کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
بیٹیاں سب ملا کر گھر کے چودہ افراد شہید ہوئے تھے۔وہ خود ایک سات آٹھ سال کی پوتی کے ساتھ کسی طرح بچ رہا تھا اور اب ایک پڑوسی کے ساتھ پاکستان جارہا تھا۔ اس پڑوسی گھرانے کے بھی کئی افراد شہید ہوگئے تھے وہ مجھے اپنے حالات سنا رہا تھا کہ بزدیکی چھوالداری سے میلے کچیلے کپڑوں اور بکھرے بالوں والی ایک پیاری سی بچی نکل کر آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک روٹی تھی۔ بزدیک آکر بولی
“بابا یہ تیرے حصے کی روٹی ہے۔ اب کھانا ختم ہوگیا ہے۔“
بچی وہ روٹی اس شخص کے ہاتھ پر رکھ کر واپس چلی گئی۔ اس شخص نے اس روٹی میں مجھے شریک کرنا چاہا۔ مجھے انتہائی بھوک کے باوجود حیا آئی اور میں نے بار بار انکار کیا مگر وہ بضد رہا اور آدھی روٹی توڑ کر اس نے زبردستی مجھے دیتے ہوئے کہا۔
“مجھے معلوم ہے کہ تجھے پتہ نہیںکب سے کچھ کھانے کو نہیں ملا ہے۔“
اس آدھی روٹی کی لذت، نعمت، ذائقہ، لطف اور قدر کو شاید الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں اب تک جب بھی اسی واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو وہ کیفیت تازہ ہوجاتی ہے۔ جب قریباً دو دن کے فاقہ، بھوک، گرمی، مشقت اور شدت کے بعد اس روکھی روٹی کا لقمہ میرے اندر گیا۔ یہ کیفیت کبھی کسی اعلٰی سے اعلٰی نعمت کے ذریعے بھی محسوس نہیں ہوئی۔ اس واقعہ کو میں نے ہمشہ اس نیک شخص کے حق میں دعا کی ہے جس کے چودہ پیارے شہید ہوگئے تھے اور جو درددل کے خزانہ سے مالا مال تھا۔ وہ نامعلوم شخص جس کا نام اور پتہ مجھے کبھی معلوم نہیں تھا مگر جسے میں نے ہمیشہ اپنے محسن کے طور پر یاد کیا ہے جس کے حصہ میں جانے کتنی دیر بعد ایک روٹی آئی تھی۔ مگر اس نے اس میں بھی مجھے آدھے کا شریک کرلیا۔ کوئی ایک بجے کیمپ میں راشن تقسیم ہوا۔ یہ خشک آٹے، نمک اور پیاز پر مشتمل تھا۔ میں نے راشن تو ایک رومال میں لے لیا مگر آگے کے مراحل کیونکر طے ہوں۔ کیمپ کے فوجی محافظوں میں سے ایک سپاہی سے کچھ گپ شپ کی تھی وہ واقف بن گیا۔ اس کے ذریعہ شام کو اس آٹے کی روٹی پکوائی۔ ایک روٹی خوب موٹی پک گئی۔ آدھی شام کو کھالی اور آدھی صبح کے لیے بچاکر رکھ لی۔ رات کو کھلے میدان کے باعث موسم اچھا ہوگیا۔ ریت مٹی کے اوپر بستر بچھا کر لیٹا تو صبح تک بے خبر سوتا رہا۔
ایک دن مزید اسی کیمپ کی سختی برداشت کرنی پڑی۔ تیسرے دن ایک ٹرک جالندھر کیمپ کے لیے جارہا تھا۔ وہ سپاہی جو میرا واقف بن گیا تھا اس نے سوار کردیا۔ ٹرک شہر میں سے گزر رہا تھا تو لوگ ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے کسی عجیب مخلوق کو پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک پٹرول پمپ پر ٹرک پٹرول لینے کے لیے رکا تو ایک دم ایک دس بارہ سال کا گول مٹول سا لڑکا میلی کچیلی چیک کی قمیض اور خاکی نیکر پہنے ٹرک پر چڑھ آیا۔ حفاظتی دستہ کے سپاہی نے اسے روکنا چاہا تو رونے لگا،بولا
“میں مسلمان ہوں۔ مجھے بچالو ۔ ۔ ۔ “
سپاہی نے اسے ٹرک میں بٹھالیا۔ یہ اقبال تھا۔ ٹرک میں اسے میرے پاس جگہ ملی اور فوراً ہی ہماری دوستی ہوگئی۔ اسنے بتایا کہ لدھیانہ کے ایک گاؤں میں جب مسلمانوں پر حملہ ہوا تو وہ اپنے گھر والوں سے بچھڑ گیا۔ کئی ماہ ادھر ادھر چھپتا اور محنت مزدوری کرتا پھرا اور پٹرول پمپ کے نزدیک ایک سکھ کی سائیکل کی دوکان پر ملازمت کرتا تھا۔ اس دوران میں اسے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ اس کے گھر کے بچے کھچے افراد پاکستان میں راولپنڈی پہنچ گئے ہیں مگر یہ پتا نہیں تھا کہ کتنے افراد بچے ہیں اور کتنے شہید ہوگئے ہیں۔ یہ خبر ملنے کے بعد وہ موقعہ کی تلاش میں تھا۔ آج یہ ٹرک یہاں ٹھہرا اور اس کا مالک بھی دوکان پر نہیں تھا تو وہ موقع کو غنیمت جان کر