مجھے ان دونوں ترانوں کی صحت کے بارے میں ہی تردد ہے کہ یہ واقعی ان ہستیوں کے لکھے ہوئے ہیں بھی کی جن کی طرف یہ منسوب کیے جاتے ہیں ... یہ پوسٹ ابھی کوئی 3-2 سال سے وائرل ہوئی ہے ... کوئی ان کے اصل مصادر کا حوالہ فراہم کر سکتا ہے؟
پاکستان کا قومی ترانہ: دُھن کی تیاری سے لے کر ترانے کی منظوری تک پانچ برس میں کیا کیا ہوا؟
• عقیل عباس جعفری
• محقق و مورخ، کراچی
13 اگست 2021
13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ نشر ہوا جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے تھے جبکہ دُھن احمد غلام علی چاگلہ نے تیار کی تھی۔
قومی ترانے کی دھن اور اس کے بول تیار کرنے کا مرحلہ نہیات طویل تھا اور اس پر پاکستان بننے کے فوراً بعد سے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔
مگر عام طور پر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک موقع پر سورۃ فاتحہ کو بھی قومی ترانہ بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔
رخسانہ ظفر اپنی کتاب ’دی نیشنل اینتھم آف پاکستان‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ابھی جناح حیات تھے کہ 14 جنوری 1948 کو کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے ڈپٹی سیکریٹری وزارت داخلہ کو ایک نوٹ ارسال کیا۔‘
’اس نوٹ میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے ایک موسیقار مسٹر جوزف ویلش نے اُنھیں پاکستان کے قومی ترانے کے لیے پیانو پر ریکارڈ کی گئی ایک دُھن روانہ کی ہے۔ یہ دُھن ریڈیو پاکستان لاہور میں ریکارڈ کی گئی تھی۔‘
رخسانہ ظفر کے مطابق زیڈ اے بخاری نے اپنے نوٹ میں مزید تحریر کیا تھا کہ ہر ملک کا اپنا قومی ترانہ ہے ماسوائے پاکستان کے۔ ’پاکستان میں چونکہ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اس لیے اُن کی تجویز ہے کہ سورہ فاتحہ کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا جائے۔ اُنھوں نے اپنی تجویز کے جواز میں مندرجہ ذیل آٹھ نکات پیش کیے:
• پاکستان کے باشندوں کی ایک بڑی اکثریت اِس سے واقف ہے
• اس سے دنیا کا ہر مسلمان واقف ہے
• اِس کا ترجمہ دنیا کی ہر بڑی زبان میں موجود ہے
• جب اسے روایتی طریقے سے پڑھا جائے تو اس میں موسیقیت محسوس ہوتی ہے
• ہماری قوم کی اکثریت کے دل میں اس کا احترام موجود ہے
• اسے کسی آلہ موسیقی کے ساتھ کی ضرورت نہیں
• حد یہ کہ اس سورہ کو گاندھی جی بھی عوام کے سامنے پڑھا کرتے تھے اور اُنھوں نے برسرعام اعتراف کیا تھا کہ یہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے قابل قبول ہے
• یہ ہمارے ملک کے دانشور اور عام تعلیم یافتہ دونوں طبقوں کو مطمئن کر سکے گی
اس کے ساتھ ہی بخاری صاحب نے سورۂ فاتحہ کا انگریزی ترجمہ بھی تحریر کیا۔
زیڈ اے بخاری کے اس خط کے مندرجات کا وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا۔ یہ اجلاس نو فروری 1948 کو منعقد ہوا اور اس میں وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری، ایجوکیشن ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری، اطلاعات و نشریات ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری اور ہوم ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری کے علاوہ خود زیڈ اے بخاری نے بھی شرکت کی۔
اس اجلاس کی کارروائی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں سورہ فاتحہ کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اپنانے کی تجویز پر سرے سے غور نہیں کیا گیا البتہ جوزف ویلش کی تیار کردہ دھن کے ریکارڈ کو ضرور سُنا گیا۔
شعرا کو ترانہ لکھنے کی دعوت
اجلاس نے اس دھن کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور فیصلہ دیا کہ پاکستان کے نامور شعرا کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے، ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان ترانوں کا جائزہ لے اور تجویز دے کہ اُنھیں موسیقی کے قالب میں کیسے ڈھالا جائے۔
