پرائیویسی؛ خود کی ذات تک محدود؟

نیرنگ خیال

لائبریرین
سیل فون کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب سیل فون آن ہوتا ہے تو وہ قریب ترین بیس ٹرانسیور سٹیشن بی ٹی ایس (ٹاور) یا سیل سے نیگوشی ایٹ کرتا ہے اور ہر بیس سٹیشن (ٹاور) پر ایک بیس سٹیشن کنٹرولر (بی ایس سی) موجود ہوتا ہے جو اسے ایک موبائل سوئچنگ سینٹر (ایم ایس سی) سے جوڑتا ہے اور ایم ایس سی پر ایک وزیٹر لوکیشن رجسٹر (وی ایل آر) نامی ڈیٹا بیس مینٹین ہو رہا ہوتا ہے (جدید ٹیکنالوجی میں خالص وی ایل آر کی جگہ وی۔ایم ایس سی نے لے لی ہے) جو اس بیس سٹیشن کے ساتھ کنکٹڈ تمام سیل فونز کا ریکارڈ مینٹین رکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ جونہی کوئی سیل فون ایک بیس سٹیشن سے دوسرے بیس سٹیشن کے ایریا میں منتقل ہوتا ہے تو ہینڈ اوور پروٹوکول کے ذریعے وہ سیل فون دوسرے بیس سٹیشن اور اس بیس سٹیشن کے ایم ایس سی کے وی ایل آر میں شامل ہو جاتا ہے جب کہ پچھلے ایم ایس سی کے وی ایل آر سے حذف ہو جاتا ہے۔
یہ ہینڈ اوور پروٹوکول اتنا سموتھ ٹرانسفر کرتا ہے کہ دوران گفتگو یا کال کے دوران بھی کال ڈسکنکٹ نہیں ہوتی۔ یہ وی ایل آر ہی ہے جہاں سیل فون کی لوکیشن بلکہ سگنل سٹرینتھ بھی درج ہوتی ہے جو بیس سٹیشن سے سیل فون کے فاصلے کا تعین کرتی ہے۔
اس ضمن میں اس ٹاور سائٹ پر لگے الگوریدھمز بھی کافی سود مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ڈور اور آؤٹ ڈور کے لیئے الگوردھمز کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ پوسٹ پیڈ اور پری پیڈ کے لیئے بھی بینڈ وڈتھ کا تعین کیا جاتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ہزاروں کا تو پتہ نہیں لیکن ڈیٹا بیس والوں کے پاس تو لازمی ہوگی۔ لیکن کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ دیکھتا پھرے کہ ذوالقرنین (یہ میرا نام ہے۔ آپکو مثال کے طور پر دے رہا ہوں) کیا لکھتا ہے۔ ہاں مجھے ذاتی طور پر جانتا ہو تو اور بات ہے۔ :)

بالکل پتا ہوگا۔
ایک مثال دیتا ہوں۔
اگر محفل میں، مَیں کسی کو تبصرہ بھیج دوں یا کوئی مجھے تبصرہ بھیج دے تو ہمیں بذریعہ ای میل (اگر ایکٹویٹ کیا ہوا ہو) پتا چل جاتا ہے اگرچہ محفل میں موجود نہ ہوں، تب بھی۔

میں نے نیٹ پر ہی ایک جگہ پڑھا کہ جو کام ایف بی آئی نے (پبلک ڈیٹابیس) پچھلے بیس پچیس سالوں میں نہیں کر سکا، وہ فیس بک نے صرف دو سالوں میں کرکے دکھایا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بالکل پتا ہوگا۔
ایک مثال دیتا ہوں۔
اگر محفل میں، مَیں کسی کو تبصرہ بھیج دوں یا کوئی مجھے تبصرہ بھیج دے تو ہمیں بذریعہ ای میل (اگر ایکٹویٹ کیا ہوا ہو) پتا چل جاتا ہے اگرچہ محفل میں موجود نہ ہوں، تب بھی۔

