو نشانِ عزمِ عالی شان
ارضِ پاکستان

مرکزِ یقین شاد باد

پاک سرزمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
قوم ملک سلطنت
پائندہ تابندہ باد

شاد باد منزلِ مراد

پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقى و کمال
ترجمانِ ماضی شانِ حال
جانِ استقبال

سایۂ خدائے ذوالجلال

یہ ہے پاکستان کا قومی ترانہ جو ابولاثر حفیظؔ جالندھری نے لکھا اور 13 اگست 1954ء کو خود پہلی بار ریڈیو پاکستان پر پیش بھی کیا۔ شاعری سے دلچسپی رکھنے والے دوست احباب اس کی زبان، ہیئت اور وزن کے بارے میں کافی متجسس رہتے ہیں۔ ہمیں اس ضمن میں تحقیق یا علم کا دعویٰ نہیں مگر جو ذاتی رائے ہم نے قائم کی ہے وہ شعر و ادب کے طلبہ کے سامنے رکھتے ہیں۔

پس منظر

پاکستان کا موجودہ قومی ترانہ قیامِ پاکستان کے سات برس بعد جاری ہوا۔ 1948ء میں جنوبی افریقہ میں مقیم کسی مسلمان نے اعلان کیا کہ وہ مملکتِ خداداد کے لیے قومی ترانہ لکھنے والے شاعر اور اس کی دھن بنانے والے موسیقار کو پانچ پانچ ہزار روپے انعام دیں گے۔ حکومتِ پاکستان نے ایک قومی ترانہ کمیٹی تشکیل دے دی جس کے دو شعبوں نے قومی ترانے کے لیے دھن اور کلام کی جستجو شروع کی۔ دو ایک غیرملکی سربراہانِ مملکت کے دورے ہوئے تو شدت سے محسوس کیا گیا کہ کم از کم دھن جلدی طے ہو جانی چاہیے تاکہ قومی اور عالمی سطح کی تقریبات میں پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا ہو سکے۔

یکم مارچ 1950ء میں شاہِ ایران نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے پیشتر دھن کی تشکیل کی سرگرمیاں زور پکڑ گئیں اور بالاخر احمد غلام علی چھاگلہ نامی ایک موسیقار کی بنائی ہوئی دھن منتخب کر لی گئی۔ شاہِ ایران کے دورے کے موقع پر قومی ترانے کی موجودہ دھن پہلی بار پیش کی گئی۔

دھن طے ہو چکی تو توجہ بولوں یعنی کلام پر مبذول ہوئی۔ مختلف شعرا کو دھن کے ریکارڈ بھجوائے گئے کہ اس کے مطابق کلام موزوں کریں۔ تین چار برس اس میں بھی لگ گئے۔ بالآخر 1954ء میں حفیظؔ جالندھری مرحوم کا کلام منتخب کر لیا گیا اور پاکستان کا قومی ترانہ اپنی موجودہ شکل میں ظہور پذیر ہوا۔

قومی ترانے کی بحر

شاعرانہ کلام کے سلسلے میں دستور یہ ہے کہ کچھ بحور مقرر ہیں جن پر شعرا شعر کہتے ہیں۔ اشعار کو نغمے کی صورت دینی مقصود ہو تو کلام کے مزاج اور آہنگ سے موافق کوئی دھن ترتیب دے کر اسے گوا لیا جاتا ہے۔ مگر موسیقی کی دنیا میں بہت بار یہ ترتیب الٹ بھی جاتی ہے۔ یعنی اول دھن بنائی جاتی ہے اور بعد میں بول لکھے جاتے ہیں۔ اکثر فلمی نغمہ نگاروں کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔

قومی ترانے کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ دھن کو پہلے حتمی شکل دے دی گئی۔ اب شعرا کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ خود معروف یا غیرمعروف بحروں میں سے کوئی من چاہا آہنگ منتخب کر سکیں۔ ان پر لازم تھا کہ ان کے الفاظ کا اتار چڑھاؤ پہلے سے طے شدہ موسیقی کے زیر و بم کے عین مطابق ہو۔ لہٰذا قومی ترانے کے الفاظ کو اس کی دھن کے مطابق تو سمجھا جا سکتا ہے مگر ان کی تقطیع عروضی اعتبار سے کسی معروف بحر میں نہیں کی جا سکتی۔

