جاسم محمد
محفلین
دفاعی بجٹ میں کمی: وزیر اعظم کا پی آر سٹنٹ
06/06/2019 سید مجاہد علی
وزیر اعظم عمران خان نے فوج کی طرف سے دفاعی بجٹ میں کمی کے فیصلہ کو ’رضاکارانہ اورمثالی‘ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر جوانوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ اس سے افواج پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں متاثر نہیں ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ تنخواہوں کو موجودہ سطح پر منجمد رکھنے کا فیصلہ صرف افسروں کے لئے ہے، عام جوان اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔
وزیر اعظم نے عید کے روز ایک ٹوئٹ پیغام میں یہ غیر معمولی اظہار تشکر کرنا ضروری سمجھا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے جو ہلال عید کی رویت کے سوال پر مفتی منیب الرحمان کے علاوہ خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کے نشانے پر رہے ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ایک بار پھر ’متعلق‘ رکھنے کی کوشش کی ہے اور وزیر اعظم کے بیان کے بعد کہا ہے کہ ’فوج کے اس فیصلہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سول حکومت اور ملٹری کے درمیان معیشت اور اہم قومی معاملات میں مثالی تعاون موجود ہے‘ ۔
چوہدری فواد کی طرف سے اس نادر روزگار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکری حلقوں کے علاوہ وزیر اعظم کے ہاں اپنی ’گڈ ول‘ بہتر کرنے کی خواہش و کوشش قابل فہم ہے۔ تاہم اس ملک کے عام شہریوں کو تو صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات کا فیصلہ حکومت یا پارلیمنٹ کی ہدایت پر نہیں ہوسکتا بلکہ فوج کو خود ہی رضاکارانہ طور پر قوم پر ترس کھاتے ہوئے اس کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ کا یہ بیان کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے‘ کو غور سے پڑھا جائے تو اس معاملہ کی کئی پرتیں کھل سکتی ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ’ہے تو یہ احسان ہی لیکن اسے ہم احسان نہیں کہتے کیوں کہ قوم جب برے معاشی حالات سے گزر رہی ہو تو فوج کو بھی اس کا احساس کرنا پڑتا ہے‘ ۔
تاہم یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ قومی بجٹ پیش ہونے سے پہلے عید الفطر کے موقع پر دفاعی اخراجات میں کمی کے بارے ملک کی حکومت اور فوج کے سربراہان کو اس اہم معاملہ پر قوم کو مطلع کرنا کیوں ضروری محسوس ہؤا۔ حالانکہ اس کا اعلان احسان مندی اور تشکر کے بیان اور دوسری طرف ’کوئی احسان نہیں کیا‘ کے جواب کی صورت میں سامنے آنے کی بجائے، حکومت کی طرف سے چند روز بعد پیشکیے گئے بجٹ میں سامنے آنا چاہیے تھا۔ مشیر مالی امور کی بجٹ تقریر ہی حکومت کی مالی پالیسیوں اور ترجیحات کی عکاس ہو سکتی ہے۔ تب ہی پورے تناظر میں یہ دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کی کون سی ترجیحات درست ہیں اور کہاں پر اپوزیشن اس کی اصلاح کے لئے متبادل تجاویز سامنے لاسکتی ہے۔
اس دوران بجٹ کے حوالے سے یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ نیا بجٹ محاصل اور مہنگائی کا ایک طوفان لے کر آنے والا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے نتیجہ میں حکومت نے نئے مالی سال کے لئے 5500 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت پہلے سے آمدنی کے مقرر ہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت قومی آمدنی میں 400 ارب روپے کمی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے اور زیادہ آمدنی کے نئے ہدف کی تکمیل کے لئے یہ خبریں عام کی گئی ہیں کہ نئے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور محاصل عائدکیے جائیں گے۔ اسی لئے بیشتر مبصرین بجٹ آنے پر عوام کی ’چیخیں نکل جانے‘ کا انتباہ دے رہے ہیں۔
بورڈ آف ریوینو کو ٹیکس نیٹ بڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے پاس جادو کی ایسی کوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ چند ہفتوں یا مہینوں میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرسکتی ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوجائے۔ تحریک انصاف جس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شدید مخالف رہی ہے، اس کی حکومت مجبوری کے عالم میں اسی طریقے کو بھی آزمانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ لیکن اس کی ناکامی کا اندازہ وزیر اعظم کے اس تازہ بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کی مدت پوری ہونے کے بعد ٹیکس چوری کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