اجلاس نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ ملک کے نامور شعرا کو یہ ترانہ لکھنے کی دعوت دیں اور وزیر داخلہ اس سلسلہ میں دستور ساز اسمبلی میں قرارداد پیش کریں۔
وزیر داخلہ نے آخری تجویز کے حوالے سے رائے دی کہ دستور ساز اسمبلی کے بجائے یہ معاملہ کابینہ میں زیر بحث لایا جائے جو اس کام کے لیے زیادہ موزوں مقام ہے۔
18 فروری 1948 کو حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل احمد علی نے اس اجلاس کی کارروائی کا خلاصہ وزارت داخلہ کو ارسال کیا۔ اس کارروائی کے ساتھ کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری کا 14 جنوری 1948 کا تحریر کردہ نوٹ بھی منسلک تھا۔
27 فروری 1948 کو یہ معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا کہ ملک میں قومی ترانے کی موجودگی بہت ضروری ہے تاہم اس کے لیے پہلے دھن موزوں کروائی جائے اور پھر شعرائے کرام کو اس دھن سے مطابقت رکھنے والے اشعار موزوں کرنے کی دعوت دی جائے۔
وزیرِ اعظم نے بتایا کہ وہ مختلف ملٹری بینڈ ماسٹرز اور دوسرے موسیقاروں کو یہ دھن تیار کرنے کے لیے پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔
دو جون 1948 کو حکومت پاکستان نے ایک پریس نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا: ’حکومت پاکستان نے جنوبی افریقہ کے صوبہ ٹرانسوال کے شہر کلیرکس ڈراپ کے مسٹر احمد اے آر غنی کے پانچ، پانچ ہزار روپے کے ان دو انعامات کی پیش کش منظور کر لی ہے جس میں سے ایک اُنھوں نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کی تیاری کے لیے اور دوسرا ترانے کے الفاظ نظم کرنے کے لیے پیش کیے تھے۔ مسٹر غنی نے یہ رقم اپنے والد بزرگوار مسٹر اے آر اے غنی مرحوم کی یاد میں عطیہ کے طور پر پیش کی تھی۔‘
حکومت نے یہ دھن پیش کرنے کے لیے آخری تاریخ 30 جون 1948 مقرر کی تاہم بعد میں اس تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کر دی گئی۔
پہلا ترانہ کس نے لکھا؟
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے تحریر کیا تھا جس کی منظوری خود جناح نے دی تھی۔ مگر حکومتی ریکارڈ میں موجود دستاویزات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیڈ اے بخاری کی تجویز سے لے کر احمد اے آر غنی کی پیش کش کی منظوری تک جناح نہ صرف حیات تھے بلکہ دارالحکومت کراچی میں بھی موجود تھے۔
اگر جناح نے جگن ناتھ آزاد کے تحریر کردہ ’ترانے‘ کو پاکستان کا ’قومی ترانہ‘ قرار دیا ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے منظور کردہ ترانے کو پس پشت ڈال کر ملک کے قومی ترانے کی تیاری کے لیے ان اقدامات پر عمل درآمد تو کجا ان پر غور بھی کیا جاتا؟
گیارہ ستمبر 1948 کو جناح وفات پا گئے۔ تین ماہ بعد دسمبر 1948 میں حکومت پاکستان نے ایس ایم اکرام کی نگرانی اور سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں ایک نو رکنی قومی ترانہ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔
اس کمیٹی کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر، پیرزادہ عبدالستار، پروفیسر راج کمار چکر ورتی، چوہدری نذیر احمد خان، سید ذوالفقار علی بخاری، اے ڈی اظہر، کوی جسیم الدین، حفیظ جالندھری اور ایس ایم اکرام شامل تھے۔
روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 23 فروری 1949 کو وفاقی وزیر خواجہ شہاب الدین نے دستور ساز اسمبلی میں اعلان کیا کہ پاکستان کا قومی ترانہ منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جلد ہی کمیٹی نے اپنے کام کا آغاز کر دیا۔
اپریل 1949 میں وزیر اعظم لیاقت علی خان انگلستان تشریف لے گئے۔ اس دورے کی روداد تین مئی 1949 کو روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوئی جس میں ڈیلی ہیرالڈ کے نمائندے کے حوالے سے لکھا گیا تھا کہ لیاقت علی خان نے اُن سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کا قومی ترانہ تیار کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اُنھوں نے منتخب قومی ترانے کے لیے 500 پاؤنڈ انعام دینے کا اعلان بھی کیا۔