میں نے نیٹ پر ہی ایک جگہ پڑھا کہ جو کام ایف بی آئی نے (پبلک ڈیٹابیس) پچھلے بیس پچیس سالوں میں نہیں کر سکا، وہ فیس بک نے صرف دو سالوں میں کرکے دکھایا۔
فیس بک نے تو کام بہت آسان کر دیا ہے۔ کسی یوزر کا ڈیٹا مکمل کا مکمل ڈاؤن لوڈ بھی ہو جاتا ہے۔ :p
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اک لفظ ہے Recommended Videos, یا پھر Recommended Results اور اس طرح کے اور الفاظ۔۔۔ کبھی سوچا ہے یہ کیسے کام کرتے ہیں جبکہ آپکا لاگ-ان تو مکمل طور پر پرائیویٹ سیٹ ہوتا ہے۔ کافی دلچسپ ہے یہ۔ کبھی پڑھیئے گا۔ شغل رہے گا :)
اگر آپ اس پر روشنی ڈالیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ اور ہماری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔:):):)
 

شمشاد

لائبریرین
پرائیویسی تب تک ہے جب تک بات آپ کے پاس ہے۔

مثال مشہور ہے "ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی"

اور ہاں اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تخصیص نہیں۔
 
"کیا واقعی پرائیویسی خود کی ذات تک محدود ہوتا ہے؟"
دلچسپ سوال ہے پر نیا نہیں! :) :) :)

فرض کریں؛ 1۔ ساجد بھائی اپنا ڈائری بلاگر پر بنا دیتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ میرا ڈیٹا مجھ تک محدود ہے۔
کیا ساجد بھائی کی ڈائری کو گوگل کمپنی کو چلانے والے ہزاروں ماہرین نہیں دیکھ سکتے؟؟؟

بڑی کمپنیوں میں یوزر ڈیٹا عموماً کسی حد تک اینکرپٹیڈ شکل میں رکھا جاتا ہے کیوں کہ اس کی بنیاد پر ان کو مارکیٹنگ کرنی ہوتی ہے اور کارپوریٹ ورلڈ میں کلاؤڈ خدمات کا اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ ڈاٹا تک رسائی اور اس پر مختلف آپریشنز کمپنی کے افراد کے رول کے مطابق ہی دیے جاتے ہیں۔ مثلاً ڈیویلپرز کو ڈیبگنگ وغیرہ کی غرض سے بعض معلومات فراہم کرائی جاتی ہیں جو شاید ٹیم مینیجر یا کمپنی کے سی ای او کو دستیاب نہ ہوں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بقول آپ کے کمپنی چلانے والے ہزاروں ماہرین کے سامنے کروڑوں لوگوں کا ہر لحظہ بڑھتا ہوا ڈیٹا اگر رکھا بھی ہو تو وہ تب تک بے مصرف ہوگا جب تک کروڑوں کی تعداد سے کسی مخصوص فرد سے متعلق کسی مخصوص دورانیے کا ڈیٹا نکال کر اس کو بعض ٹرانسفارمیشنز کے بعد کسی مخصوص استعمال میں نہ لایا جائے۔ اس سال کے اوائل میں یا پچھلے سال کسی وقت ایک گوگل ایمپلائی کو اس بات پر نوکری سے نکالا گیا تھا کیوں کہ وہ نو عمر جوڑوں کے چیٹ پڑھتا ہوا پایا گیا تھا۔ ایسی کمپنیاں آپ کے ذاتی ڈیٹا کا استعمال کرتی ہیں لیکن عموماً دو شکلوں میں:

- انفرادی ڈیٹا کے بجائے اجتماعی نتائج اخذ کرنے کے لیے تا کہ بعض معاملات میں ٹرینڈ کا علم ہو سکے۔ مثلاً ٹوئیٹر پر کسی خاص وقوعے کے بعد چند ہیش ٹیگس بہت شہرت پا جاتے ہیں۔ اگر اس ہیش ٹیگ سے سرچ کیا جائے تو ہر سیکنڈ ہزاروں کی تعداد میں ٹوئیٹس پوسٹ کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ کوئی چاہے بھی تو ایسے میں ان تمام ٹوئیٹس کا انفرادی تجزیہ نہیں کر سکتا وہ بھی اس انداز میں کہ فلاں فلاں نے کیا کیا کہا۔ ہاں ٹوئیٹس کی اس دھار کی شدت و جوش سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ اس مخصوص معاملے میں کسی علاقائی یا عالمی سطح پر کسی مخصوص وقت میں کیا رد عمل دیکھنے کو ملا۔