اس صورت حال میں قرین قیاس یہی ہے کہ حکومت ایسے بالواسطہ محاصل میں اضافہ کرے گی جس کا براہ راست اثر عام شہری کی جیب پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں دی جانے والی اعانت یا سبسڈی کو ختم کیا جائے گا۔ اس سے بھی عام گھروں کے مالی معاملات ہی متاثر ہوں گے۔ بجٹ کے بعد عام گھر کے اخراجات میں اچانک اضافہ ہوجانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ آئی ایم ایف نے چھے ارب ڈالر کا جو مالی پیکج دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے اس میں غیر پیداواری اخراجات میں کمی بنیادی نکتہ ہے تاکہ ملکی معیشت میں توازن پیدا کرتے ہوئے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کا کام شروع ہوسکے۔ جب بھی کسی ملک کے غیر پیداواری مصارف کی بات کی جائے گی تو دفاعی اخراجات اس میں سب سے پہلے زیر غور آئیں گے۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی تفصیلات بتانے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن دریں حالات یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اس معاہدہ میں حکومت سے دفاعی اخراجات میں کمی کا تقاضہ کیا گیا ہوگا۔ لیکن داخلی مجبوریوں اور خودمختاری کے زعم میں حکومت آئی ایم ایف کی کسی ایسی شرط کا ذکر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لئے دفاعی بجٹ میں اگر کوئی کمی کی جارہی ہے تو اس کا تعلق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی شرائط پورا کرنے سے بھی ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات ناقابل فہم نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کی حکومت اور فوج بجٹ میں مہنگائی کا بم گرنے سے قبل قوم کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بے چین ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کے جس ٹوئٹ سے عید کے دن کا آغاز ہؤا ہے اسے پبلک ریلیشننگ ہتھکنڈے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ فوج بھی یہ بات جانتی ہے کہ جب ہر شعبہ میں بچت کا شور و غوغا ہو اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار ہورہی ہو تو اس ماحول میں دفاعی بجٹ کو برقرار رکھنے کا اعلان فوج کی شہرت کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ہمیشہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کی فوج عوام کی تائید و تعاون سے ہی دشمن کا سامنا کرسکتی ہے۔ اس تائید کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جب عام شہری معاشی مشکلات کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں تو فوج بھی ایثار کرتے ہوئے دفاعی اخراجات میں کمی قبول کررہی ہے۔
دفاعی اخراجات میں کمی کی حقیقت ابھی یا بجٹ آنے کے بعد بھی شاید کبھی سامنے نہیں آسکے گی۔ وزیر اعظم نے بھی اظہار تشکر کرتے ہوئے صرف یہی کہا ہے کہ اس مد میں بچنے والے وسائل قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں صرفکیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ سارے منصوبے بھی فوجی اداروں ہی کی نگرانی میں تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے دفاعی اخراجات میں کمی کے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے ہیں۔ اور آرمی چیف نے بھی صرف افسروں کی تنخواہیں منجمد کرنے کی بات کرکے بحث کو سمیٹا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ دفاعی بجٹ میں درحقیقت کوئی کمی کی جائے گی یا مختلف مدات کے نام بدل کر اعداد و شمار کے ہیر پھیر میں اصل کہانی چھپا دی جائے گی۔
ملک کو بھارت اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دگرگوں تعلقات کی روشنی میں مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کا دفاعی بجٹ کسی صورت بھی بھارت کے دفاعی اخراجات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اسی لئے ملک کی ایٹمی صلاحیت کو ’ڈیٹرنٹ‘ قرار دے کر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جوہری قوت کی وجہ سے ہی پاکستان محفوظ ہے۔ اس دلیل کو سچا ثابت کرنے کے لئے ملک کے دفاعی اخراجات میں حقیقی کمی کے قومی منصوبہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام البتہ سول ملٹری تعاون کا راگ الاپنے والی کوئی حکومت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
فی الوقت قومی سیاست کے عواقب یہی بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں بھی ایسی کوئی حکومت قائم ہونے کا امکان نہیں ہے جو ان اہم اور حساس معاملات کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے کوئی قابل عمل قومی منصوبہ بنانے کا حوصلہ کرسکے۔ جب حکومتیں فوج کی اشیرباد کے بغیر قائم ہونے کا امکان نہ تو دفاعی بجٹ میں کمی بیشی بھی فوج کی مرضی سے ہی ہوگی۔
