کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
بنی چار دیواری تھی جس پر خاردار تاریں لگی تھیں۔ احاطہ کے ایک گوشہ میں ایک کنواں تھا جس پر رہٹ لگا ہوا تھا۔ اس کی ترکیب استعمال ہمیں وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوگئی کیونکہ سب کو سخت پیاس لگئی ہوئی تھی۔ رہٹ کافی بھاری تھا۔ پانچ سات آدمی مل کر زور لگاتے تھے تو چلتا تھا۔ جس ہودی میں پانی گرتا تھا اس کے ساتھ ٹین کی ایک لمبی سی کھلی نالی لگی ہوئی تھی۔ رہٹ چلتا تھا تو چلانے والوں میں سے ایک ایک جاکر اسی نالی سے اوک لگا کر پانی پی لیتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمام دن شدید گرمی میں لاری کو دھکے لگا لگا کر اور بے یقنی اور خوف کا شکار ہو ہو کر بڑا تکلیف دہ سفر کیا تھا۔ اس لیے تھک کر بے حال ہوچکے تھے۔ اگرچہ کچھ کھائے چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے۔ صبح کا ناشتہ برائے نام ہی کیا تھا۔ اس کے بعد تمام دن پانی پیا۔ راستہ میں پانی بھی پیاس کے مطابق نہیں ملا تھا۔ یہاں پانی پینےکے بعد کھلے میدان میں بستر بچھایا اور لیٹ گیا۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تو فوراً نیند آگئی مگر رات کو پتہ نہیں کس وقت آنکھ کھل گئی۔ شدید بھوک محسوس ہورہی تھی۔ لیکن کھانے کے لیے کچھ پاس نہیں تھا۔ مجھ جیسے ہی کچھ لڑکے رہٹ کے پاس نظر آئے میں بھی جاکر ان میں شامل ہوگیا۔ رہٹ چلا کر سب نے باری باری پانی پیا اور میں اپنے بستر پر آکر لیٹ گیا۔ اس کے بعد پہلے جیسی نیند نہیں آسکی۔ کچھ نیم خوابی اور غنودگی کے عالم میں پڑا رہا۔
صبح سورج نکلتے ہی جون کی تیز دھوپ اور شدید گرمی سے واسطہ پڑا۔ کیمپ کے پورے احاطے میں کہیں کوئی سایہ، کوئی درخت، کوئی سائبان کچھ نہیں تھا۔ چار پانچ تنبو بھی نہیں، چھولداریاں لگی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک تو اس فوجی عملہ کے پاس تھی جوکیمپ کی حفاظت پر مامور تھا۔ باقیوں میں عورتیں اور نچے سمائے ہوئے تھے۔ مجھ جیسے کئی نوعمر لڑکے اور نوجوان ادھر ادھر بیٹھے رومالوں اور کپڑوں سے سر کو ڈھانکنے کی کوشش کررہے تھے۔ان میں سے ہر لڑکے کی الگ داستان تھی۔ کسی کا سارا خاندان شہید ہوگیا تھا۔ کوئی اپنے گھر والوں سے بچھڑ گیا تھا۔ کوئی شدید زخمی ہوکر موت کے منہ سے واپس آیا تھا۔ کوئی مہینوں تک کھیتوں اور فصلوں میں چھپ کر جان بچاتا پھرتا رہا تھا۔ غرض ہر ایک کی انوکھی سرگزشت تھی۔ اسکے ساتھ سب کے پاس ہم جوئی حوصلہ مندی کا ایک نیا پہلو بھی ہر ایک کے پاس تھا کہ اب تک کس کس طرح جان بچائے رکھی۔ یہاں تک کہ کیمپ میں پہنچ گئے۔ ایک نوجوان تو باقاعدہ کیس اور نو خیز ڈاڑھی کے ساتھ تھا۔ وہ سکھ بن کر دن گزارتا رہا تھا۔ ایک اور کسی ہندو کسان کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ غرض ہر ایک گزشتہ تقریباً ایک سال کے عرصہ میں ایک طویل زندگی گزار کر یہاں تک پہنچا تھا۔ ہمارے درمیان گویا خود بخود ایک سمجھوتہ ہوگیا۔ ہر ایک آدھ گھنٹہ بعد ہم اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ کر رہٹ پر جاتے تھے اور رہٹ چلا کر پانی پی کر واپس آتے اور دھوپ سے بچنے کی ناکام کوشش کرنے لگتے۔ دھوپ اور گرمی کی شدت دماغ کو پگھلائے دیتی تھی۔ وقت آگے بڑھنے میں نہیں آرہا تھا۔ اور سایہ کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔
ادھر بھوک تھی کہ بے حال کئے دے رہی تھی۔ مجھے کھانا کھائے قریباً پینتالیس گھنٹے ہوگئے تھے۔ اسی دوران ایک دن پہلے کے پرمشقت سفر کی شدت بھی سہی تھی۔ اس تمام وقت میں پانی پر گزارہ رہا تھا مگر اب پانی بھی گویا سہارا نہیں دے رہا تھا۔ ہر چند منٹ بعد رہٹ پر جاکر خود کو سنبھالنا پڑتا تھا۔ وہاں ایک پلی سے بنی ہوئی تھی، شاید رہٹ کا پانی گزارنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ میں پانی پی کر وہاں بیٹھ گیا۔ ایک کھچڑی داڑھی والا ادھیڑ عمر شخص قریب آبیٹھا اور خود ہی بات شروع کردی۔
“کاکا! تو اکیلا ہے؟۔“
میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ حالات پوچھتا رہا۔ اسکے بعد اپنے حالات سنائے اس کا بیٹا، بہو، بیوی،