قومی ترانہ کمیٹی کو ملک کے گوشے گوشے سے دھنیں اور ترانے موصول ہونا شروع ہو گئے تھے۔ حفیظ جالندھری نے ماہنامہ افکار کے حفیظ نمبر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’قومی ترانے کا افسانہ‘ میں تحریر کیا ہے کہ ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 200 سے زیادہ نظمیں اور 63 کے لگ بھگ دھنیں موصول ہوئیں۔
ان دھنوں اور ترانوں کا جائزہ لینے کے لیے چار جولائی 1949 کو وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں کمیٹی کے چھ گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل دو نشستیں منعقد ہوئیں جس کے بعد حکومت پاکستان نے ماہرین کی دو ذیلی کمیٹیاں مقرر کیں۔ ان کمیٹیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ قومی ترانے کی ان نظموں اور دھنوں کا جائزہ لیں گی جو اسے اب تک موصول ہوئی ہیں۔
اجلاس کے دوران کمیٹی کو قومی ترانے کی متعدد پاکستانی، ایرانی اور مغربی دھنوں کے ریکارڈ سنائے گئے جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ ماہرین کی ذیلی کمیٹیاں وہ اصول طے کریں جن کی بنا پر قومی ترانہ کا آخری انتخاب عمل میں آئے گا۔
قومی ترانے سے متعلق ایک عرصے سے ماہرین اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک قومی ترانے کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب پاکستانی ترانے میں بھی موجود ہوں، ان خصوصیات میں اس بات کے علاوہ کہ ترانہ اور دھن عام پسند اور قومی معیار پر پوری اترے، یہ بھی ضروری ہے کہ معیار، نغمہ، زبان، بحر، دھن اور موسیقیت میں مسلم قوم کی روایات کا بھی خیال رکھا جائے۔
اے جی علی چاگلہ کی دھن
چار جولائی 1949 کو ماہرین کی جو دو ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں ان میں ایک ذیلی کمیٹی کے رکن احمد غلام علی چاگلہ تھے جنھوں نے اس کمیٹی کے سامنے اپنی تیار کردہ ایک دھن کے ساتھ ساتھ بعض دوسری منتخب دھنوں کو بھی پیش کیا اور ایچ ایم پی ایس دلاور پر رائل پاکستان نیول بینڈ کے ذریعہ سنوانے کا اہتمام بھی کیا۔ نیوی کے بینڈ نے ان دھنوں کو بیگ پائپس پر بھی بجا کر سنایا۔
20 جولائی 1949 کو سردار عبدالرب نشتر مغربی پنجاب کے گورنر مقرر کر دیے گئے جنھوں نے دو اگست 1949 کو اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ اس کے بعد کمیٹی کی صدارت کی ذمہ داری پیرزادہ عبدالستار کے سپرد ہوئی۔
ترانہ کمیٹی کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ چند ماہ بعد شہنشاہ ایران پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے۔ کمیٹی کا خیال تھا کہ اس موقع پر پاکستان کے ترانے کی دھن ضرور بجنی چاہیے چنانچہ اس نے 21 اگست 1949 کو احمد غلام علی چاگلہ کی تیار کردہ دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی عارضی دھن کے طور پر منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔
قومی ترانے کی اس دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام سہراب رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کروایا تھا۔ اس دھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔
احمد غلام علی چاگلہ 31 مئی 1902 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنھوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے تعلیم حاصل کی اور کراچی کے نامور موسیقار مہاراج سوامی داس کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
احمد غلام علی چاگلہ نے انگلستان میں ٹرنٹی کالج آف میوزک سے بھی تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان سے پہلے اُنھوں نے بمبئی میں ایک فلم کمپنی اجنتا میں بطور موسیقار کام کیا اور پاکستان بننے کے بعد حکومت پاکستان نے اُنھیں قومی ترانے کی موسیقی تیار کرنے والی کمیٹی کا رکن مقرر کیا، مگر یہ دھن تیار کرنے کا اعزاز انہی کی قسمت میں لکھا تھا۔