- دوسرا استعمال پرائیویٹ ڈیٹا کا پروفائلنگ اور ریکمینڈیشن وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے۔ مثلاً دو لوگ الگ الگ بیک گراؤنڈ سے ایک ہی چیز کے لیے کسی سرچ انجن میں تلاش کریں تو اکثر ان کے نتائج مختلف آتے ہیں۔ مثال کے طور پر زید کمپیوٹر انجینئیر ہے اور عمرو پھلوں کا آڑھتی۔ دونوں کے پاس گوگل کا اکاؤنٹ ہے اور وہ عرصہ سے گوگل کی خدمات استعمال کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے زید عام طور یو ٹیوب وغیرہ پر تکنیکی ویڈیوز دیکھتا رہا ہوگا اور اکثر تکنیکی موضوعات پر کتابوں، مضامین، خبروں اور الیکٹرانکس کے پرزوں وغیرہ کی تلاش کرتا رہا ہوگا جبکہ عمرو عموماً اجناس کا بھاؤ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ وغیرہ پر مشتمل تلاش کرتا رہا ہوگا۔ کسی روز وہ دونوں ایک ساتھ کسی کافی ہاؤس میں ملیں، دونوں کے پاس اپنا اپنا لیپ ٹاپ ہو اور ایک ہی نیٹورک سے جڑ کر ایک ساتھ اپنے اپنے لیپ ٹاپ میں گوگل کے صفحے پر جائیں اور Apple کی تلاش کریں۔ اگر نتیجے میں ایک کے پاس آئی فون، آئی پیڈ، میک بک و دیگر ایپل پراڈکٹس و دوسرے کے پاس سیب و دیگر پھلوں کے متعلقہ ویب سائٹیں اوپر آئیں تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں، بصورت دیگر نتائج ان کے لیے لا یعنی ہوتے۔ اسی طرح کسی کی جائے سکونت، وقت، موسم، دوستوں کی تعداد و ان کی دلچسپیاں وغیرہ کمپیوٹر نظام کو معلوم ہوں تو زیادہ بہتر پروفائلنگ ہو سکتی ہے۔ اس سے جہاں تلاش بہتر ہوتی ہے وہیں ایڈورٹائزرس صارف کی دلچسپی کے لحاظ سے ٹارگیٹیڈ ایڈورٹائزنگ بھی کر سکتے ہیں۔

ویسے اس قسم کے تجزیے افراد نہیں بلکہ کامپلیکس کمپیوٹر پروگرام کر رہے ہوتے ہیں اس لیے عام طور پر لوگ اپنی پرائیویسی داؤں پر لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
2۔ ہم محفل پر کسی خاص شخص یا اشخاص سے کچھ گفتگو یا مسئلہ شئیر کرنا چاہیں تو ذاتی گفتگو (مکالمات) کا سہارا لیتے ہیں۔
کیا ہمارے ذاتی گفتگو تک محفل کے منتظمین کی رسائی نہیں ہوتی؟؟؟
محفل میں ذاتی مکالمات تک کسی ناظم یا مدیر کی تب تک رسائی نہیں ہوتی جب تک وہ خود اس مکالمے کا حصہ نہ ہوں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی مکالمے کے شرکا میں سے کسی نے مکالمے کے کسی پیغام کو رپورٹ کیا ہو تو محض اس رپورٹ شدہ پیغام کی ایک نقل سپورٹ ٹکٹ کے ساتھ اسٹاف کی نظروں میں آ جاتی ہے۔ ایسے ایڈ آن موجود ہیں جن کی مدد سے مکالموں کو ناظمین کے لیے دستیاب کرایا جا سکتا ہے لیکن ہم ایسے ایڈ آنز کی کبھی پذیرائی نہیں کرتے اس لیے ایسا کچھ محفل میں شامل نہیں۔

