پاگل عادل آبادی

عندلیب

محفلین
پاگل عادل آبادی​

پاگل عادل آبادی نے اپنے ظریفانہ کلام کے ذریعے اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے وابستہ کیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں ظرافت کی چاشنی شامل کرتے ہوئے تیکھے انداز میں سماج کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے طنزکے نشتر کا استعمال کیا۔ ان کی تقلید میں دکنی شعراء نے بھی دہقانہ زبان میں مزاح نگاری کا سلسلہ سہارا لیتے ہوئے معاشرہ کی برائیوں کو دور کرنے کے یے طنزیہ کلام لکھنے کی جانب مراجعت کی۔ اس طرح اردو شاعری میں ان شعراء کی دکنی کلام سے گراں قدر اضافہ ہوا۔

طنز و مزاح نگاران حیدرآباد سے صنف شاعری کو دکنی لب و لہجہ سے مالا مال کیا۔ ایسے ہی دکنی شاعروں میں پاگل عادل آبادی کا شمار ہوتا ہے۔ پاگل عادل آبادی کا نام احمد شریف ہے جو لگ بھگ 64 برس پہلے حیدرآباد کے مردم خیز ضلع نظام آباد کے محلہ حطائی میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں وہ فلمی دنیا کے مایہ ناز گلوکار محمد رفیع کی گائی ہوئی غزلوں اور گیتوں کو اپنے دوست و احباب کے روبرو پیش کرکے داد تحسین حاصل کی ۔ اسی شوق نے ان کو شاعری کی طرف مائل کیا اور انہوں نے 1970 ء کی لگ بھگ مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کا آغاز کیا اور اپنے لیے پاگل تخلص پسندکیا۔ ملازمت کےمعاملہ میں سلسلہ تدریس سے وابستہ ہوکر عادل آباد میں سکونت اختیار کی۔

پاگل عادل آبادی کے تعلق سے یوسف ناظم کی رائے کہ ان کے پاس ہر قسم کا مال ہے مشاعروں کا بھی،محفلوں کا بھی ، خانگی صحبتوں کا بھی اور کچھ ان لوگوں کے لیے جو صرف ہنسنا نہیں سوچنا بھی چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر سید مصطفی کمال کی یہ رائے کہ وہ اپنے پاگل پن کے پردے میں ہر وہ بات کہہ جاتے ہیں۔ جسے سننا عام حالات میں گوارا نہیں ہوتا۔ ذیل کے اشعارسے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ انہوں ے کس طرح طنزو مزاح کے نشتر سے سماج میں پیدا شدہ خرابیوں کی جانب اشارہ کیاہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ پولیس اور فوج کی موجودگی کسی شہر میں بھی امن کی ضامن ہوتی ہے لیکن اس بدبختی کو کیا کہیے کہ شہر میں پولیس بھی ہے فوج بھی ہے لیکن امن نہیں ہے:
پولیس کے ساتھ فوج بھی موجود تھی مگر
شہر اماں میں صرف امن کا پتہ نہ تھا

موجودہ معاشرہ میں شادی کے بعد دلہنوں پر کیے جانے والے مظالم کی طرف وہ اس انداز میں توجہ دلاتے ہیں:
دلہنیں زندہ جلائی جارہی ہیں آج کل
پھر ستی کی رسم کو لوگوں نے زندہ کردیا

آج کے معاشرے میں شادیاں تو بڑی دھوم دھام سے ہوجاتی ہیں لیکن اکثر دلہنوں کو سسرال میں ذہنی ، جسمانی اور بعض اوقات جانی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاگل عادل آبادی نے ان واقعات کی اس طرح عکاسی کی ہے۔
لازم تھا والدین کو لڑکی کے جہز میں
پیٹرول کا بھی ڈبہ بھیجاتے تو ٹھیک تھا

معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا انہوں نے نہ صرف عمیق نظر سے مشاہدہ کیا اس پر اظہار خیال بھی کیا۔ خوردنی اشیاء میں ملاوٹ عام بات ہوگئی ہے حتیٰ کہ یہ لعنت دواؤں میں ملاوٹ کی حد تک پہنچ گئی ہے ۔ پاگل عادل آبادی اس سماجی برائی کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ سیل بند بوتل ہے لیبل بھی اصلی
ملاوٹ ہے گھی میں مگر ففٹی ففٹی

