محسن حجازی نے کہا:
نوری نستعلیق پہلے سے کتابت شدہ بائیس ہزار کے قریب الفاظ ہیں۔لہذا اس تک نہیں پہنچا جا سکتا دوسرے یہ کہ اگر نستعلیق ٹائپوگرافی اس قدر آسان کام ہوتا تو 17 ویں صدی میں فورٹ ولیم کالج اور پھر ریاست حیدر آباد دکن یوں ہاتھ نہ کھڑے کر لیتے کہ نستعلیق ٹائپ کی تیاری ایک ناممکن کام ہے۔ نسخ میں کتابیں تو 15 ویں صدی میں ہی چھپنا شروع ہوگئی تھیں ٹائپ میں جبکہ نستعلیق ٹائپ آج تک سامنے نہیں آ سکا۔
جناب محسن صاحب: سب سے پہلے تو میری طرف سے اردو نستعلیق فانٹ کی تیاری پرمبارکباد اورداد قبول کریں۔امیدہے کہ اس سے اس زبان کی ترقی اور اسے انٹرنیٹ پر عام کر نے میں مدد ملے گی ۔آپ اردو کا قابلِ فخرسرمایہ ہیں اس لیے اپنا خیال رکھیے گا!
لیکن ایک غلطی کی اصلاح کرتا چلوں: آپ نے فرمایا ہے کہ اردو نستعلیق ٹائپ آج تک سامنے نہیں آسکا۔ یہ بات اس لیے درست نہیں ہے کہ فورٹ ولیم کالج،کلکتہ، 1808ء ہی میں اردو نستعلیق ٹائپ تیار کر چکاتھا۔ اس ٹائپ میں سب سے پہلی کتاب منتخب اللغات 1808ء میں شائع ہوئی تھی۔ لیکن اردو نستعلیق ٹائپ میں چھپنے والی مشہورترین کتاب میر تقی میر کی کلیا ت ہے جو 1811ء میں، یعنی میرکی وفات کے ایک برس بعد، شائع ہوئی تھی۔ اس نایاب کتاب کے دنیا بھر میں صرف چار نسخے بچے ہیں جن میں سے ایک اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں موجودہے۔ مجھے اس نادر نسخے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے ۔ موٹے ، گتے نما پیلے کاغذ پرسیاہ ٹائپ اندر تک دھنس گیا ہے جس سے کندہ کاری کا سا تاثر ملتا ہے۔بر سبیلِ تذکرہ، نستعلیق ٹائپ سے قطع نظر، اس نسخے کی ادبی اور تاریخی اہمیت بھی بے حدو حساب ہے۔
اس کے فورٹ ولیم کالج نے اس ٹائپ کو استعمال کرتے ہوئے کئ دوسری کتابیں بھی شائع کی تھیں، جن میں میر امن کی مشہورِ زمانہ ’باغ و بہار‘اور سودا کی کلیات شامل ہیں۔ مانا کہ یہ ٹائپ نوری نستعلیق کی طرح دیدہ زیب نہیں، لیکن ہے نستعلیق ہی۔ علاوہ ازیں،حیدر آباد دکن میں نستعلیق ٹائپ تیار کیا گیا تھا، یہ الگ بات کہ وہ تجارتی بنیادوں پر کامیاب ثابت نہیں ہو سکا۔
آداب عرض ہے،
زیف