قومی ترانے کا وزن درحقیقت عروضی کی بجائے موسیقائی ہے۔ ہمارے موسیقار دوستوں کے ہاں یہ چلن عام ہے کہ وہ کوئی اچھی دھن تخلیق کر لیں تو نغمے کے لیے اسی کے مطابق الفاظ ترتیب دے لیتے ہیں یا کسی شاعر سے اس طرح لکھوا لیتے ہیں۔ حفیظؔ جالندھری نے بھی قومی ترانہ لکھتے ہوئے بالکل یہی کیا۔ اگر آپ غور سے سنیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قومی ترانے کے الفاظ اس کی دھن پر گویا چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ اگر کسی مصرعے کے موجودہ وزن میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کی جائے تو آہنگ یکلخت بگڑ کر رہ جائے گا اور سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔

عروضی اعتبار سے قومی ترانے کے مصرعے چار اوزان کا مجموعہ ہیں جنھیں کسی ایک بحر کے طور پر دیکھنا ممکن نہیں۔ یہ چار اوزان اور متعلقہ مصرعے ذیل میں دیے گئے ہیں:

۱ – فاعلن مفاعلن

اس وزن پر قومی ترانے کا صرف ایک مصرع ہے۔

قوم ملک سلطنت

۲- فاعلن مفاعلن فعول

پاکستان کے قومی ترانے کے سب سے زیادہ یعنی گیارہ مصرعے اس وزن پر تقطیع کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں پچھلے وزن سے ایک وتد اور ایک حرفِ موقوف زائد ہے۔ تاہم عملی طور پر اس قسم کا آخری حرفِ ساکن یعنی حرفِ موقوف چونکہ عروضی وزن کو متاثر نہیں کرتا اس لیے ہم اسے ایک وتد ہی کا اضافہ قرار دیں گے۔

پاک سرزمین شاد باد

كشورِ حسين شاد باد

تو نشانِ عزمِ عالی شان

مرکزِ یقین شاد باد

پاک سرزمین کا نظام

قوتِ اخوتِ عوام

شاد باد منزلِ مراد

پرچمِ ستارہ و ہلال

رہبرِ ترقى و کمال

ترجمانِ ماض شانِ حال

سایۂ خدائے ذوالجلال

۳- فعلن فعلن فاع

اس وزن پر دو مصرعے ہیں۔

ارضِ پاکستان

جانِ استقبال

۴- فعلن فعلن فعلن فاع

اس وزن پر بھی صرف ایک ہی مصرع قومی ترانے کا حصہ ہے۔ یہ وزن، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، گزشتہ وزن میں دو اسبابِ خفیف کے اضافے سے صورت پذیر ہوا ہے۔

پائندہ تابندہ باد

مجموعی آہنگ

مذکورہ بالا چار اوزان کو دیکھنے کے بعد جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قومی ترانے میں تمام مصرعے سببِ خفیف سے شروع ہو کر اوتاد اور اسباب کی پےدرپے یا غیرمنفصل تکرار کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ وزن ہائے اول و دوم میں پہلے سبب کے بعد بالترتیب تین اور چار وتد یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ جبکہ تیسرے اور چوتھے وزن میں مسلسل اسبابِ خفیف پائے جاتے ہیں۔ آخری دو اوزان کے آخر کے اجزا گو تکنیکی اعتبار سے وتد کی ایک قسم ہیں جسے وتدِ مفروق کہا جاتا ہے مگر عملی طور پر یہ آخر میں آنے کی وجہ سے سببِ خفیف ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قومی ترانے کی ہیئت

پاکستان کے قومی ترانے کو عام طور پر مخمس قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تین بندوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر بند پانچ مصرعوں کا مجموعہ ہے۔ مخمس ایسی ہی نظم کو کہتے ہیں۔

