کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد
روڑکی شہر کی آبادی ملی جلی تھی۔ ہر محلّہ میں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ آباد تھے۔ کسی محلّہ میں ہندو زیادہ ہوں گے تو کسی میں مسلمان زیادہ تھے۔ اب بھی وہ ایک دوسرے سے بظاہر اسی طرح برادرانہ طریقے سے ملتے تھے۔ اکٹھے کاروبار کرتے تھے۔ اکٹھے آتے جاتے تھے۔ مگر یوں لگتا تھا کہ فضا تبدیل ہوگئی ہے۔ ایک کھنچاؤ کی سی کیفیت ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہورہا ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے ہندو نوجوانوں کی ٹریننگ کے لیے کیمپ قائم کردئیے اور انہیں مسلح کرنا شروع کردیا۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ نیشنل گارڈ نے بھی مسلمانوں کی ٹیننگ اور ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت شروع کردی۔ اس زمانہ میں ہتھیار بلم، تبر، کلہاڑی اور نیزہ تھے۔ بندوق ہزاروں میں سے کسی ایک کے پاس لائسنس والی ہوتی تھی۔ کشیدگی بڑھنے پر لائسنسی ہتھیار تھانوں میں جمع کرالئے گئے تھے۔
عربی مدرسوں میں سالانہ امتحان شعبان کے مہینہ میں ہوا کرتے ہیں۔ اس کے بعد چھٹیاں ہوجاتی ہیں جو رمضان کے پورا مہینہ اور شوال کے آغآز تک جاری رہتی ہیں۔ اسی سال حالات کچھ غیریقینی ہوگئے تھے اس لئے رجب کے آخر میں یعنی جون کے تیسرے ہفتہ میں ہی دیوبند سے ممتحن آگئے اور امتحان کے بعد مدرسہ میں چھٹیاں کردی گئیں۔ میں گاؤں چلا گیا ور وہاں کاموں میں مصروف ہوگیا۔ اس گرمی بہت شدت کی پڑی اور برسات کافی تاخیر سے شروع ہوئی۔ رمضان شریف کا مہینہ آیا تو اپنی خیروبرکت اور رونقیں بھی ساتھ لایا۔ ضلع مظفر نگر، سہارنپور کے ساتھ لگتا ضلع ہے۔ اس ضلع میں قصبہ “پور قاضی“ کے رئیس حافظ عبدالحی مرحوم کا معمول تھاکہ آٹھ دس حفاظ اور اپنے لشکر کو ساتھ لے کر 26 رمضان کو پیران کلیر پہنچتے تھے۔ حضرت صابر (رح) کی خانقاہ کی مسجد میں ستائیسویں رات کو شبینہ کراتے تھے۔ حفاظ عشاء کے بعد تراویح میں یکے بعد دیگرے قرآن سناتے چلے جاتے تھے۔ ہر حافظ چار رکعتوں میں چار پانچ سپارے پڑھتا تھا۔ یہاں تک کہ سحری کے وقت تک قرآن مجید ختم کرلیا جاتا تھا۔ اس سال شبینہ کی یہ محفل جاری تھی کہ رات کو ٹھیک بارہ ہم قیام پاکستان کا اعلان ریڈیو پر سنا۔ اس ملک کو اللہ تعالٰی نے اپنی عنایت اور رحمت سے ایسے نیک مقدس محات میں قائم فرمایا کہ ہر مسلمان کو اس کے دوام، استحکام اور سعادت پر پورا یقین ہوگیا۔
شوال کے مہینہ میں یعنی اگست کے آخری دنوں میں مدرسہ کھلا اور نئے سال کا کورس شروع ہوا تو اوس وقت تک گویا سب کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ ہر طرف کانگریسی جھنڈے نظر آتے تھے اور ساتھ ہی فسادات اورقتل وغارت کی خبریں روزانہ کا معمول بن چکی تھیں پنجاب کے ہندو اور سکھ شرنارتھی بھی روڑکی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ ان کی آمد نے فضا کو مزید ناخوشگوار بنادیا۔ ستمبر کے دوسرے ہفتہ تک آس پاس کے دیہات پر حملوں کی خبریں عام ہوگئیں۔ ان دیہات کے مسلمانوں کے گھروں کو جلادیا گیا۔ قتل وغارت کو عام روارکھا گیا اور علاقہ کو مسلمانوں سے خالی کرالیا گیا۔ یہاں کے مسلمان اجڑ پجڑ کر پناہ کی تلاش میں روڑکی شہر اور پیران کلیر کی درگاہ کے احاطہ میں پناہ گزین ہوتے گئے۔
پندرہ ستمبر کو معلوم ہوا کہ جوالاپور پر حملہ ہوگیا ہے۔ اب تک تو بات دیہات اور گاؤں تک ہورہی تھی اور وہاں کے مسلمان پناہ کے لیے شہروں کا رخ کررہے تھے۔ جوالاپور پر حملہ ایک بڑا اور ظالمانہ اقدام تھا جوالاپور ایک پررونق قصبہ تھا۔ ہر دوار سے پانچ میل جنوب کی جانب تھا۔ اس پر حملہ کرکے اسے مسلمانوں سے خالی کرالیا گیا تو گویا اس سے شمال کی سمت کا تمام علاقہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ پیران کلیر میں ان پناہ گزینوں کا اژدھام ہوگیا۔ اس کے بعد تو گویا وحشت اور بربریت کا دیو بے خوف ہو کر سرعام ناچنے لگا۔ روڑکی بھی اس کی زد میںآگیا اور وہاں کرفیو لگ گیا۔ مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیاجارہا تھا۔ ان کی املاک جلائی جارہی