پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال پر بات چیت

السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ لڑی موجودہ سیاسی اور معاشرتی صورت ِ حال کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے ۔ ہم لوگ چاہے بظاہر سیاست سے تعلق نا رکھتے ہوں لیکن سیاست ہمارے معاشرے گھر روزی روزگار خاندان ہر چیز پر اثر انداز ہورہی ہے ۔حتی کے ہماری فوج بھی اب اِس کے اثر سےمحفوظ نہیں رہی ۔ ہمیں چاھئیے کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اِس کا حل نکالیں۔ کیونکہ جمہوری حکومتوں میں سیاستدان اور عوام کا ایک رشتہ ہوتا ہے ۔آپ کے پاس ووٹ کی طاقت ہے ۔اور ووٹ سیاستدان کی ضرورت ہے ۔ لیکن اگر یہ ووٹ درست جگہ نہیں جائے گا تو اُس کا نقصان پورے ملک کو اُٹھا نا ہوگا ۔ ہمیں چاھئیے کہ آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کرکے سیاسی مسائل کا حل نکالیں ۔

اب آپ لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے یہاں بات چیت کرنے سے کیا فائدہ ہوگا ۔دیکھیں ہم لوگ گھروں دفتروں اسکولوں بازاروں ہوٹلوں مسجدوں اور پارکس میں جاتے ہیں ۔ کوئی آپ سے سوال کرے گا جب آپ کو معلومات ہوگی تو آپ اُس انسان کو تسلی بخش جواب دے سکیں گے ۔ اور اگر وہ غلط ہوگا تو آپ اُس کی اصلاح بھی کرسکیں گے ۔معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ آپ لوگ ایک درست لیڈرکو حکومت میں لاسکتے ہیں ۔اگر کوشش ایمانداری سے کی جائے تو ۔۔۔
بس اِس لڑی میں یہ کوشش کی جائے کے موجودہ سیاسی صورت حال پر بات چیت کی جائے ۔لیکن شدت پسندی سےدور رہ کر اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے ۔ کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سمجھانے والا سمجھتا ہے کہ میں درست ہوں لیکن کچھ وقت کہ بعد اُس کو معلوم ہوجاتا ہے کسی نا کسی ذرائعے سے کہ میں غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں اِس وقت ایک سیاسی انتشار پیدا ہوچکا ہے جسے سلجھانے میں ہر کسی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاھئیے ۔ تنقید کی جائےپر مثبت اندازمیں۔
 
آخری تدوین:
کسی بھی پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکتا
جنرل ضیاء نے بھی مارشل لاء کی مدد سے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی گیارہ سال تک مارشل لاء لگایا۔ لیکن اُس کے مرنے کے بعد پیپلز پارٹی دوبارہ سے شروع ہوگئی ۔ اگر کسی بھی پارٹی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھول اور نادانی ہے ۔ کسی بھی پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت تو اپنے وقت میں امن چاہتی ہے تاکہ اچھے سے پرفورم کرسکے ۔ اور امن قائم کرنے کے لئے کوشش کرتی رہتی ہے ۔ یہ نہیں کہ بے قصور مخالف پارٹی کے ورکرز اور لیڈرز کو پکڑپکڑ کر جیلوں میں ڈالتی رہے ۔ہاں اپوزیشن کا کام ہوتا ہے کہ حکومت کی غلطیوں کو سامنے لایا جائے ۔ تاکہ حکومت بدنام ہوکر اپنی عوامی اکثریت کھو بیٹھے ۔اور حکومت کا کام ہے کہ اُن غلطیوں کو درست کرے ۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
فی الوقت، نام نہاد سیاست دان عدلیہ اور فوج کے مابین اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان سیاست دانوں اور ان کو چلانے والوں کے پیچھے عوام کس لیے خجل خوار ہو رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی جان تک لینے پر تل گئے ہیں۔ آپسی تعلقات ان کے باعث خراب ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ ہم ان بونے سیاست دانوں، منہ زور جرنیلوں اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا میں آخری نمبروں پر رہنے والی عدلیہ کے ذمہ دار ججوں یعنی کہ اس مراعات یافتہ طبقے کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ ججز، جرنیل اور سیاست دان کیا اس قابل ہیں کہ ان کے لیے وقت اور رشتے قربان کیے جائیں؟ آج ہم یہ جان چکے ہیں یا اب تک جان لینا چاہیے کہ فوج نے کیسے مال کمایا، عدلیہ کے ججز نے کن سے پیسے اور مراعات لیں اور سیاست دان تو جو اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، وہ تو سامنے کی بات ہے۔ مستثنیات کا معاملہ الگ ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک تو وقت کے ساتھ ہو گا تاہم اس وقت تک ہماری جو حالت ہونی ہے، اس کی ایک جھلک ہمیں دو روز میں نظر آ گئی ہے۔ مزید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
 