06/06/2019 سید مجاہد علی
وزیر اعظم عمران خان نے فوج کی طرف سے دفاعی بجٹ میں کمی کے فیصلہ کو ’رضاکارانہ اورمثالی‘ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر جوانوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ اس سے افواج پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں متاثر نہیں ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ تنخواہوں کو موجودہ سطح پر منجمد رکھنے کا فیصلہ صرف افسروں کے لئے ہے، عام جوان اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔
وزیر اعظم نے عید کے روز ایک ٹوئٹ پیغام میں یہ غیر معمولی اظہار تشکر کرنا ضروری سمجھا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے جو ہلال عید کی رویت کے سوال پر مفتی منیب الرحمان کے علاوہ خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کے نشانے پر رہے ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ایک بار پھر ’متعلق‘ رکھنے کی کوشش کی ہے اور وزیر اعظم کے بیان کے بعد کہا ہے کہ ’فوج کے اس فیصلہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سول حکومت اور ملٹری کے درمیان معیشت اور اہم قومی معاملات میں مثالی تعاون موجود ہے‘ ۔
چوہدری فواد کی طرف سے اس نادر روزگار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکری حلقوں کے علاوہ وزیر اعظم کے ہاں اپنی ’گڈ ول‘ بہتر کرنے کی خواہش و کوشش قابل فہم ہے۔ تاہم اس ملک کے عام شہریوں کو تو صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات کا فیصلہ حکومت یا پارلیمنٹ کی ہدایت پر نہیں ہوسکتا بلکہ فوج کو خود ہی رضاکارانہ طور پر قوم پر ترس کھاتے ہوئے اس کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ کا یہ بیان کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے‘ کو غور سے پڑھا جائے تو اس معاملہ کی کئی پرتیں کھل سکتی ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ’ہے تو یہ احسان ہی لیکن اسے ہم احسان نہیں کہتے کیوں کہ قوم جب برے معاشی حالات سے گزر رہی ہو تو فوج کو بھی اس کا احساس کرنا پڑتا ہے‘ ۔
تاہم یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ قومی بجٹ پیش ہونے سے پہلے عید الفطر کے موقع پر دفاعی اخراجات میں کمی کے بارے ملک کی حکومت اور فوج کے سربراہان کو اس اہم معاملہ پر قوم کو مطلع کرنا کیوں ضروری محسوس ہؤا۔ حالانکہ اس کا اعلان احسان مندی اور تشکر کے بیان اور دوسری طرف ’کوئی احسان نہیں کیا‘ کے جواب کی صورت میں سامنے آنے کی بجائے، حکومت کی طرف سے چند روز بعد پیشکیے گئے بجٹ میں سامنے آنا چاہیے تھا۔ مشیر مالی امور کی بجٹ تقریر ہی حکومت کی مالی پالیسیوں اور ترجیحات کی عکاس ہو سکتی ہے۔ تب ہی پورے تناظر میں یہ دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کی کون سی ترجیحات درست ہیں اور کہاں پر اپوزیشن اس کی اصلاح کے لئے متبادل تجاویز سامنے لاسکتی ہے۔
اس دوران بجٹ کے حوالے سے یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ نیا بجٹ محاصل اور مہنگائی کا ایک طوفان لے کر آنے والا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے نتیجہ میں حکومت نے نئے مالی سال کے لئے 5500 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت پہلے سے آمدنی کے مقرر ہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت قومی آمدنی میں 400 ارب روپے کمی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے اور زیادہ آمدنی کے نئے ہدف کی تکمیل کے لئے یہ خبریں عام کی گئی ہیں کہ نئے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور محاصل عائدکیے جائیں گے۔ اسی لئے بیشتر مبصرین بجٹ آنے پر عوام کی ’چیخیں نکل جانے‘ کا انتباہ دے رہے ہیں۔
بورڈ آف ریوینو کو ٹیکس نیٹ بڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے پاس جادو کی ایسی کوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ چند ہفتوں یا مہینوں میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرسکتی ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوجائے۔ تحریک انصاف جس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شدید مخالف رہی ہے، اس کی حکومت مجبوری کے عالم میں اسی طریقے کو بھی آزمانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ لیکن اس کی ناکامی کا اندازہ وزیر اعظم کے اس تازہ بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کی مدت پوری ہونے کے بعد ٹیکس چوری کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