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اول تو عروضی اعتبار سے اسے نظم کہنا ہی ڈھیلا ڈھالا سا معاملہ ہے۔ عروض میں نظم ایک ہی یا ملتے جلتے اوزان کی تکرار کو کہتے ہیں۔ یہی چیز بحر کی بنیاد ہے۔ نظم کی بحر ایک ہونا لازم ہے، وزن نہیں۔ لہٰذا نظم میں مختلف مصرعوں کے اوازن مختلف ہو سکتے ہیں مگر آہنگ کے لحاظ سے انھیں ضرور بالضرور ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہیے تاکہ بحر ایک ہی رہے۔ قومی ترانے میں یہ جوہر نہیں پایا جاتا۔ اس میں چار مذکورہ بالا اوزان تو ہیں مگر انھیں ایک بحر قرار دینا ناممکن ہے۔ بحر نہیں ہو گی تو نظم کاہے کی؟ اور نظم نہیں ہے تو مخمس کہاں سے ہو گئی؟

جیسا کہ ہم نے ابھی ابھی کہا کہ وزن ملتے جلتے یا یکساں اوزان کی تکرار ہے تو اس لحاظ سے قومی ترانے کے اوزان بھی چار کی بجائے صرف دو سمجھنے چاہئیں۔ پہلے اور چوتھے وزن کی تکرار تو ہے ہی نہیں۔ ان میں صرف ایک ایک مصرع پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ ساخت کے اعتبار سے پہلا وزن دوسرے کے اور چوتھا تیسرے کے مماثل ہے اس لیے رعایت کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی ترانے میں دو بحور سے کام لیا گیا ہے۔ نظم کی عروضی تعریف پر یہ پھر بھی پورا نہیں اترتا۔

دوسرا مسئلہ زیادہ صاف ہے۔ مخمس میں مصرعوں کے قافیے ردیف کی کوئی ترتیب ہونا لازم ہے۔ روایتی طور پر پہلے بند کے پانچوں مصرعے ایک زمین میں ہوتے ہیں۔ اگلے تمام بندوں میں پہلے چار مصرعے کسی ایک زمین میں اور پانچواں پھر پہلے بند کی زمین میں ہوتا ہے۔ یہاں زمین سے ہماری مراد بحر، قافیے اور ردیف کی مجموعی صورت ہے۔ قومی ترانہ اس علت سے بھی پاک ہے۔ پہلے بند کے پہلے دو مصرعے ہم قافیہ ہیں۔ پھر اگلے دو مصرعوں کا قافیہ جدا ہے۔ پھر آخری مصرع کی زمین پہلے دو مصرعوں سے مشترک ہے۔ قافیہ دوسرے بند کے چوتھے مصرع سے بھی ملتا ہے۔ وزن اس بند کے پانچویں مصرع سے مشترک ہے۔ دوسرے بند کے پہلے دو مصرعے ایک زمین میں ہیں۔ تیسرے کی ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجد ہے۔ آخری بند کا رنگ بالکل نرالا ہے۔ چوتھا مصرع ایک زمین میں اور باقی دوسری میں ہیں۔ قافیہ البتہ تمام میں مشترک ہے۔

لہٰذا قومی ترانہ کو مخمس کہنا بھی اسی قبیل سے ہے جس سے اسے نظم کہنا ہے۔ لیکن نکتے کی بات یہ ہے کہ مخمس ہونا کوئی ایسا نازک یا اہم معاملہ بہرحال نہیں کہ نہ ہوا تو کوئی قیامت آ جائے گی۔

قومی ترانے کی زبان

کتنے ہیں کہ قومی ترانے کو فارسی قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔ کتنے ہیں کہ اردو کی لغتیں کھول کھول کر دکھاتے ہیں اور "کا” کے لفظ سے اس کے صریح اردو ہونے پر استشہاد کرتے ہیں۔ یقیناً اس سب کے پیچھے بہت سے سیاسی اور سماجی محرکات ہیں مگر خالصتاً زبان کا مسئلہ دیکھا جائے تو وہ بہت سادہ ہے۔

سمجھنے کی بات ہے کہ چائے کو چائے قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس میں دودھ کے وجود سے منکر ہو جائیں۔ ہم سے کل ہی ایک مسیحا نے کہا کہ تمھیں دودھ راس نہیں۔ ددودھ اور اس سے بنی تمام چیزیں کھانی پینی چھوڑ دو۔ چائے بھی۔ اللہ اکبر!