میرے خیال میں پی ڈی ایم حکومت میں مہنگائی کی زیادتی کی وجہ اِس کی ناکامی ہے جس کا فائدہ اپوزیشن میں بیٹھی پارٹی اُٹھا رہی ہے ۔
 
رانا ثناء وزیر داخلہ کا بیان سُنا تھا کہ عمران خان صاحب اگر ٹھیک نہیں ہوئے تو وہ اگلے سال بھی الیکشن مانگ رہے ہونگے ۔رانا ثناء صاحب الیکشن عوام کا حق ہے اور آپ عوام کے نمائندے ۔ یہ عمران خان یا آپ کا معاملہ نہیں ہے ۔ جو عوام کا حق ہے وہ اُنہیں دینا چاھئیے ۔عوام کے ساتھ ساتھ رانا ثناء صاحب کو بھی قانون پر عمل کرنا چاھئیے ۔
 
آزادی صحافت بھی پی ڈی ایم نے ختم کردی ہے سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بھی صرف اور صرف اپنی ہی پارٹی کی تقاریر یں چلائی جارہی ہیں ۔ اور جو ٹی وی یا سوشل میڈیا دوسری پارٹی کی خبریں دکھا رہا ہے انہیں چُن چُن کر بند کیا جارہا ہے ۔یا اُن کے خلاف قانونی کاروائی کی جارہی ہے اللہ خیر کرے ۔
 
میرے خیال میں اِس وقت عمران خان کو اب خاموش ہوجانا چاھئیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاھئیے ۔ کیونکہ وقت اور حالات دونوں ہی اِس وقت عمران خان کے خلاف ہیں۔یہ نا ہو کہ عمران خان کو کوئی بہت بھاری نقصان اُٹھا نا پڑے ۔ جس کا خمیازہ بھگتنا مشکل ہوجائے ۔
 
آخری تدوین:
پی ڈی ایم حکومت بھی ذرا عوام کی رائے کا احترام کرے اِس طرح عوام کے خلاف جاکر کب تک پاکستان کو چلایا جاسکتا ہے ۔الیکشن کروا کر دیکھ لیا جائے کہ واقعی عوام کس کے ساتھ ہے ۔ اِس طرح تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات خراب ہوتے ہی جائیں گے۔مانا کہ سیاست میں کوئی بھی دودھ کا دُھلا ہوا نہیں ہے ۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ تمام پارٹیوں کو ایک ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات کے زریعے سے مسئلے کا حل نکالنا چاھئیے ۔ کچھ کڑوے گھونٹ پی لیے جائیں تو بہتر ہے ۔
اور عمران خان کو بھی اِس وقت اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان سے باہر چلے جانا چاھئیے اسی میں ہی عافیت نظر آرہی ہے ۔
 
آخری تدوین:
عمران خان نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا ہے کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد اور اِن کے ہینڈلر نے ایک پلان تیار کیا ہوا ہے کہ عمران خان کےگھر کے باہر عوام کے روپ میں پولیس والوں کو گولی ماری جائے گی چار پانچ پولیس والوں کو مار کر یہ لوگ عمران خان کے گھر کے اندر گھس کر عمران خان کو مرتضی بھٹو کی طرح قتل کردیں گے ۔آج یا کل یہ ہوسکتا ہے ۔

عمران خان صاحب کو عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےکچھ وقت کے لئے اپنے ساتھ بشری بیگم کو لے کر کہیں روپوش ہوجانا چاھئیے ۔
 
آخری تدوین:
یہ میرا خیال ہے !