ذاتی مکالموں تک رسائی کی ایک واحد صورت یہ ہے کہ محفل کے ڈیٹا بیس کے متعلقہ ٹیبل کو کھنگالا جائے۔ اس کے اختیارات محض اردو ویب انفراسٹرکچر ایڈمنز کے پاس ہوتے ہیں جو کوڈ بیس، ڈیٹا بیس و سرور کی کی دیکھ بھال پر معمور ہیں۔ اتفاق سے ان میں سے کسی کے پاس اتنا اضافی وقت نہیں ہوتا کہ محفلین کی ذاتی گفتگو سے محظوظ ہوں۔ ان اختیارات کا استعمال بہت ہی مخصوص حالات میں کیا جاتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں شاید ایک دفعہ ایسا ہوا ہے کہ دو افراد کے مابین ہونے والی گفتگو کو اس وجہ سے دیکھا گیا تھا کیوں کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو انتہائی حد تک دھمکیاں دی تھیں اور پبلک فورم میں عجیب قسم کی کشیدگی کی فضا قائم ہو گئی تھی۔ محفل اسٹاف کے انتخاب میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسے افراد ٹیم کا حصہ نہ ہوں جو فطری طور پر لوگوں کی ذاتی زندگی و معاملات میں مخصوص دلچسپی رکھتے ہوں اور اپنے اختیارات کا غیر مناسب فائدہ اٹھائیں۔ ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ بطور انتظامیہ ہمیں اراکین کے حوالے سے ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو عام محفلین کے علم میں نہیں ہوتیں ان معلومات کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں نیز دوسروں تک ان کو پہونچانے کا ذریعہ نہ بنیں۔ مثلاً اراکین کے ای میل پتے کی مثال لیں جو کہ ناظمین کو معلوم ہوتی ہیں لیکن کوئی رکن ہمارے ذاتی رابطے میں نہ ہو تو محفل سے ان کا ای میل پتہ حاصل کر کے اس کو محفل کے معاملات کے بجائے ذاتی رابطے کے لیے استعمال کرنا غیر اخلاقی ہے اور محفل اسٹاف ان باتوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

آپ کے باقی سوالات بھی تقریباً اسی نوعیت کے ہیں اور احباب نے پہلے ہی ان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے لہٰذا ہم ان پر مزید کچھ کہنا غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ :) :) :)

یہ سب کچھ کہنے کے بعد ہم آپ کو مشورہ دیں گے کہ اس قسم کے معاملات میں دلچسپی ہو تو چارلی کوف مین، رادیا پرل مین اور مائک اسپیسنر کی کتاب "نیٹورک سیکیورٹی: پرائیویٹ کمیونیکیشن ان آ پبلک ورلڈ" کا مطالعہ مفید ہوگا۔ اس کے علاوہ شارٹ نوٹ پر "پبلک و پرائیویٹ کی اینکرپشن" کے حوالے سے کچھ مواد آن لائن ڈھونڈ کر استفادہ کریں، بعض دلچسپ باتیں معلوم ہوں گی۔ :) :) :)
 

arifkarim

معطل
آجکل کے دور میں پرائویسی ممکن ہی نہیں کیونکہ اس جدید دور میں آپ الیکٹرونک گیجیٹس کے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے، اور یہ الیکٹرنک گیجیٹس بنانے والے آپکی روز مرہ کی زندگی ریکارڈ کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے! :D
 

ساجد

محفلین
ذوالقرنین بھائی ، یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جو بات نیٹ پر گئی وہ پرائیویٹ نہیں رہتی ۔ مختلف Services کے Providers ہماری فراہم کردہ معلومات یا رازوں کو کو کب اور کن مواقع پر Process کرتے ہیں یہ ان کی ضروریات پر منحصر ہوتا ہے۔ 9-11 کے بعد تو نیٹ پر بہت سے Watch Dogs بٹھا دئیے گئے ہیں جو سدھائے ہی اس کام کے لئے گئے ہیں ، حتیٰ کہ امریکی Internet Users بھی اپنی معلومات کے جمع کئے جانے پر نالاں ہیں۔
جہاں تک میری ڈائری کا تعلق ہے تو وہ دن بھر کے اہم واقعات کی ایک ہلکی سی تفصیل ہوتی ہے ۔ مثلا کس کس سے ملاقات ہوئی ، کس کے ساتھ کاروباری لین دین ہوا ، کیا کھایا پیا اور دن کی مصروفیات کو میں نے کیسا محسوس کیا۔ اس میں کوئی ایٹم بم بنانے کے فارمولے نہیں ہوتے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ میں زندگی کے مختلف معاملات اور سیاست پر اپنا ایک واضح نکتہ نظر رکھتا ہوں اور اس کے مطابق لکھتا بھی ہوں لیکن ان میں سے اکثر تحریریں اردو محفل سمیت دیگر سائٹس پر روزانہ ہی اپنے ہاتھ سے نیٹ کی نذر کر دیا کرتا ہوں۔ یہ کام میں اس وقت بھی کیا کرتا تھا جب لوگ خوف کے مارے نیٹ پر امریکہ کو امریکہ لکھنے کی بجائے ا م ر ی ک ہ لکھا کرتے تھے تا کہ Search نہ کئے جا سکیں۔ بہر حال ہم اپنی پرائیویسی کے معاملے میں ابھی تک ٹیکنالوجی کی رسائی سے کم حقہ واقف نہیں ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی آپ کو کس حد تک Detect کر سکتی ہے یا پھر کر چکی ہےاس دھاگے میں اس کا عشر عشیر بھی بیان نہیں کیا گیا۔ کبھی موقع ملا تو اس کے بارے میں دو تین مضامین کا اردو ترجمہ یہاں پیش کروں گا جو میں کچھ ہفتے قبل نیٹ پر ہی دیکھے ہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
[quote="ساجد, [“USER=5551]9-11 کے بعد تو نیٹ پر بہت سے Watch Dogs بٹھا دئیے گئے ہیں جو سدھائے ہی اس کام کے لئے گئے ہیں[/quote]

