کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
کر پلیٹ فارم پر ہی بیٹھے رہے۔ یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا۔ اگرچہ رات کا وقت تھا اور پلیٹ فارم پر مسافر زیادہ نہیں تھے مگر پھر بھی جیسے تمام اسٹیشن پر خبر پھیل گئی کہ وہاں ایک مسلمان موجود ہے۔ لوگ ایک ایک دو دو کرکے دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ ان میں سے ایک شخص نے اسی سکھ سپاہی سے بات کی۔
“اس مسلمان کو اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو۔“
“تو پہنچ جائے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں۔“
“اس کا کوئی علاج ہے ۔ ۔ ۔ “ اس شخص نے شاید ہمت افزائی سمجھ کر پھر سوال کیا۔
“ہاں! علاج ہے اور بہت آسان ہے۔“
“ وہ کیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔“
“ وہ یہ کہ گولی اندر دم باہر۔“
“کیا مطلب؟“ وہ شخص بھونچکا ہو کر رہ گیا۔
“ مطلب یہ کہ ہمارے پاس پانچ رائفلیں ہیں اور ہر رائفل میں چھ گولیاں موجود ہیں۔“
وہ شخص خاموشی کے ساتھ ایک دم وہاں سے چلا گیا۔ اس گفتگو کا حال بھی شاید اسٹیشن پر سب کو معلوم ہو گیا۔ اس کے بعد ہمارے تماشا کی خاطر کوئی زیادہ لوگ ادھر نہیں آئے۔
دن میں گرمی بڑی شدید تھی جو کچھ دیر بعد آندھی کی شکل اختیار کرگئی۔ خوب ریت برسی۔ ہم سر سے پاؤں تک مٹی مٹی ہوگئے۔ آندھی رکی تو پلیٹفارم پر ہی بستر بچھا کر ہم لیٹ گئے۔ سپاہی پہرہ دیتے رہے۔ تین بجے کے بعد بوندیں آگئیں تو ہم اٹھ کر گاڑی میں بیٹھ گئے جو اسی پلیٹ فارم پر کھڑی تھی اور یہیں سے بن کر چلتی تھی۔ اس کی رونگی کا وقت تو چار بجے تھا مگر لیٹ ہوکر پونے چھ بجے روانہ ہوئی۔ باقی سفر میں بھی ہر اسٹیشن پر ہم سامان تماشا بنے رہے مگر اب اسٹیشنوں پر لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ شہر اور آبادیاں بھی ویران سی نظر آتی تھیں۔ آخر اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے ہم مالیر کوٹلہ پہنچ گئے۔شدیدگرمی، سفر، آندھی، ریت، اور بارش کے باعث حلیے عجیب ہوگئے تھے۔نہا دھو کر اور کپڑے تبدیل کرکے جیسے آدمی کی جون میں آئے۔
اب یہاں یہ انتظار کرنا پڑا کہ کب کوئی ٹرک وغیرہ آئے اور مجھے اس میں جگہ ملے۔ ایک دن معلوم ہوا تین ٹرک آئے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک ٹرک تو علاقہ میں گشت کرے گا تاکہ ادھر ادھر چھپ کر رہ جانے والے مسلمان بچوں اور عورتوں کو تلاش کیاجاسکے۔ باقی ٹرک کسی شخص نے خصوصی طور پر اپنے خاندان کے لیے منگوائے تھے اسی لیے ان میں جگہ نہ مل سکی۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ اب پاکستان پہنچنا ممکن ہوگیا تھا تو گویا بے چینی اور بے قراری اور زیادہ ہوگئی تھی۔ ایک ایک لمحہ پہاڑ بن کر گزر رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کسی طرح پر لگ جائیں اور اُڑ کر پاکستان پہنچ جاؤں۔ مگرکسی حد تک یہ سہارا کام دے رہا تھاکہ اب بہرحال انشاءاللہ تعالٰی پاکستان پہنچ ہی جاؤں گا۔ اسی لیے اب بے چینی اور بے قراری میں جلدی اور اضطراب تو تھا مگر وہ مایوسی، بددلی اور دل شکستگی نہیں تھی جس سے روڑکی میں کئی ماہ تک واسطہ رہا تھا اور جس نے گویا میری جان کو گھلا دیا تھا۔
آخر پانچ چھ دن کے بعد مولوی حمید حسن صاحب نے بتایا کہ روانگی کا انتظام ہوگیا ہے۔ دوسرے دن صبح ایک لاری جائے گی۔ اس میں میرے سفر کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ بڑی خوشی اور اطمینان ہوا۔ اگلے دن صبح ہی اپنا بستر باندھ لیا اور روانگی کے لیے تیار ہوگیا۔ مولوی صاحب مجھے لاری کے پاس چھوڑ گئے۔ وہاں ایک حوالدار لوگوں کو سوار کرارہا تھا۔ مولوی صاحب نے اس سے میرے بارے میں کہہ دیا اور مطمئن ہوکر چلے گئے مگر یہاں یہ حال تھا کہ لاری ایک تھی اور اس میں سوار ہونے کے خواہش مند سینکڑوں لوگ تھے۔ پولیس کو نظم وضبط قائم رکھنا مشکل تھا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ وہ سوار ہوجائے۔ باقی خواہ سب رہ جائیں۔ گویا نفسا نفسی کا عالم تھا۔ میں نے سوار ہونے کی بہت کوشش