چائے تو خیر ہم سے تھانے والے بھی نہیں چھڑوا سکتے مگر کہنا یہ مراد ہے کہ جس طرح دودھ اور چائے میں دودھ مشترک ہے اسی طرح فارسی اور اردو میں قومی ترانے کی زبان مشترک ہے۔ خالص اردو کے واحد لفظ "کا” کے سوا جو دوسرے بند کے پہلے مصرع میں آتا ہے، تمام ترانہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ آپ میٹرک میں اردو کے پرچے میں نقل لگا کر کامیاب ہوئے ہوں یا میٹرک ہی کا تکلف نہ فرمایا ہو تو یہ یقیناً آپ کو فارسی معلوم ہو گا۔

تو پھر ہے کیا قومی ترانہ؟

ہماری دانست میں اسلامی جمہوریۂِ پاکستان کے قومی ترانے کو کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ایک ترانہ یا گیت ہی سمجھنا چاہیے۔ گیت کے لیے دھن کا احترام عروض کی حرمت پر فائق ہے۔ اور یہ گیت جسے اہلِ وطن قومی ترانہ کہتے ہیں بلاشبہ ایک بےنظیر اور بےمثل زمزمہ ہے جس میں مشرقی روایت کی نغمگی کے ساتھ ساتھ ایک گونہ وقار، تمکنت اور شان بھی موجود ہے اور ایک اسلامی مملکت کی تاریخ اور تمدن کا گہرا شعور بھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قومی ترانہ کمیٹی کو پیش کیے گئے باقی ترانے کس قسم کے تھے مگر جو انھوں نے ہمارے لیے منتخب فرمایا ہے وہ سچ مچ ہمارے دلوں کی دھڑکن اور ہمارے تمدن کے جلال کا آئینہ دار کہلانے کا حق رکھتا ہے۔

 

علی وقار

محفلین
راحیل فاروق صاحب کا یہ علمی و تحقیقی مضمون کسی نمایاں جریدے میں شائع ہونے کے قابل ہے۔

قومی ترانے کے حوالے سے بعض تنازعات بھی سامنے آئے اور ایک طویل عرصے تک پرنٹ میڈیا پر اس حوالے سے محققین کے درمیان بحث مباحثہ کا سلسلہ جاری رہا۔

قومی ترانہ: دھن، شاعری اور تنازعات


اختر بلوچ

قیامِ پاکستان کے بعد 7 برس تک پاکستان کا کوئی قومی ترانہ نہ تھا۔ بس ترانے تھے جو مختلف سرکاری تقریبات پر گائے جاتے تھے۔ پاکستانی قیادت کو آئین بنانے میں جتنی دشواریوں کا سامنا تھا، اتنا ہی قومی ترانہ بنانے میں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ ترانہ کس زبان میں لکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے اکثریتی علاقے مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان بولی جاتی تھی، جبکہ مغربی پاکستان میں 4 زبانیں یعنی سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو بولی جاتی تھیں، جبکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی زبانوں سے ہٹ کر اردو کو قائدِ اعظم محمد علی جناح صاحب کی جانب سے قومی زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس بات پر مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالی خاصے معترض تھے۔
عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ”پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت کیا ہے فسانہ؟“ میں لکھتے ہیں کہ:
”4 اگست 1954 کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی ردو بدل کے منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس ترانے کی موجودگی میں اردو اور بنگالی کے دو قومی نغمات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔“
پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے خالق کا انتقال 5 فروری 1953 کو ہوا، جبکہ قومی ترانے کی دھن اور ترانے کی منظوری 4 اگست 1954 کو ہوئی۔ انہیں اپنی زندگی میں یہ دن دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ ان کی اس خدمت کا اعتراف بھی ایک بڑے عرصے بعد کیا گیا۔ جمیل زبیری اپنی کتاب ”یاد خزانہ ریڈیو پاکستان میں 25 سال“ کے صفحہ نمبر 21 پر قومی ترانہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:
”پاکستان کے قومی ترانے کی دھن محمد علی چھاگلہ (کتاب میں شاید پروف کی غلطی کی وجہ سے احمد غلام علی کی جگہ محمد علی لکھ دیا گیا ہے لہٰذا ہم نے من و عن لکھ دیا ہے) نے بنائی۔ اس کے بعد اس دھن پر ترانے لکھنے کے لیے ملک کے تمام شعراء کو مدعو کیا گیا اور سب سے بہتر ترانے کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔
"جب چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے سنی تو انہوں نے سب سے پہلے نہال عبداللہ کمپوزر وغیرہ کو بٹھا کر اس دھن کو موسیقی کی زبان میں ”بانٹا“ اور پھر اس پر سب سے پہلے ترانے کے بول لکھے۔ اسی دوران میں حفیظ جالندھری اور دیگر شعراء کے لکھے ہوئے ترانے موصول ہوگئے۔ سارے ترانے کمیٹی کے سامنے رکھے گئے اور کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو منظور کر لیا۔
"کہتے ہیں کہ بخاری اس پر کافی ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے انہوں نے ترانہ لکھا۔ بہر حال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تھا۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان کے انگریزی پروگراموں کی سپروائیزر مسز فیلڈ برگ (Feld Berg) نے اس کی orchestration کرنے اور notation تیار کرنے کے لیے لندن بھیج دیا۔ جب یہ چیزیں تیار ہو کر ترانہ واپس آیا تو ریڈیو پاکستان میں اس کی ریکارڈنگ ڈائریکٹر جنرل بخاری اور حمید نسیم نے مل کر کی۔ گانے والوں میں نہال عبداللہ، دائم حسین، نظیر بیگم، رشیدہ بیگم، تنویر جہاں، کوکب جہاں، اور چند دیگر فنکار شامل تھے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان نے ملک کا قومی ترانہ تیار کیا۔“