پاکستان کے بُرے حالات شروع ہونے جارہے ہیں شاید
عمران خان کو جیل
ہوسکتا ہے عمران خان صاحب جب تک جیل نہیں جائیں گے وزیراعظم نہیں بن پائیں گے ۔کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے لیکن عمران خان صاحب کھونے کے لئے تیار نہیں ہیں ابھی تک۔ اُنہیں اگر وزیراعظم بننا ہے تو جیل جانےسے ڈرنا نہیں چاھئیے ۔عمران خان کو چاھئیے کہ اپنے ارد گرد جو لوگوں کا حصار بنایا ہوا ہے اُسے ہٹوادے اگر اللہ کی مرضی یہ ہے کہ عمران خان کو جیل ہو تو آپ کو یہ لوگ روک نہیں پائیں گے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان جب جیل جائیں گے تو اِن کے کارکن اور عوام متحرک ہوجائے اور اِن کی پارٹی جو الیکشن لڑے گی عمران خان کے نام پر ، وہ یہ الیکشن جیت جائے پر وزیراعظم بننے سے پہلے بھی کوئی بڑا حادثہ ہوسکتا ہے اور عمران خان صاحب نااہل ہوسکتے ہیں ۔ اور اِس طرح پاکستان کو بدترین سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ معاشی بحران بھی ہوسکتا ہے ۔ اور یہ سب حالات دیکھ کر ملک میں مارشل لاء نافذ ہوسکتا ہے ۔

ملک میں مارشل لاء
یہ مارشل لاء تقریباً 2 سال تک چل سکتا ہےہوسکتا ہے پھر ملک کے حالات کچھ بدل جائیں ۔ ہوسکتا ہے مریم نواز اور بلاول ملک چھوڑ چکے ہوں شاید ،نواز شریف پہلے ہی نااہل ہوچکے ہیں اور زرداری وفات پاچکے ہوں اِن حالات میں ایک نئی پارٹی جنم لے سکتی ہے لیکن وہ زیادہ اکثریت نہیں بنا پائے گی شاید۔کیونکہ عوام بہت شدید اضطراب میں ہوسکتی ہے اور وہ کسی بھی نئی پارٹی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہو شاید۔اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف کی سیاست کا نام ونشان ہی مٹ جائے اِن کی پارٹی کے لوگ دوسری پارٹیوں میں شامل ہوجائیں ۔

بہت بڑی جنگ
اِس صورتِ حال سے پاکستان کے مخالفین فائدہ اُٹھا سکتے ہیں پاکستان کے اندر سیاسی اور معاشی بحران دیکھ کر اِس بات سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے پانی کا بحران پیدا سکتے ہیں اور یہ بحران اتنا شدید ہوسکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے ۔اور ہوسکتا ہے کہ ایٹمی اثاثے ہمارے ملک پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی باہر کے ممالک کے قبضے میں آجائیں۔یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے فوج ایکشن لے لیکن شاید اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہو۔بھارت جب دیکھے گا کہ اب پاکستان کے ایٹم بم پر پاکستان کا اختیار ختم ہوچکا ہے تو وہ اِس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اورجنگ چھیڑ سکتا ہے ۔

