پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا

پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا

ہائے ری گردشِ ایام کہ اب کے تو نے
شکوۂِ گردشِ ایام بھی رہنے نہ دیا

آخرِ کار پکارا اسے ظالم کہہ کر
درد نے دوست کا اکرام بھی رہنے نہ دیا

کوئی کیوں آئے گا دوبارہ تری جنت میں
دانہ بھی چھین لیا، دام بھی رہنے نہ دیا

عیش میں پہلے کہاں اپنی بسر ہوتی تھی
یاد نے دو گھڑی آرام بھی رہنے نہ دیا

دل کو آوارگیاں دور بہت چھوڑ آئیں
ذکرِ خیر ایک طرف، نام بھی رہنے نہ دیا

وہی زنجیر ہے تیرے بھی گلے میں راحیلؔ
جس نے سورج کو لبِ بام بھی رہنے نہ دیا

راحیلؔ فاروق
۲۸ جنوری ۲۰۱۷ء
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
کیا ہی لاجواب غزل ہے، بہت خوب راحیل بھائی
آخرِ کار پکارا اسے ظالم کہہ کر
درد نے دوست کا اکرام بھی رہنے نہ دیا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا بات ہے راحیل بھائی!! بہت ہی اعلی!! اولین دو اشعار تو لاجواب ہیں! خصوصا مطلع بہت ہی جاندار ہے !
پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا​
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا

بہت خوب! سلامت رہیں!​
 

یوسف سلطان

محفلین
پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا
آخرِ کار پکارا اسے ظالم کہہ کر
درد نے دوست کا اکرام بھی رہنے نہ دیا
عیش میں پہلے کہاں اپنی بسر ہوتی تھی
یاد نے دو گھڑی آرام بھی رہنے نہ دیا

دل کو آوارگیاں دور بہت چھوڑ آئیں
ذکرِ خیر ایک طرف، نام بھی رہنے نہ دیا
بہت عمدہ !
 
پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا

وہی زنجیر ہے تیرے بھی گلے میں راحیلؔ
جس نے سورج کو لبِ بام بھی رہنے نہ دیا
واہ واہ واہ ۔۔ کیا بات ہے سر ۔۔ حسب ِ روایت اور حسبِ عادت بہت ہی اعلیٰ اور خوبصورت غزل ۔۔ ڈھیروں داد ۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
لاجواب!

بہت ہی خوب!

یہ وہی غزل ہے نا جس کے صرف دو اشعار سننے کو ملے تھے۔
ویسے میں ہی غلطی پر تھا۔ ایسے اچھے شاعر کا مغرور ہو جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔
 
Top