چند ماہ بعد شہنشاہ ایران کی پاکستان آمد پر حکومت نے قومی ترانے کی اس دھن کو بجانے کی ذمہ داری پاکستان بحریہ کے بینڈ کو سونپی جس نے جناب عبدالغفور کی قیادت میں یکم مارچ 1950 کو کراچی ایئر پورٹ پر پاکستان کے قومی ترانے کی دھن بجانے کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کسی سرکاری تقریب میں بجائی گئی تھی۔ اس کے بعد مئی 1950 سے جولائی 1950 کے دوران جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تو اس موقع پر منعقد ہونے والی سرکاری تقریبات میں بھی قومی ترانے کی یہی دھن بجائی گئی۔
اس دوران ملک کے مستقل قومی ترانے کے لیے موزوں دھن کی تلاش کا کام بھی جاری رہا۔ کمیٹی نے تمام دھنوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد دو دھنوں کو مجوزہ قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا۔
ان میں سے ایک دھن تو احمد غلام علی چاگلہ کی وہی دھن تھی جو عارضی طور پر منظور کی گئی تھی جبکہ دوسری دھن مشہور موسیقار سجاد سرور نیازی نے تیار کی تھی۔
دس اگست 1950 کو اس کمیٹی نے احمد غلام علی چاگلہ کی دھن کو پاکستان کے مستقل قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا۔
اس دھن کی منظوری کے بعد چھ دسمبر 1950 کو کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے اس دھن پر لکھا ہوا اپنا ترانہ کابینہ کے ایک اجلاس میں پیش کیا تاہم کابینہ نے اس ترانے کے الفاظ کے بارے میں کہا کہ یہ الفاظ قدرے مشکل ہیں اور عوام الناس کے فہم کے مطابق نہیں۔
28 فروری 1951 کو کابینہ سے حکیم احمد شجاع کے لکھے ہوئے ایک ترانے کو سننے کی درخواست کی گئی۔ ادھر قومی ترانہ کمیٹی کے دو اجلاس 28 اور 29 مارچ 1951 کو منعقد ہوئے۔ اس کمیٹی کے سامنے چند دوسرے شعرا کے لکھے ہوئے ترانے بھی پیش ہوئے۔
کمیٹی نے حفیظ جالندھری اور حکیم احمد شجاع کے لکھے ہوئے ترانوں کو نسبتاً بہتر قرار دیا تاہم یہ تجویز بھی پیش کی کہ علامہ اقبال اور قاضی نذرالاسلام کی دو منظومات کو سرکاری طور پر منظور کر کے اُنھیں قومی نغمات کا درجہ دیا جائے۔
کمیٹی نے قاضی نذرالاسلام کے ایک گیت ’چل چل چل‘ کو جس کو جسیم الدین نے رد و بدل کر کے بہتر کیا تھا کو بطور قومی نغمہ منظور کیے جانے کی سفارش بھی کی۔
’الفاظ بٹھانے‘ میں مشکل
اب کمیٹی کو پاکستان بھر سے معروف اور نامور شعرا کے لکھے ہوئے ترانے موصول ہونا شروع ہوگئے تھے جو اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں تھے۔ اس مرحلے پر کمیٹی نے محسوس کیا کہ چاگلہ کی دھن قدرے مشکل ہے اور اس پر ’الفاظ بٹھانے‘ کا عمل شعرا کے لیے دشواری کا باعث ہے، چنانچہ کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر سجاد سرور نیازی کی تیار کردہ دھن بی بی سی لندن بھجوائی تاکہ اسے دوبارہ بہتر انداز میں ریکارڈ کیا جا سکے۔
دھن ریکارڈ ہو کر واپس آئی تو کمیٹی کے لیے بہتر دھن انتخاب کرنا ایک مرتبہ پھر مسئلہ بن گیا، چنانچہ چار جون 1953 کو کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ایچ ایم پی ایس دلاور پر منعقد ہوا، جہاں نیول بینڈ نے ان دونوں دھنوں کو کمیٹی کے سامنے بجایا۔
کمیٹی اب بھی کسی متفقہ فیصلے پر نہیں پہنچ سکی تاہم وزیر اطلاعات شعیب قریشی کو احمد غلام علی چاگلہ کی بنائی ہوئی دھن سجاد سرور نیازی کی بنائی ہوئی دھن سے زیادہ بہتر محسوس ہوئی۔
29 اور 30 دسمبر 1953 کو یہ دونوں دھنیں کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئیں جہاں یہ دھنیں ایک مرتبہ پھر بجا کر سنائی گئی۔
دو جنوری 1954 کو وفاقی کابینہ نے احمد غلام علی چاگلہ کی دھن کو قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔
جب اس کمیٹی نے جب احمد غلام علی چاگلہ کی دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا تو اب اس دھن سے مناسبت رکھنے والے الفاظ کی تلاش کا کام شروع ہوا۔
ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کر سکیں۔
کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے تحریر کردہ ترانوں کے بول اس دھن سے ہم آہنگ کر کے کابینہ کے سامنے پیش کیے جائیں۔
کابینہ نے ان ترانوں کو سنا اور تجویز دی کہ ترانے کا پہلا بند زیڈ اے بخاری کے ترانے سے اور بقیہ دو بند حفیظ جالندھری کے ترانے سے منتخب کر کے ایک نیا ترانہ تیار کیا جائے تاہم حفیظ جالندھری نے اس تجویز کو کُلی طور پر مسترد کر دیا اور کہا کہ یا تو ان کے ترانے کو مکمل طور پر منظور کیا جائے یا مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔ وہ اپنے ترانے میں کسی اور کے لکھے ہوئے ترانے کا جوڑ قبول نہیں کریں گے۔
حفیظ جالندھری کے اس واضح مؤقف پر کابینہ نے ترانے کے انتخاب کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے دو جون 1954 کو احمد غلام علی چاگلہ کی مرتب کردہ دھن کو قومی ترانے کی حتمی دھن کے طور پر منظور کر لیا۔
اس موضوع پر کابینہ کا اگلا اجلاس سات جولائی 1954 کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں حفیظ جالندھری سے ان کے ترانے کے آخری بند کے دو الفاظ (پرچم اور جان استقبال) کی وضاحت کے لیے کہا گیا۔ حفیظ جالندھری نے ان دونوں الفاظ کی وضاحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر کابینہ کو ’جان استقبال‘ کی ترکیب سمجھنے میں کوئی دقت محسوس ہو رہی ہے تو وہ اسے بدل کر ’ملت کا اقبال‘ کرنے پر تیار ہیں۔
ترانے کی منظوری
پانچ اگست 1954 کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی رد و بدل کے منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس ترانے کی موجودگی میں اردو اور بنگالی کے دو قومی نغموں کی کوئی ضرورت باقی نہیں، اس لیے اس تجویز کو منسوخ سمجھا جائے۔
حفیظ جالندھری کا پاکستان کے لیے لکھا گیا ترانہ تو منظور ہوا ہی مگر یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ 1947 میں اُنھوں نے کشمیر کا قومی ترانہ تحریر کیا تھا جو آج بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرکاری ریڈیو سے ہر روز نشر ہوتا ہے، جس کے بول تھے ’وطن ہمارا آزاد کشمیر۔‘
علاوہ ازیں 1949 میں ان کا لکھا ہوا ایک نغمہ پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور ہوا تھا جس کا پہلا مصرع تھا ’اے میرے آباد وطن آزاد پاکستان۔‘
اس قومی ترانے کی خبر 15 مئی 1949 کو پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔ کراچی سے نکلنے والے روزنامہ جنگ نے لکھا تھا: ’حکومت پاکستان نے قومی ترانے کے انتخاب کے لیے جو کمیٹی مقرر کی ہے وہ 29 مئی کو مشہور شاعر حفیظ جالندھری کے ایک ’قومی ترانے‘ پر غور کرے گی، جس کی دھن بھی اُنھوں نے ہی تیار کی ہے۔
’کمیٹی کے اس جلسے کی صدارت وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کریں گے۔ حال ہی میں قومی ترانے کی 30 مختلف دھنوں کو پاکستانی اور ہندوستانی آرکسٹرا پر سنایا گیا اور ان کے ریکارڈ تیار کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر حکومت کی نگرانی میں فوجی بینڈ کے ذریعہ ریکارڈ کیے گئے تھے، لیکن ان میں سے ایک بھی ترانہ یا دھن وزیرِ اعظم پاکستان کو پسند نہ آیا۔
’اس کے بعد حفیظ جالندھری سے قومی ترانہ کی دھن بنانے کو کہا گیا تھا اور اُنھوں نے حکومت کو مطلع کیا ہے کہ یہ دھن تیار ہو چکی ہے۔ اس دھن کا ریکارڈ ڈھائی یا تین منٹ کا ہو گا۔‘
مگر اس کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے اس ترانے کو مسترد کر دیا۔ لیکن صرف پانچ سال بعد ہی اُن کا لکھا گیا ایک اور ترانہ پاکستان کے قومی ترانے کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس ترانے کی صدا بندی میں جن گلوکاروں نے حصہ لیا، ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق ان میں احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر، اختر وصی علی، نسیمہ شاہین، رشیدہ بیگم، نجم آرا، کوکب جہاں اور شمیم بانو شامل تھے۔
دنیا بھر کے قومی ترانوں میں ایک خوب صورت ترانے کا اضافہ ہو چکا تھا۔