ٹائپنگ مکمل پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 14

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti015.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد

بھاگا اور ٹرک میں سوار ہوگیا۔
جالندھر کیمپ چھاؤنی کے علاقہ میں تنہا سی جگہ پر بنایا گیا تھا۔ فوجی بارکیں مختص کی گئی تھیں اور خاردا تار لگا کر سرحد بندی کرلی گئی تھی۔ یہاں ایک بارک میں جگہ مل گئی۔ فرش پختہ تھا۔ اس پر بستر لگا لیا مگر سب سے بڑی دقت پانی کی تھی اس کے لیے نلکے موجود تھے مگران میں پانی ایسا گرم آتا تھا کہ پتی ڈالکر چائے تو بنائی جاسکتی تھی، برف کے بغیر پیا نہیں جاسکتا تھا۔ پھر یہ کہ نلکوں میں بہت کم وقت کے لیے پانی آتا تھا۔ پھر بند ہوجاتا تھا۔ خاص طور پر رات کو بند ہوجاتا تھا۔ جب ٹھنڈا پانی آنے کی اُمید ہوتی تھی۔ کیمپ میں ایک سکھ کی دوکان موجود تھی۔ وہاں سے برف اور دیگر ضرویات مہنگے داموں خریدی جاسکتی تھیں۔ اس طرح کیمپ میں کافی سہولت تھی مگر یہاں ایک ہزار کے قریب افراد جمع تھے اور ان کا جانا پاکستان سے ٹرکوں کی آمد پر منحصر تھا۔ ٹرکوں کی آمد یقینی اور باقاعدہ نہیں تھی۔ اس لیے صبر، شکر اور قسمت پر بھروسہ تسلی کا ذریعہ تھے۔ لدھیانہ کیمپ بہت سہولت اور آرام والا معلوم ہوا۔ اس لیے یہاں انتظار میں رکے رہنے کی بات کچھ زیادہ گراں معلوم نہیں ہوئی۔ جب معلوم ہوا کہ یہاں لوگ تین تین چار چار ہفتوں سے رکے ہوئے ہیں تو ذہنی طور پر میں نے بھی قبول کرلیا کہ ایسا کیا جاسکتا ہے۔ یہاں بارکوں کے ارد گرد درخت بھی تھے۔ لدھیانہ کی گرمی کے بعد تو یہاں کا موسم بڑا ہی خوشگوار معلوم ہوا۔
راشن یہاں بھی خشک ملتا تھا۔ کافی لمبی لائن ہوتی تھی اور بعض اوقات دھکم پیل بھی ہوجاتی تھی۔ اقبال کی دوستی بہت سہارے کا باعث بن گئی تھی۔ ایک اکیلا اور دو گیارہ کے مصداق میں نے اس کے باعث کافی سہولت محسوس کی۔ ویسے بھی بارک میں بہت سے نوجوان اور نو عمر لڑکے ٹھکانا بنائے ہوئے تھے۔ حسب دستور ان میں سے ہر ایک کی کہانی اور ہر ایک کی سرگزشت علحیدہ تھی۔ ظلم وستم، قتل وغارت، دہشت، اور بربریت کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو ملیں کہ انسان کی اس برداشت پر حیرت ہوتی تھی کہ سنانے والا اس سب کے باوجود یہ داستان سنانے کے لیے زندہ موجود ہے۔ زندگی کے معمولات جاری رکھے ہوئے ہے اور ہنسی مذاق کے قابل بھی ہے۔ ان داستانوں سے تو زمین شق ہوسکتی تھی اور آسمان دھاڑیں مارسکتا تھا۔ یہ انسان کا ہی جگرا ہے کہ ہر ناقابل بیان اور ناقابل یقین بوجھ کو بھی برداشت کرجاتا ہے۔
اس بارک میں کچھ خاندان بھی مقیم تھے۔ ایک خاندان میں صرف عورتیں اور بچے تھے۔ مرد کوئی نہیں تھا۔ پتہ نہیں کسی مصیبت زدگی کے بعد یہاں پہنچے تھے۔ میں اور اقبال ان کے کام کردیتے تھے۔ خاندان کی سربراہ خاتون اسی واسطہ سے ہماری ماسی بن گئی۔ ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ روٹی پکنے کی سبیل پیدا ہوگئی۔ راشن لاکر انہیں دے دیتے اور وہ روٹی پکا کر دیدیتی راشن کی مقدار وہی تھی جو لدھیانہ میں تھی۔ بمشکل دو روٹیاں پکتی تھیں۔ ایک رات کو کھالیتا تھا اور دوسری صبح کے لیے رکھ لیتا تھا مگر یہاں دوکان کی سہولت تھی۔ وہاں سے بھنے ہوئے چنے اور دیگر اشیاء مل جاتی تھیں۔ البتہ پیسے خرچ کرتے وقت بہت محتاط رہنا پڑتا تھا کہ جانے کتنے دن یہاں رہنا پڑے اور پیسے ختم ہوگئے تو مزید کہیں سے نہیں مل سکتے تھے۔
نلکے کا گرم پانی پی کر اکثر لوگوں کو پیچس ہوگئی۔ بڑی دقت ہوئی۔ باربار باہر جانا پڑتا تھا۔ ایک دن صبح سویرے باہر جانے کے لیے نکلا تو کافی دور چلا گیا۔ کھیت آگئے تو وہاں ایک سکھ کسان ہل چلاتا ہوا ملا۔ اس نے بڑے غور سے میری جانب دیکھا اور ہل روک کر پوچھا۔
“کاکا! تو اس کیمپ سے آیا ہے ؟۔“
“ہاں سردار جی۔“ میں نے اثبات میں جواب دیا۔
“بہت بھولا لگتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔“
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروف ریڈنگ : ابو کاشان