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کب ترتیب دی گئی؟ اور کیا اس سے پہلے بھی کوئی قومی ترانہ تھا یا نہیں؟ سینیئر صحافی نعمت اللہ بخاری کا کہنا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے اسکولوں میں ترانے کے لیے علامہ اقبال کی مشہور نظم ”چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ پڑھی جاتی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکن اقبال علوی کا کہنا ہے ان کے دور میں اقبال کی مشہور نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ پڑھی جاتی تھی۔ لیکن کیا کہیے کہ یہ دونوں نظمیں پاکستان کا قومی ترانہ نہ بن سکیں۔ عقیل عباس جعفری کے مطابق 1960 میں امین الرحمٰن نے ایک مضمون میں پاکستان کے قومی ترانے کی دھن تیار کرنے کا قصہ یوں بیان کیا ہے:

”1950 کے اوائل میں ایران کے جواں سال حکمراں رضا شاہ پہلوی شہنشاہِ ایران، حکومت کی دعوت پر پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ شہنشاہِ ایران کے استقبال کی تقریب پر رواج و آداب کے لحاظ سے ضروری تھا کہ معزز مہمان کا استقبال قومی ترانے سے کیا جائے۔ چنانچہ سرکاری طور پر پاکستان کے قومی ترانے کی ضرورت شدید طور پر محسوس کی گئی۔

احمد غلام علی چھاگلہ اس سے پہلے ہمارے پڑھے لکھے موسیقی داں طبقے میں ایک ماہرِ موسیقی کی حیثیت سے غیر معروف نہ تھے۔ اس تنگ وقت میں جناب چھاگلہ نے صحت کی خرابی کے باوجود شب و روز محنتِ شاقہ سے کام کیا اور آخر کار پاکستان کے قومی ترانے کے لیے ایک مناسب دھن مرتب کر ہی لی۔ جب شہنشاہ ایران پاکستان تشریف لائے تو ہمارے بحریہ کے بینڈ نے اس ترانے کو شہنشاہ ایران کے استقبال کے موقع پر بجایا، جو اسے سن کر بہت متاثر ہوئے۔“

پاکستان کا پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا، اس حوالے سے گزشتہ ایک دہائی سے دانشوروں اور صحافیوں کے درمیان ایک جنگ چل رہی ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا، اس ضمن میں جگن ناتھ آزاد کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے مطابق جناح صاحب نے انہیں یہ کام سونپا تھا کہ وہ پاکستان کا قومی ترانہ لکھیں۔ تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے کہیں بھی اپنے ترانے کو ترانہ نہیں کہا۔ لیکن یہ ایک جنگ ہے جو تا حال جاری ہے۔