بد قسمتی سے قیادت سے وابستہ بیشتر قائدین سماج کی بدترین صورتحال ، فرقہ وارانہ منافرت ، تشدد اور معاشی جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ان قائدین کے چہروں سے نقابیں نوچتے ہوئے پاگل عادل آبادی نے ان کی اصلی شکل سماج کے سامنے پیش کی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کرسی کا یہ بھوکا ہے پیاسا ہے یہ ووٹوں کا
خود غرض فریبی ہے ایجنٹ ہے چوروں کا
ظاہر میں یہ مہاتما ہے باطن میں یہ پاپی ہے
ابلیس کا یہ مجھ کو چیلا نظر آتا ہے
ساری ذی روح مخلوقات میں سانپ سے زیادہ زہریلا جانور مانا جاتا ہے۔ پاگل عادل آبادی بعض زہریلے قائدین کو سانپ سے زیادہ زہریلا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں
نیتا کو ایک سانپ نے اک روز ڈس لیا
نیتا تو زندہ رہ گئے پر سانپ مر گیا

اردو شعری ادب میں شیخ واعظ زاہد اور عابد وغیرہ پر بیشتر شعراء نے طنز کیا ہے پاگل عادل آبادی بھی اس شاعرانا گرفت میں حصہ لیتے ہوئے کہتے ہیں:
سوئے میخانہ چلی جاتی ہے کھلم کھلا
شیخ صاحب کی سواری ارے قصہ کیاہے
ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے :
میکدے کی بھیڑ میں یہ کیا ہوا
شیخ اند گھس گئے ہم رہ گئے

پاگل عادل آبادی کے پانچ مجموعہ کلام شایع ہوچکے ہیں۔ جن کے نام "الم غلم" ، "چوں چوں کا مربہ"، "گڑبڑگھوٹالا"،"کھٹےانگور"اور "کھسر پھسر" ہیں۔
پاگل عادل آبادی نے ایک استاد کی حیثیت سے زندگی گزاری اور وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ، فالج کے حملے ، طویل بیماری اور علالت کے بعد 3 اگست 2007ء میں انتقال کر گئے اور ان کو عادل آباد میں پیوندِخاک کیا گیا۔

مزاح نگارانِ حیدرآباد سے اقتباس
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
پاگل عادل آبادی​

پاگل عادل آبادی نے اپنے ظریفانہ کلام کے ذریعے اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے وابستہ کیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں ظرافت کی چاشنی شامل کرتے ہوئے تیکھے انداز میں سماج کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے طنزکے نشتر کا استعمال کیا۔ ان کی تقلید میں دکنی شعراء نے بھی دہقانہ زبان میں مزاح نگاری کا سلسلہ سہارا لیتے ہوئے معاشرہ کی برائیوں کو دور کرنے کے یے طنزیہ کلام لکھنے کی جانب مراجعت کی۔ اس طرح اردو شاعری میں ان شعراء کی دکنی کلام سے گراں قدر اضافہ ہوا۔

طنز و مزاح نگاران حیدرآباد سے صنف شاعری کو دکنی لب و لہجہ سے مالا مال کیا۔ ایسے ہی دکنی شاعروں میں پاگل عادل آبادی کا شمار ہوتا ہے۔ پاگل عادل آبادی کا نام احمد شریف ہے جو لگ بھگ 64 برس پہلے حیدرآباد کے مردم خیز ضلع نظام آباد کے محلہ حطائی میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں وہ فلمی دنیا کے مایہ ناز گلوکار محمد رفیع کی گائی ہوئی غزلوں اور گیتوں کو اپنے دوست و احباب کے روبرو پیش کرکے داد تحسین حاصل کی ۔ اسی شوق نے ان کو شاعری کی طرف مائل کیا اور انہوں نے 1970 ء کی لگ بھگ مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کا آغاز کیا اور اپنے لیے پاگل تخلص پسندکیا۔ ملازمت کےمعاملہ میں سلسلہ تدریس سے وابستہ ہوکر عادل آباد میں سکونت اختیار کی۔

پاگل عادل آبادی کے تعلق سے یوسف ناظم کی رائے کہ ان کے پاس ہر قسم کا مال ہے مشاعروں کا بھی،محفلوں کا بھی ، خانگی صحبتوں کا بھی اور کچھ ان لوگوں کے لیے جو صرف ہنسنا نہیں سوچنا بھی چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر سید مصطفی کمال کی یہ رائے کہ وہ اپنے پاگل پن کے پردے میں ہر وہ بات کہہ جاتے ہیں۔ جسے سننا عام حالات میں گوارا نہیں ہوتا۔ ذیل کے اشعارسے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ انہوں ے کس طرح طنزو مزاح کے نشتر سے سماج میں پیدا شدہ خرابیوں کی جانب اشارہ کیاہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ پولیس اور فوج کی موجودگی کسی شہر میں بھی امن کی ضامن ہوتی ہے لیکن اس بدبختی کو کیا کہیے کہ شہر میں پولیس بھی ہے فوج بھی ہے لیکن امن نہیں ہے:
پولیس کے ساتھ فوج بھی موجود تھی مگر
شہر اماں میں صرف امن کا پتہ نہ تھا