عمران خان دوبارہ سے وزیراعظم
ہوسکتا ہے ایک بار پھر سے عمران خان کو حکومت مِل جائے ۔اور نااہلی بھی ختم ہوجائے کسی قانون کے تحت لیکن اِس بار مضبوط حکومت ہوسکتی ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے پاکستان کے حالات بہت تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہوسکیں ۔ لیکن عمران خان صاحب بہت سخت بیمار ہوسکتے ہیں عمر کا تقاضا بھی ہے ۔اِن حالات میں تحریک انصاف پارٹی کو نیا وزیراعظم ڈھونڈے کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور پارٹی عمران خان کی بیگم بشری بی بی کو بھی آفر کرسکتی ہے لیکن وہ ہوسکتا ہے منع کردیں ۔کیونکہ اُنہیں سیاست کی کچھ بھی معلومات نہیں ہےاِس وجہ سے پھر پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے ۔
اور پاکستان تحریک انصاف صرف ڈیڑھ سال حکومت کے بعد ہی ختم ہوسکتی ہے ۔ عمران خان صاحب سخت بیماری کی وجہ سے سیاست کو خیر باد کہہ دیں شاید، اور باہر کے ملک شفٹ ہوسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک ِ انصاف کی پارٹی کا نام بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ تاکہ پارٹی دوبارہ سے اپنی اصلی حالت پر آسکے ۔ لیکن پارٹی میں بہت زیادہ اختلاف ہونے کے باعث مختلف حصوں میں بٹ سکتی ہے ۔

فوج کا کنٹرول
ہوسکتا ہے اِس وقت فوج پاکستان کو سنبھال لے لیکن ایٹمی اثاثے پاکستان کے پاس ہوتے ہوئے بھی کنٹرول باہر کے ممالک کے پاس ہو۔کیونکہ پاکستان ایسے معاہدے کرچکا ہوگا جس کی وجہ سے پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کو استعمال نہیں کرپائے ۔ اِسی وجہ سے پاکستان کی فوج کمزور پڑسکتی ہے ۔ اِس جنگ کے نتیجے میں بہت تباہی ہوسکتی ہے جو کئی سالوں تک پاکستان کو بھگتنا پڑسکتی ہے ۔پاکستان کی حیثیت دوسرے ممالک کی نظر میں بہت ہی کم رہ جائے ۔پاکستان اِس جنگ میں ہوسکتا ہے کہ ہارے نہیں کیونکہ پاکستان کے دوست ممالک اُس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوچکے ہوں شاید لیکن جب تک پاکستان کی مدد ہو جب تک بہت کچھ ہاتھ سے چلا گیا ہو ۔ پاکستان ایک بدترین دور سے گزر سکتا ہے ۔ ملک میں امیر غریب سب کا بُرا حال ہوسکتا ہے ۔

پاکستان کے دوست ممالک
ہوسکتا ہے پاکستان کے دوست ممالک پاکستان کی مدد کریں لیکن یہ مدد پاکستان کے لئے سمندر میں قطرے کے برابر ہو کیونکہ پاکستان بیرونِ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہوشاید ۔


تجاویز:
اگر پاکستان یہ سب نہیں دیکھنا چاہتا تو سب سے پہلے پاکستان کو اپنے نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا معاشی طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی جو جس کا حق ہے اُسے دے دینا چاھئیے ۔



حتمی علم اللہ ہی کو ہے یہ صرف میرا خیال ہے

واللہ عالم
 

وجی

لائبریرین
ہم لوگ آئینہ دیکھنے سے ڈرتے ہیں
یا پھر
ہمیں آئینہ دیکھنا ہی نہیں آتا۔
 

ماظق

محفلین
جب سے سیاست کی سمجھ آئی ہے یہی پتا چلا کہ پاکستان میں سیاست چند مفاد پرست لوگوں کے گرد گھومتی ہے اور عوام کا اس میں کردار کسی فلم میں ایکسٹرا کے کردار جیسا ہی رہا۔ آخر میں عوام کو اس سیاست کا مفاد بھی اتنا ہی ملتا ہے جتنا فلم میں ایکسڑاز کو ملتا ہے ، فلم کے ہیرو ہیروئین اور ویلن سب کچھ سمیٹ لیتے ہیں ، اب سیاست میں موجود ہیرو ہیروئین اور ویلن کی تشریح آپ خود اپنی بساط کے مطابق کر لیجیے۔
 
اداروں سے ہی ملک چلتا ہے اگر اداروں کو غیر قانونی حکم ملے تو آپ اُس کام کو نا کریں ۔آپ سے زبردستی کوئی کام نہیں کرواسکتا ۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو ٹرانسفر یا ٹرمیننٹ کی دھمکی ملے گی ۔ لیکن اگر آپ حق پر ہونگے تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
 
Top