سینیئر صحافی نعیم احمد نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ: ”مجھے نہیں لگتا کہ جگن ناتھ آزاد کو جناح صاحب نے قومی ترانہ لکھنے کا کہا ہوگا، اگر ایسا ہوتا تو جگن ناتھ آزاد اس بات کو فخریہ بتاتے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جناح کو اردو شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا اور نہ ہی جگن ناتھ آزاد اور جناح صاحب کبھی کسی شہر میں یکجا رہے ہیں۔"

اگر نعیم صاحب کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کی کیا دلیل ہے کہ اردو سے ناواقف ہونے کے باوجود قائدِ اعظم کا اصرار تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، حالانکہ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں بسنے والے ان کی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بنگالی چاہتے تھے کہ پاکستان کا قومی ترانہ ایسا ہو جس میں بنگالی زبان کے الفاظ بھی شامل ہوں۔ لیکن ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

عقیل عباس جعفری اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 37 پر لکھتے ہیں کہ:

”ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کے مطالعے اور ڈاکٹر صفدر محمود کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچتی ہے کہ 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب ریڈیو پاکستان کی اولین نشریات میں جگن ناتھ آزاد کا کوئی نغمہ یا کوئی ترانہ شامل نہ تھا۔ ممکن ہے کہ جگن ناتھ کا تحریر کردہ نغمہ جسے وہ خود ترانہ اور ان کے مداحین قومی ترانہ کہنے پر مصر ہیں، بعد میں کسی اور وقت نشر ہوا ہو، مگر ابھی تک ریڈیو پاکستان کا کوئی ریکارڈ یا ریڈیو پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کی کوئی تحریر اس کی بھی تصدیق نہیں کر سکی ہے۔“

جمیل زبیری نے اپنی کتاب ”یاد خزانہ، ریڈیو پاکستان میں 25 سال“ کے ابتدائیے میں ایک انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے پہلے ریڈیو اسٹیشن نے 4 اگست 1947 کو اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا بنیادی خیال ایس کے حیدر نامی شخص کو تھا جن کی کراچی میں ریڈیو کی دکان تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں اے ایم چھاگلہ سے مشورہ کیا اس کے بعد وہ دونوں حکومتِ سندھ کے اس وقت کے ایک مشیر اڈنانی سے ملے اور کچھ پرانے ٹرانسمیٹروں کی مرمت کر کے تین کمروں پر مشتمل ایک ریڈیو اسٹیشن بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کا نام ”سندھ گورنمنٹ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن“ رکھا گیا۔ 10 اگست سے اس کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوگیا۔ 14 اگست 1947 کو اس اسٹیشن سے پاکستان کے قیام اور قائدِ اعظم کے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھانے کی کارروائی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا گیا۔ اس ریڈیو اسٹیشن کی نشریات صرف دس روز جاری رہیں۔ 20 اگست 1947 کو اسے بند کر دیا گیا کیوں کہ وائرلیس ایکٹ کے تحت کوئی بھی صوبائی حکومت ریڈیو اسٹیشن نہیں چلا سکتی تھی۔“

کراچی کے حوالے سے معروف محقق گل حسن کلمتی اپنی کتاب ”کراچی کے لافانی کردار“ کے صفحہ نمبر241 پر لکھتے ہیں:

”ممکن ہے اسی تجرباتی ریڈیو اسٹیشن سے جگن ناتھ آزاد کا ترانہ بھی نشر کیا گیا ہو، لیکن اس بات کی تصدیق کرنے والوں میں سے اب کوئی بھی حیات نہیں۔ اس میں مزید تحقیق کی گنجائش ہے۔“

قومی ترانے کی دھن 1950 میں ترتیب دی گئی، لیکن اس قومی ترانے کی منظوری آزادی کے تقریباً 7 سال بعد 1954 میں ہوئی۔ چھاگلہ صاحب نے یہ دھن بنائی اور بڑی محنت سے بنائی۔ اس کا اندازہ دھن سنتے ہی ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس دھن کی منظوری نہ دیکھ سکے اور نہ ہی اس حوالے سے حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کی اس بے بہا خدمت کا اعتراف کیا گیا۔ ان کی اس خدمت کے صلے کے لیے ان کے خاندان کو تقریباً 46 برس تک انتظار کرنا پڑا۔ گل حسن کلمتی اپنی کتاب ”کراچی کے لافانی کردار“ کے صفحہ نمبر 242 پر لکھتے ہیں کہ:

”آخرکار 43 سال بعد 1996 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں احمد علی چھاگلہ صاحب کو صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ایوارڈ چھاگلہ صاحب کے فرزند عبدالخالق چھاگلہ جو کہ امریکی ریاست ہیوسٹن میں مقیم ہیں، انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں 23 مارچ 1997 میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونے والی تقریب میں وصول کیا۔“ چلیں ”دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو“۔

حفیظ جالندھری کا انتقال 21 دسمبر 1982 کو ہوا۔ حکومتِ پاکستان حفیظ جالندھری کی اس خواہش پر ایک عرصے تک غور کرتی رہی کہ انہیں ان کی خواہش کے مطابق علامہ اقبال کے پہلو میں دفنایا جائے یا کہیں اور۔ معروف مؤرخ اور محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل کے مطابق حکومت پاکستان ان کی یہ آخری خواہش پوری نہ کر سکی۔ ابتداء میں انہیں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں امانتاً دفن کیا گیا۔ بعد ازاں مینارِ پاکستان کے باغ میں ان کا مقبرہ بنا کر انہیں وہاں دفن کیا گیا۔ یہ تھا پاکستان کے قومی ترانے کی دھن اور شاعری کا قصہ۔
 

علی وقار

محفلین
1122717-pehlaqoumitaranax-1521719456-875-640x480.jpg

جگن ناتھ آزاد نے بھی ایک قومی ترانہ لکھا تھا جس کے متعلق دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ تھا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چونکہ موسیقی پہلے ترتیب دی گئی اور ترانہ بعد میں لکھا گیا۔ اور اس حساب سے حفیظ جالندھری صاحب کے ترانے کو دیکھا جائے تو وہ موسیقی سے صحیح معنوں میں ہم آہنگ ہے۔
 
واہ بہت معلومات افزا موضوع چھیڑا اورجو تحقیقی مواد پیش کیا ، قدرے تشفی کا باعث ہوا ،قدرے تشنگی ہنوز باقی ہے کہ دیگر قومی ترانے جنھیں مسترد کردیا گیا کیا کیا تھے۔
 

علی وقار

محفلین
دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ جالندھری مرحوم کا ایک ترانہ مبینہ طور پر جشن آزادی کے موقع پر انڈیا میں بھی چلایا جاتا رہا، یہ رہے اس کے بول۔
ah-watan.jpg
 

علی وقار

محفلین
اس مقابلے میں حفیظ جالندھری ، حکیم احمد شجاع اور ذوالفقار علی بخاری کے لکھے گئے ترانے کو بالترتیب اول دوم اور سوم درجات حاصل ہوئے۔

taranay.webp
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ بہت معلومات افزا موضوع چھیڑا اورجو تحقیقی مواد پیش کیا ، قدرے تشفی کا باعث ہوا ،قدرے تشنگی ہنوز باقی ہے کہ دیگر قومی ترانے جنھیں مسترد کردیا گیا کیا کیا تھے۔
ایک فلم میں ایک پروفیسر اپنے طلبا سے پوچھتا ہے کہ چاند پر سب سے پہلے کون اترا تھا۔ سب یک زبان ہو کر جواب دیتے ہیں کہ "نیل آرمسٹرانگ"
پھر پوچھتا ہے کہ اس کے بعد؟ طلباکو علم نہیں ہوتا تو وہ خاموش رہتے ہیں۔ پھر پروفیسر کہتا ہے کہ ہمیشہ دنیا پہلے نمبر والے کو یاد رکھتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں ہمارا جواب بھی وہی ہے 😊
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ جالندھری مرحوم کا ایک ترانہ مبینہ طور پر جشن آزادی کے موقع پر انڈیا میں بھی چلایا جاتا رہا، یہ رہے اس کے بول۔
ah-watan.jpg
علامہ کی نظم " سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" بھی بہت زیادہ پڑھی اور سنی جاتی رہی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
مجھے اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ حفیظ جالندھری مرحوم کا ترانہ واقعی شاندار تھا، اور اس قابل کہ اسے قومی ترانے کا درجہ ملتا۔
 