اس صورت حال میں قرین قیاس یہی ہے کہ حکومت ایسے بالواسطہ محاصل میں اضافہ کرے گی جس کا براہ راست اثر عام شہری کی جیب پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں دی جانے والی اعانت یا سبسڈی کو ختم کیا جائے گا۔ اس سے بھی عام گھروں کے مالی معاملات ہی متاثر ہوں گے۔ بجٹ کے بعد عام گھر کے اخراجات میں اچانک اضافہ ہوجانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ آئی ایم ایف نے چھے ارب ڈالر کا جو مالی پیکج دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے اس میں غیر پیداواری اخراجات میں کمی بنیادی نکتہ ہے تاکہ ملکی معیشت میں توازن پیدا کرتے ہوئے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کا کام شروع ہوسکے۔ جب بھی کسی ملک کے غیر پیداواری مصارف کی بات کی جائے گی تو دفاعی اخراجات اس میں سب سے پہلے زیر غور آئیں گے۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی تفصیلات بتانے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن دریں حالات یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اس معاہدہ میں حکومت سے دفاعی اخراجات میں کمی کا تقاضہ کیا گیا ہوگا۔ لیکن داخلی مجبوریوں اور خودمختاری کے زعم میں حکومت آئی ایم ایف کی کسی ایسی شرط کا ذکر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لئے دفاعی بجٹ میں اگر کوئی کمی کی جارہی ہے تو اس کا تعلق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی شرائط پورا کرنے سے بھی ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات ناقابل فہم نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کی حکومت اور فوج بجٹ میں مہنگائی کا بم گرنے سے قبل قوم کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بے چین ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کے جس ٹوئٹ سے عید کے دن کا آغاز ہؤا ہے اسے پبلک ریلیشننگ ہتھکنڈے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ فوج بھی یہ بات جانتی ہے کہ جب ہر شعبہ میں بچت کا شور و غوغا ہو اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار ہورہی ہو تو اس ماحول میں دفاعی بجٹ کو برقرار رکھنے کا اعلان فوج کی شہرت کے لئے بھی اچھا نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ہمیشہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کی فوج عوام کی تائید و تعاون سے ہی دشمن کا سامنا کرسکتی ہے۔ اس تائید کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جب عام شہری معاشی مشکلات کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں تو فوج بھی ایثار کرتے ہوئے دفاعی اخراجات میں کمی قبول کررہی ہے۔
دفاعی اخراجات میں کمی کی حقیقت ابھی یا بجٹ آنے کے بعد بھی شاید کبھی سامنے نہیں آسکے گی۔ وزیر اعظم نے بھی اظہار تشکر کرتے ہوئے صرف یہی کہا ہے کہ اس مد میں بچنے والے وسائل قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں صرفکیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ سارے منصوبے بھی فوجی اداروں ہی کی نگرانی میں تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے دفاعی اخراجات میں کمی کے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے ہیں۔ اور آرمی چیف نے بھی صرف افسروں کی تنخواہیں منجمد کرنے کی بات کرکے بحث کو سمیٹا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ دفاعی بجٹ میں درحقیقت کوئی کمی کی جائے گی یا مختلف مدات کے نام بدل کر اعداد و شمار کے ہیر پھیر میں اصل کہانی چھپا دی جائے گی۔
ملک کو بھارت اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دگرگوں تعلقات کی روشنی میں مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کا دفاعی بجٹ کسی صورت بھی بھارت کے دفاعی اخراجات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اسی لئے ملک کی ایٹمی صلاحیت کو ’ڈیٹرنٹ‘ قرار دے کر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جوہری قوت کی وجہ سے ہی پاکستان محفوظ ہے۔ اس دلیل کو سچا ثابت کرنے کے لئے ملک کے دفاعی اخراجات میں حقیقی کمی کے قومی منصوبہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام البتہ سول ملٹری تعاون کا راگ الاپنے والی کوئی حکومت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
فی الوقت قومی سیاست کے عواقب یہی بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں بھی ایسی کوئی حکومت قائم ہونے کا امکان نہیں ہے جو ان اہم اور حساس معاملات کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے کوئی قابل عمل قومی منصوبہ بنانے کا حوصلہ کرسکے۔ جب حکومتیں فوج کی اشیرباد کے بغیر قائم ہونے کا امکان نہ تو دفاعی بجٹ میں کمی بیشی بھی فوج کی مرضی سے ہی ہوگی۔