موجودہ معاشرہ میں شادی کے بعد دلنہوں پر کیے جانے والے مظالم کی طرف وہ اس انداز میں توجہ دلاتے ہیں:
دلہنیں زندہ جلائی جارہی ہیں آج کل
پھر ستی کی رسم کو لوگوں نے زندہ کردیا

آج کے معاشرے میں شادیاں تو بڑی دھوم دھام سے ہوجاتی ہیں لیکن اکثر دلہنوں کو سسرال میں ذہنی ، جسمانی اور بعض اوقات جانی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاگل عادل آبادی نے ان واقعات کی اس طرح عکاسی کی ہے۔
لازم تھا والدین کو لڑکی کے جہز میں
پیٹرول کا بھی ڈبہ بھیجاتے تو ٹھیک تھا

معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا انہوں نے نہ صرف عمیق نظر سے مشاہدہ کیا اس پر اظہار خیال بھی کیا۔ خوردنی اشیاء میں ملاوٹ عام بات ہوگئی ہے حتیٰ کہ یہ لعنت دواؤں میں ملاوٹ کی حد تک پہنچ گئی ہے ۔ پاگل عادل آبادی اس سماجی برائی کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ سیل بند بوتل ہے لیبل بھی اصلی
ملاوٹ ہے گھی میں مگر ففٹی ففٹی

بد قسمتی سے قیادت سے وابستہ بیشتر قائدین سماج کی بدترین صورتحال ، فرقہ وارانہ منافرت ، تشدد اور معاشی جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ان قائدین کے چہروں سے نقابیں نوچتے ہوئے پاگل عادل آبادی نے ان کی اصلی شکل سماج کے سامنے پیش کی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کرسی کا یہ بھوکا ہے پیاسا ہے یہ ووٹوں کا
خود غرض فریبی ہے ایجنٹ ہے چوروں کا
ظاہر میں یہ مہاتما ہے باطن میں یہ پاپی ہے
ابلیس کا یہ مجھ کو چیلا نظر آتا ہے
ساری ذی روح مخلوقات میں سانپ سے زیادہ زہریلا جانور مانا جاتا ہے۔ پاگل عادل آبادی بعض زہریلے قائدین کو سانپ سے زیادہ زہریلا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں
نیتا کو ایک سانپ نے اک روز ڈس لیا
نیتا تو زندہ رہ گئے پر سانپ مر گیا

اردو شعری ادب میں شیخ واعظ زاہد اور عابد وغیرہ پر بیشتر شعراء نے طنز کیا ہے پاگل عادل آبادی بھی اس شاعرانا گرفت میں حصہ لیتے ہوئے کہتے ہیں:
سوئے میخانہ چلی جاتی ہے کھلم کھلا
شیخ صاحب کی سواری ارے قصہ کیاہے
ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے :
میکدے کی بھیڑ میں یہ کیا ہوا
شیخ اند گھس گئے ہم رہ گئے

پاگل عادل آبادی کے پانچ مجموعہ کلام شایع ہوچکے ہیں۔ جن کے نام "الم غلم" ، "چوں چوں کا مربہ"، "گڑبڑگھوٹالا"،"کھٹےانگور"اور "کھسر پھسر" ہیں۔
پاگل عادل آبادی نے ایک استاد کی حیثیت سے زندگی گزاری اور وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ، فالج کے حملے ، طویل بیماری اور علالت کے بعد 3 اگست 2007ء میں انتقال کر گئے اور ان کو عادل آباد میں پیوندِخاک کیا گیا۔

مزاح نگارانِ حیدرآباد سے اقتباس
ممکنہ غلطیوں کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے یہ میری لاعلمی ہو۔ دکنی زبان میں اسی طرح لکھا جاتا ہو۔ آپ نظر ثانی کرکے میری تصحیح کردیجے گا۔ :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
چلیں آپ کے مضمون کی برکت سے ہمیں بھی ایک نیا لفظ سیکھنے کو مل گیا۔ :)

اور " کا کی کے " کا کیا معاملہ ہے؟ وہ بھی اسی طرح لکھا پڑھا جاتا ہے دکنی میں؟ :)
 
Top