علی وقار

محفلین
واہ بہت معلومات افزا موضوع چھیڑا اورجو تحقیقی مواد پیش کیا ، قدرے تشفی کا باعث ہوا ،قدرے تشنگی ہنوز باقی ہے کہ دیگر قومی ترانے جنھیں مسترد کردیا گیا کیا کیا تھے۔
ایک جگہ پڑھا تھا کہ کُل چھ سو ترانے مقابلے میں پیش کیے گئے تھے، اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ریسرچ کلچر کا ہی تو فقدان ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر آپ غور سے سنیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قومی ترانے کے الفاظ اس کی دھن پر گویا چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ اگر کسی مصرعے کے موجودہ وزن میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کی جائے تو آہنگ یکلخت بگڑ کر رہ جائے گا اور سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔
یہ گیت جسے اہلِ وطن قومی ترانہ کہتے ہیں بلاشبہ ایک بےنظیر اور بےمثل زمزمہ ہے جس میں مشرقی روایت کی نغمگی کے ساتھ ساتھ ایک گونہ وقار، تمکنت اور شان بھی موجود ہے اور ایک اسلامی مملکت کی تاریخ اور تمدن کا گہرا شعور بھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قومی ترانہ کمیٹی کو پیش کیے گئے باقی ترانے کس قسم کے تھے مگر جو انھوں نے ہمارے لیے منتخب فرمایا ہے وہ سچ مچ ہمارے دلوں کی دھڑکن اور ہمارے تمدن کے جلال کا آئینہ دار کہلانے کا حق رکھتا ہے۔
یہ دو اقتباسات گویا اس مضمون کا لب لباب ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس مقابلے میں حفیظ جالندھری ، حکیم احمد شجاع اور ذوالفقار علی بخاری کے لکھے گئے ترانے کو بالترتیب اول دوم اور سوم درجات حاصل ہوئے۔

taranay.webp
یہ دونوں ترانے کسی طور حفیظ جالندھری کے ترانے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
 

علی وقار

محفلین
یہ دونوں ترانے کسی طور حفیظ جالندھری کے ترانے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
صد شکر اس زمانے میں آپ کو قومی ترانے کی سلیکشن پینل میں شامل نہ کیا گیا۔ آپ دیگر تمام کا دل توڑ دیتے۔ :)

بہرصورت، اول نمبر پر تو ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم کا ترانہ ہی بنتا تھا۔ اس ترانے کے بول اس مہارت سے لکھے گئے کہ سیدھے جا کر دل پر لگتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کوہ کندہ و کاہ براوردہ۔
راحیل فاروق صاحب اچھے لکھاری ہیں لیکن اس مضمون میں کوئی نئی بات بتا نہیں سکے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پہلے دھن بنی تھی اور پھر ترانہ لکھا گیا تھا وہ بھی مقابلے کے بعد۔ اس کی زبان پر تو بڑے بڑے جغادری مناظرے کر چکے ہیں کہ فارسی ہے یا اردو۔ باقی رہی بحر وغیرہ، تو اس پر بھی کافی باتیں ہو چکی ہیں۔ اور ڈھونڈنے سے تو اس محفل پر بھی ابحاث مل جائیں گی جن میں قومی ترانے کی بحر وغیرہ پر بات ہوئی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
راحیل فاروق صاحب اچھے لکھاری ہیں لیکن اس مضمون میں کوئی نئی بات بتا نہیں سکے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پہلے دھن بنی تھی اور پھر ترانہ لکھا گیا تھا وہ بھی مقابلے کے بعد۔ اس کی زبان پر تو بڑے بڑے جغادری مناظرے کر چکے ہیں کہ فارسی ہے یا اردو۔ باقی رہی بحر وغیرہ، تو اس پر بھی کافی باتیں ہو چکی ہیں۔ اور ڈھونڈنے سے تو اس محفل پر بھی ابحاث مل جائیں گی جن میں قومی ترانے کی بحر وغیرہ پر بات ہوئی ہے۔
میں نے یہ مضمون راحیل بھائی کی ویب سائٹ پر دیکھا،اچھا لگا، سوچا محفل میں بھی شیئر کیا جائے۔
 
Top