کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
انہوں نے مجھے دیکھا تو چپکے سے میرا نام فہرست میں شامل کردیا۔ اب صرف اقبال زائد رہ گیا۔ اسے نیچے اتارا گیا تو رونے لگا۔ اس لیے اسے بٹھا دیا گیا۔ ایک دو آدمی لائن آفیسر نے اور بٹھانے تھے۔ چنانچہ اسنے صوبیدار صاحب سے کہا۔
“الگ نام لکھنے کی بجائے جلیل حسین کے ساتھ تین آدمی لکھ دو ۔ ۔ ۔ “
اس طرحاللہ تعالٰی نے کار سازی فرمائی۔ بالکل غیر متوقع طور پر یہ موقع مل گیا اور سختی کے لمحات ختم ہوئے۔
جالندھر سے چل کر امرتسر پہنچے۔ وہاں بھی کیمپ بنا ہوا تھا۔ اس کیمپ میں تھوڑی دیر قیام کیا۔ پانی وغیرہ پیا اور پھر آگے کا سفر شروع ہوا۔ عصر کے قریب بتایا گیا کہ ہم اللہ تعالٰی کے فضل سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ معلوم کرکے جو مسرت اور بے پایاں خوشی محسوس ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ ہر چہرہ مسرت سے دمک اٹھا اور نوجوانوں نے بے اختیار نعرہ لگایا۔
“پاکستان۔“
“زندہ باد ۔ ۔ ۔“ بہت پر جوش جواب ملا۔
والٹین کیمپ میں جاکر ہمیں اتارا گیا۔ یہاں سب سے پہلے ہمارے ناموں کا اندراج ہوا اور راشن کارڈ بنا کر ہمارے سپرد کردئیے گئے تاکہ راشن ملتا رہے۔ معلوا ہوا کہ یہاں ایک ہفتہ کیمپ میں رہنا پڑتا ہے۔ اسکے بعد جسے جہاں جانا ہو وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر جیسے دنیا ہی تبدیل ہوگئی تھی۔ نہ کوئی تکلیف محسوس ہورہی تھی نہ کوئی غم۔ یہاں تک کہ گرمی بھی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ نوجوان خوشی سے چہلیں اور ہنسی مذاق کرتے پھر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ بیماروں کی تیماداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی بھی ہورہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ایک طویل عرصہ کے بعد ہم نے زندگی کو اسکی اصل روح میں دیکھا ہے۔
جالندھر میں پانی کی قلت کے باعث نہانے دھونے کی بڑی دقت تھی۔ یہاں پانی کھلا میسر آیا تو سب سے پہلا کام کپڑے دھونے اور نہانے کا کیا تاکہ میل کچیل کا احساس دور ہو ۔ ۔ ۔ ویسے بھی اب ہندوستانی اثرات سے پاک ہوجانا ضروری تھا۔ نہانے کے بعد یوں لگا جیسے ایک طویل زمانہ کے بعد تازگی اور ہلکے پن کا احساس ہوا ہو۔
رات کو راشن پکا ہوا آیا۔ روٹیاں اور دال روٹیاں تو ہاتھوں میں لے لیں مگر دال کے لیے ہمارے پاس کوئی برتن نہیں تھا۔ ہم چار پانچ لڑکے اسی صورت سے دو چار تھے اور کوئی برتن نہیں ملا تو ایک قریب پڑی ہوئی کسی کی بالٹی اٹھالایا۔ اس میں دال ڈلوانے لگے تو راشن تقسیم کرنے والے نے حیرانی سے دیکھ کر پوچھا۔
“یہ اتنا چھوٹا سا برتن؟ ۔ ۔ ۔ کوئی اس سے بڑا برتن نہیں تھا۔“
کل لے آئیں گے۔ فی الحال اس سے گزارہ کرلیں گے۔“ کسی نے جواب دیا۔
اسی طرح ہنسی مذاق میں بالٹی میں دال لے کر کھانا کھایا اور گویا ایک زمانے بعد بے فکری کی نیند سوئے۔
دوسرے دن صبح ہی میں اور اقبال والٹن اسٹیشن پر پہنچ گئے جو نزدیک ہی تھا۔ مجھے خانیوال جانا تھا اور اسے راولپنڈی مگر ہم ایک ہی گاڑی میں سوار ہوگئے منٹگمری جا کر پتہ چلا کہ راولپنڈی تو دوسری طرف ہے۔ وہاں تو یہ گاڑی نہیں جائے گی۔ اس طرف جانے والی گاڑی دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ اقبال مجھ سے رخصت ہوکر چلا گیا اور دوسری گاڑی میں سوار ہوگیا۔ اس کے بعد اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جانےاب کہاں ہے۔ اس سفر ہجرت کے دوران جتنے لوگوں سے بھی تعلق رہا ان میں سے کوئی بھی دوبارہ نہیں ملا ۔ ۔ ۔ میں ان کے حسن سلوک کو یاد کرتا ہوں اور انہیں دعا دیتا ہوں۔