کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
کی۔ سامان اٹھائے ادھر ادھر بہت چکر لگائے مگر دھکوں اور ناامیدی کے سواکچھ نہیں ملا۔ اس حوالدار نے بھی کوئی مدد نہ کی جسے مولوی صاحب کہہ کر گئے تھے۔ آخر میں مایوس ہوکر سامان ایک طرف رکھ کر اس کے اوپر بیٹھ گیا اور دھکم پیل کا تماشا دیکھنے لگا۔ اللہ تعالٰی نے کارسازی فرمائی اور حوالدار یوسف ادھر آگیا۔ یہ وہی حوالدار تھا جو حفاظتی دستہ کے انچارج کی حثیت سے ہمیں مظفر نگر سے لے کر آیا تھا۔ اس نے مجھے یوں بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔
“تم سوار نہیں ہوئے؟“
“کوئی سوار ہونے ہی نہیں دیتا۔“ میں نے بھی بے بسی سے کہا۔
“میرے ساتھ آؤ۔“ اس نے کہا۔
مجھے اور کیا چاہیے تھا۔ سامان اٹھاکر اس کے ساتھ ہوگیا۔ اس نے میرا سامان تو لاری کی چھت پر رکھ دیا اور مجھے لاری کے اندر ٹھونس دیا۔ ٹھونس دیا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ لاری کے اندر پہلے ہی تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ میں کہاںسے سما سکتا تھا۔ مجھے صرف ایک پاؤں کو لٹکانے کی ذرا سی جگہ مل سکی۔ اس کے سہارے کھڑا ہوگیا۔ یہ کیاکم غنیمت تھا کہ بالکل مایوسی کے بعد سوار ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ ان دنوں شاید تمام لاریوں کی چھتیں نیچی رکھی جاتی ہوں گی یا پھر اس لاری کی چھت ہی ایسی تھی کہ میں سیدھا نہیں کھڑا ہوسکتا تھا، جھک کر کھڑا ہوا۔ پاؤں لٹکا نہیں سکتا تھا۔ کمر سیدھی نہیں کرسکتا تھا اور گرمی کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی پناہ۔ یوں لگتا تھا کہ کسی شدید قسم کے شکنجے میں کسا ہوا ہوں اور معلق ہوں۔نہ ہل جل سکتا ہوں، نہ کمر سیدھی کرسکتا ہوں اور نہ ہوا کا جھونکا نصیب ہوسکتا ہے۔ بڑی شدید مصیبت میں تھا اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہوچلا تھا۔ اس کے بعد کیا ہونے والا تھا، اس کا مجھے علم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے میری نجات کا سامان پیدا کردیا۔ لاری خراب ہوگئی۔ ہم سب نے اتر کر اس دھکا لگایا تو سٹارٹ ہوئی۔ اب میں لاری کے اندر جانے کی بجائے اس کی چھت پر بیٹھ گیا۔ اگرچہ چھت پر پہلے سے ہی اتنے آدمی بیٹھے تھے کہ مزید کی قطعاً گنجائش نہیں تھی مگر دھکا لگانے کے دوران کچھ لڑکوں سے شناسائی ہوگئی تھی۔ انہوں نے اتنی جگہ بنادی کہ بمشکل وہاں ذرا سا ٹک سکوں اور پاؤں نیچے لٹکالوں۔
اب ہوا یہ کہ لاری نے ہر ایک میل بعد بند ہونا شروع کردیا۔ بند ہوجاتی تو ہم لڑکے اور نوجوان اتر کر دھکا لگاتے۔ میل ڈیڑھ میل اسی طرح چل کر سٹارٹ ہوتی۔ ہم سوار ہوجاتے تو ایک آدھ میل چل کر پھر دھکے کی طلب میں ٹھر جاتی۔ اسی طرح دھکے لگاتے ہم ایک گاؤں پہنچے جو مالیر کوٹلہ سے دس میل کے فاصلہ پر تھا اور ہم یہاں چار گھنٹے میں پہنچے تھے۔ یہاں ایک سکھ کے باغ میں ہمیں اتارا گیا اور لاری کو مرمت کے لیے بھیج دیا گیا۔ شام کو چھ بجے یہ ٹھیک ہوئی اور ہم روانہ ہوئے تو دو میل چلنے کے بعد پھر وہی عمل شروع ہو گیا، دھکا لگانے، سٹارٹ ہونے اور پھر رک جانے کا۔ اب رات ہونے والی تھی۔ اگرچہ فوج کے محافظ ہمارے ساتھ تھے مگر پھر بھی کسی ویرانہ میں رات آجاتی تو بڑے خطرے کی بات تھی جس گاؤں سے لاری مرمت کروائی تھی وہاں سے دو آدمی لدھیانہ بھیج دیئے تھے۔ شکر ہے کہ وہ دو ٹرک لے کر پہنچ گئے۔ ہم سب ان ٹرکوں میں سوار ہوگئے اور خراب لاری کو ان کے پیچھے باندھ لیا۔ اسی طرح خدا خدا کرکے رات کو دس بجے لدھیانہ کیمپ میں پہنچے۔ میرا بستر اور ٹرنک دونوں ایک ایک دفعہ لاری کی چھت سے گرے تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اٹھا لیے گئے تھے۔ اب لدھیانہ کیمپ پہنچ کر یہ سرے سے گم ہی ہوگئے۔ کوئی دو گھنٹے کی بھاگ دوڑ اور سخت پریشانی کے بعد بڑی مشکل سے ملے۔ بستر کسی ایک جگہ سامان میں چلا گیا تھا اور ٹرنک کسی دوسری جگہ دبا پڑا تھا۔
لدھیانہ کیمپ ایک غیر آباد سی جگہ میں ایک وسیع احاطہ میں قائم تھا۔ احاطہ کے چاروں جانب اونچی پختہ، نئی