کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
“اچھا! ۔ ۔ ۔ “ میں نے حیرانی سے کہا۔
“ہاں ۔ ۔ ۔ کیمپ کی حدود ہے۔“ اس نے خاردار تار کی جانب اشارہ کرکے بتایا۔“ جا! جلدی واپس چلا جا، پھر کبھی اتنی دور مت آنا۔ تجھے نقصان پہنچ سکتا ہے۔“
میں فوراً واپس ہوا، اور کیمپ کی حد میں آکر سانس لیا۔
وہاں اور تو کوئی کام تھا نہیں۔ بس اسی ادھیڑ بن میں رہتے تھے کہ پاکستان جانے کی کوئی سبیل بن جائے۔ صبح ہی یہ پتہ کرنے نکل پڑتے تھے کہ کوئی ٹرک آئے ہیں یا نہیں۔ ٹرک آئے ہوتے تھے تو یہ معلوم کرنا ہوتا تھا کہ واپس کب جائیں گے۔ یہ بھی پتہ چل جاتا تو یہ معلوم کرنا ہوتا تھا کہ واپس کب جائیں گے۔ یہ بھی پتہ چل جاتا تو اس ادھیڑ بن میں شامل رہتے کہ کسی طرح ہمارا نام بھی شامل ہوجائے مگر اس کوشش میں اکثر و بیشتر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اول تو ٹرک روز نہیں آتے تھے۔ تیسرے چوتھے روز ایک آدھ آتا تھا تو زیادہ دنوں سے وہاں ٹھہرے ہوئے لوگوں کی باری آتی تھی۔ ہمیں انتظار کے لیے کہا جاتا تھا۔ ایک دن تو ایک صوبیدار نے ہم سب کو اکٹھا کرکے باقاعدہ لیکچر دیا کہ بے صبری اور بے چینی کا اظہار نہ کیا جائے۔ اس نے بتایا کہ بعض لوگ تو چھ چھ ماہ تک کیمپوں میں رہے ہیں۔ آپ لوگ اتنے بے صبر کیوں ہورہے ہیں۔ اس کا لیکچر سن کر صبر اور قرار تو کیا آتا۔ بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوگیا کہ جانے کب تک یہاں رہنا پڑے گا۔
یوں پتہ کرتے، جانے والوں کا نظارہ کرتے، بات چیت کرتے کچھ فوجیوں سے راہ رسم ہوگئی۔ ان سے گپ شپ بھی ہوئی اور ٹرکوں کے آنے جانے کا پتہ بھی چلتا رہتا۔ کیمپ میں رہتے ڈیڑھ ہفتہ گزر چکا تھا اور آگے جانے کی کوئی تدبیر نہیں بن رہی تھی۔ ایک دن صبح ہی جاکر صوبیدار انچارج سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ آج کوئی ٹرک نہیں جائے گا۔ میری طبیعت بھی کچھ خراب تھی۔ پیٹ میں گڑبڑ تھی۔ سر بھی کچھ درد کررہا تھا۔ اس لیے میں بارک میں جاکر بستر بچھا کر لیٹ گیا مگر عورتوں اور بچوں کے شور نے سونے نہیں دیا۔ میں سونے جاگنے کی کیفیت میں پڑا تھا کہ کسی نے آکر بتایا۔
“آج تو لائن آفیسر دو ٹرک لیکر جارہا ہے۔“
میں بددلی سے اُٹھا اور سوچا کہ جا نہیں سکتے تو جانیوالوں کا نظارہ تو کریں اور آہستہ آہستہ چلتا وہاں جاکر کھڑا ہوا جہاں ٹرک تیار کئے جارہے تھے۔ ٹرک میں سوار ہونے والوں کے نام جہاں لکھے جارہے تھے وہاں تو کوئی قریب نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ میں تماشائیوں میں کھڑا تھا۔ طبیعت بدستور خراب تھی۔ سرکا درد کچھ زیادہ ہوگیا تھا۔ پیٹ میں بھی کافی گڑ بڑ تھی۔ سوچ رہا تھا کہ ٹرک چلے جائیں گے تو میں بارک میں جاکر سوجاؤں گا۔ اتنے میں ایک فوجی سپاہی میرے پاس آیا۔ اس سے ایک دن پہلے ہی واقفیت ہوئی تھی اور کافی دیر گپ شپ رہی تھی۔ اب اسکی ڈیوٹی ان ٹرکوں کے ساتھ جانے پر لگ گئی تھی۔ اس نے آتے ہی بے تکلفی سے پوچھا۔
“شاہ جی! اکیلے ہی ہو ۔ ۔ ۔ ؟ ۔ ۔ “
“ہاں اکیلا ہوں ۔“
“چلنا ہے؟ ۔ ۔ ۔“ اس نے پوچھا
“اور یہاں بیٹھے کس لیے ہیں؟ ۔ ۔ ۔ “ میں نے کہا۔
“تو جلدی آجاؤ ۔ ۔ ۔“
میری تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ساری مایوسی اور تکلیف کا ہر احساس کافور ہوگیا۔ اس طرح اچانک موقع ملنے نے تو میرے اندر بجلی بھر دی۔ بھاگم بھاگ بارک میں گیا۔ بستر پر کچھ لوگ لیٹے ہوئے تھے انہیں اٹھاکر بستر لپیٹا۔ بکس اٹھایا اور چشم زدن میں ٹرکوں کے پاس پہنچ گیا۔ اس سپاہی نے میرا سامان لے کر ٹرک کے اندر رکھ دیا اور مجھے بھی اندر بٹھا دیا۔ اتنے میں لائن آفیسر آیا اور آدمیوں کو گننے لگا۔ گنتی کے بعد اس نے کہا کہ اس میں دو آدمی زائد ہیں۔ ان میں ایک میں تھا اور ایک اقبال۔ اتفاق سے جو صوبیدار مولوی صاحب مسافروں کی فہرست بنا رہے تھے وہ بھی میرے واقف بن چکے تھے۔