میر پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے - میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
مکمل غزل

پتّہ پتّہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماریِ دل کی رسمِ شہرِ حُسن نہیں
ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

کیا ہی شکارِ فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

رخنوں سے دیوارِ چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارا جانے ہے

تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کے آبِ گوارا جانے ہے

(میر تقی میرؔ)

مہدی حسن کی آواز میں
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
عمدہ شراکت۔۔۔
انڈین مووی دیکھی تھی ایک۔۔gupt ۔۔ اس میں ایک وکیل مار کھانے کے بعد جب ہاسپٹل پہنچتا ہے۔۔ تو یہ شعر پڑھتا ہے
پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔:rollingonthefloor:
 

فرخ منظور

لائبریرین
عمدہ شراکت۔۔۔
انڈین مووی دیکھی تھی ایک۔۔gupt ۔۔ اس میں ایک وکیل مار کھانے کے بعد جب ہاسپٹل پہنچتا ہے۔۔ تو یہ شعر پڑھتا ہے
پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔:rollingonthefloor:
رفیع، لتا کی آواز میں یہ ایک انڈین فلمی گانا بھی ہے۔

 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
اہا اہا کیا سادگی اور روانی ہے لطف آ گیا پڑھ کر
درج ذیل شعر تو بہت پسند آئے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا دارا جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے

پہلا شعر تو زد زبانِ عام ہے
آپ کے توسط پوری غزل بھی پڑھنے کو مل گئی
کیا کہوں ایک بار پھر محمد وارث کے الفاظ دوھراؤں گا
ایک حج کا ثواب آپ کی نذر
محبت آپ کی شاہ صیب
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مکمل غزل

پتّہ پتّہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماریِ دل کی رسمِ شہرِ حُسن نہیں
ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

کیا ہی شکارِ فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

رخنوں سے دیوارِ چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارا جانے ہے

تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کے آبِ گوارا جانے ہے

(میر تقی میرؔ)

مہدی حسن کی آواز میں
مکمل غزل کے لیے بےحد شکریہ فرخ منظور
 
Top