بھاگا اور ٹرک میں سوار ہوگیا۔
جالندھر کیمپ چھاؤنی کے علاقہ میں تنہا سی جگہ پر بنایا گیا تھا۔ فوجی بارکیں مختص کی گئی تھیں اور خاردار تار لگا کر سرحد بندی کر لی گئی تھی۔ یہاں ایک بارک میں جگہ مل گئی۔ فرش پختہ تھا۔ اس پر بستر لگا لیا مگر سب سے بڑی دقت پانی کی تھی اس کے لیے نلکے موجود تھے مگر ان میں پانی ایسا گرم آتا تھا کہ پتی ڈالکر چائے تو بنائی جا سکتی تھی، برف کے بغیر پیا نہیں جاسکتا تھا۔ پھر یہ کہ نلکوں میں بہت کم وقت کے لیے پانی آتا تھا۔ پھر بند ہو جاتا تھا۔ خاص طور پر رات کو بند ہو جاتا تھا۔ جب ٹھنڈا پانی آنے کی اُمید ہوتی تھی۔ کیمپ میں ایک سکھ کی دوکان موجود تھی۔ وہاں سے برف اور دیگر ضرویات مہنگے داموں خریدی جا سکتی تھیں۔ اس طرح کیمپ میں کافی سہولت تھی مگر یہاں ایک ہزار کے قریب افراد جمع تھے اور ان کا جانا پاکستان سے ٹرکوں کی آمد پر منحصر تھا۔ ٹرکوں کی آمد یقینی اور باقاعدہ نہیں تھی۔ اس لیے صبر، شکر اور قسمت پر بھروسہ تسلّی کا ذریعہ تھے۔ لدھیانہ کیمپ بہت سہولت اور آرام والا معلوم ہوا۔ اس لیے یہاں انتظار میں رکے رہنے کی بات کچھ زیادہ گراں معلوم نہیں ہوئی۔ جب معلوم ہوا کہ یہاں لوگ تین تین چار چار ہفتوں سے رکے ہوئے ہیں تو ذہنی طور پر میں نے بھی قبول کر لیا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بارکوں کے ارد گرد درخت بھی تھے۔ لدھیانہ کی گرمی کے بعد تو یہاں کا موسم بڑا ہی خوشگوار معلوم ہوا۔

راشن یہاں بھی خشک ملتا تھا۔ کافی لمبی لائن ہوتی تھی اور بعض اوقات دھکم پیل بھی ہوجاتی تھی۔ اقبال کی دوستی بہت سہارے کا باعث بن گئی تھی۔ ایک اکیلا اور دو گیارہ کے مصداق میں نے اس کے باعث کافی سہولت محسوس کی۔ ویسے بھی بارک میں بہت سے نوجوان اور نو عمر لڑکے ٹھکانا بنائے ہوئے تھے۔ حسبِ دستور ان میں سے ہر ایک کی کہانی اور ہر ایک کی سرگزشت علحیدہ تھی۔ ظلم وستم، قتل وغارت، دہشت، اور بربریت کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو ملیں کہ انسان کی اس برداشت پر حیرت ہوتی تھی کہ سنانے والا اس سب کے باوجود یہ داستان سنانے کے لیے زندہ موجود ہے۔ زندگی کے معمولات جاری رکھے ہوئے ہے اور ہنسی مذاق کے قابل بھی ہے۔ ان داستانوں سے تو زمین شق ہو سکتی تھی اور آسمان دھاڑیں مار سکتا تھا۔ یہ انسان کا ہی جگرا ہے کہ ہر ناقابل بیان اور ناقابل یقین بوجھ کو بھی برداشت کر جاتا ہے۔

اس بارک میں کچھ خاندان بھی مقیم تھے۔ ایک خاندان میں صرف عورتیں اور بچے تھے۔ مرد کوئی نہیں تھا۔ پتہ نہیں کسی مصیبت زدگی کے بعد یہاں پہنچے تھے۔ میں اور اقبال ان کے کام کر دیتے تھے۔ خاندان کی سربراہ خاتون اسی واسطہ سے ہماری ماسی بن گئی۔ ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ روٹی پکنے کی سبیل پیدا ہوگئی۔ راشن لا کر انہیں دے دیتے اور وہ روٹی پکا کر دیدیتی راشن کی مقدار وہی تھی جو لدھیانہ میں تھی۔ بمشکل دو روٹیاں پکتی تھیں۔ ایک رات کو کھا لیتا تھا اور دوسری صبح کے لیے رکھ لیتا تھا مگر یہاں دوکان کی سہولت تھی۔ وہاں سے بھنے ہوئے چنے اور دیگر اشیاء مل جاتی تھیں۔ البتہ پیسے خرچ کرتے وقت بہت محتاط رہنا پڑتا تھا کہ جانے کتنے دن یہاں رہنا پڑے اور پیسے ختم ہوگئے تو مزید کہیں سے نہیں مل سکتے تھے۔

نلکے کا گرم پانی پی کر اکثر لوگوں کو پیچش ہوگئی۔ بڑی دقت ہوئی۔ بار بار باہر جانا پڑتا تھا۔ ایک دن صبح سویرے باہر جانے کے لیے نکلا تو کافی دور چلا گیا۔ کھیت آگئے تو وہاں ایک سکھ کسان ہل چلاتا ہوا ملا۔ اس نے بڑے غور سے میری جانب دیکھا اور ہل روک کر پوچھا۔
"کاکا! تو اس کیمپ سے آیا ہے ؟۔"
"ہاں سردار جی۔" میں نے اثبات میں جواب دیا۔
"بہت بھولا لگتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔"
 
Top