کیا Watch Dogs وہی شے ہے جو امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف استعمال کیا؟
 

ساجد

محفلین
[quote="ساجد, [“USER=5551]9-11 کے بعد تو نیٹ پر بہت سے Watch Dogs بٹھا دئیے گئے ہیں جو سدھائے ہی اس کام کے لئے گئے ہیں

کیا Watch Dogs وہی شے ہے جو امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف استعمال کیا؟[/quote]
ذوالقرنین بھائی اگر آپ مذاق نہیں کر رہے تو بتا دوں کہ کسی بھی ایسے ادارہ جاتی ڈھانچے کو Watch Dogکہا جا سکتا ہے جو کسی معاملے ، ممالک یا افراد کی کڑی نگرانی کرنے کے لئے قائم کیا جائے۔
جیسے ایران کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے لئے I A E A کو Watch Dog کہا جاتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
جی نہیں ساجد بھائی! بالکل بھی مذاق نہیں کر رہا۔ ان کے متعلق سنا ضرور تھا لیکن معلومات نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی لیے پوچھا۔
چونکہ چند مہینے پہلے یہ افواہ زوروں پر پھیلی تھی۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
[...]

لیکن ہماری ایسی کونسی اتنی ٹاپ سیکرٹ باتیں ہوتی ہیں کہ اگر کوئی گوگل ، فیس بک یا موبائل کمپنی کا employee پڑھ بھی لے، تو اس سے کیا نقصان ہے ہمارا ؟

[...]

ہاں لیکن اگر کوئی بندہ تخریب کار ہے ، پھر تو واقعی اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہئے ، کیونکہ کوئی بھی چیز اسکے خلاف evidence کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے

[...]

اگر آپ کے پاس کچھ فارغ وقت ہو تو جارج واشنگٹن یونیورسٹی لاء سکول کے ایک پروفیسر کا لکھا ہوا یہ پیپر ضرور پڑھیے گا:

“I’ve Got Nothing to Hide” and Other Misunderstandings of Privacy
 

عثمان

محفلین
اگر آپ کے پاس کچھ فارغ وقت ہو تو جارج واشنگٹن یونیورسٹی لاء سکول کے ایک پروفیسر کا لکھا ہوا یہ پیپر ضرور پڑھیے گا:

“I’ve Got Nothing to Hide” and Other Misunderstandings of Privacy
ذرا سست آدمی ہوں۔ اگر ایک مختصر پیراگراف میں ایک دو نقاط بیان ہو جائیں تو کیا خوب ہو۔ :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
ذرا سست آدمی ہوں۔ اگر ایک مختصر پیراگراف میں ایک دو نقاط بیان ہو جائیں تو کیا خوب ہو۔ :)

مختصراً یہ کہ، پرائیویسی کے حامیوں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "اگر آپ کوئی غلط کام نہیں کر رہے، تو پھر آپ کیا چُھپانا چاہتے ہیں؟" یا "اگر آپ کے پاس چُھپانے کے لیے کوئی عمل نہیں ہے، تو آپ کو خوف کس چیز کا اور کیوں ہو گا؟"

صاحبِ مضمون کے نزدیک "چُھپانے کو کچھ نہیں" کی سب سے بڑی خامی یہ ہے: یہ دلیل یہ فرض کرتی ہے کہ پرائیویسی صرف "برے یا غیر قانونی کام/بری یا غیر قانونی چیزیں" چُھپانے کا نام ہے۔ اور ایسا ہرگز نہیں ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے پیپر پڑھیے، کیونکہ پیپر کے مصنف اس موضوع کے بیان پر مجھ سے کہیں زیادہ عبور رکھتے ہیں۔ :)
 
Top