پراجیکٹ: سرائیکی لغت ڈیجیٹائزیشن

مہوش علی

لائبریرین
آساں نے سرائیکی بھراواں لئی ڈاڈی خوش خبری
ٹائرفروش نے سرائیکی کی بہترین لغت مرتب کر دی

04c60ec4d77a717b94a6386f7f4cf62f_L.jpg



طارق سعید برمانی
سعودی عرب میں ایک روز اکبر مخمورؔ نے اس جگہ پر جہاں وہ عربوں اور دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، سرائیکی حرف ’الف‘ اور اردو اور سرائیکی میں اس کی تعریف کے ساتھ کام کا آغاز کیا ۔ اب، تقریباً تیس سال بعد، مخمورؔ سرائیکی الفاظ، ان کے معانی، ضرب الامثال، روزمرہ، محاورات، مترادف الفاظ اور ان کے استعمالات کے سینکڑوں صفحات مرتب کر چکے ہیں۔
اس غیر شائع شدہ لغت کو اکبر نہایت مسرت سے ’’سرائیکی اکھر پوتی‘‘ یا’’سرائیکی لغت‘‘ کہتے ہیں۔ اکبر مخمورؔ کی مرتب کردہ یہ لغت 115000 الفاظ پر مشتمل ہے۔
اکبر کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں نہیں گئے۔پیشے کے اعتبار سے وہ ٹائر مرمت کرنے والے ایک محنت کش ہیں۔مخمورؔ اپنے کام کو شائع کروانے کے لئے نجی یا سرکاری شعبے کی مدد کے منتظر ہیں۔
مخمورؔ اپنے شوق کے متعلق کہتے ہیں، ’’ایک لغت مرتب کرنے کے لئے کسی کو یونیورسٹی یا لائبریری میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔زیادہ تر الفاظ خیالی نہیں ہوتے۔وہ اسماء ہوتے ہیں۔وہ فعل ہوتے ہیں۔وہ اسمائے صفت اور متعلق فعل ہوتے ہیں۔ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ہم انہیں محسوس کر سکتے ہیں۔ہم ان پر عمل کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی لغت 1984ء سے 1994ء کے درمیان سعودی عرب میں اس جگہ پر مرتب کی،جہاں وہ کام کرتے تھے اوراس کا بقیہ حصہ انہوں نے1994ء سے2013ء کے درمیان، ڈیرہ غازی خان میں مرتب کیا۔
پہلے سے موجود سرائیکی لغات، صرف سرائیکی سے اردو ہیں اور تقریباً 36000الفاظ پر مبنی ہیں مگر مخمورؔ کی مرتب کردہ ’’سرائیکی اکھر پوتی‘‘ایک لاکھ پندرہ ہزارالفاظ کا ایک مجموعہ ہے۔
مخمور ؔ نے اتنے زیادہ الفاط کس طرح دریافت کئے ہیں؟
’’میں نے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سرائیکی کی کئی بولیوں پر تحقیق کی ہے، اور مختلف علاقوں میں مجھے کئی ایسے الفاظ سننے کو ملے ہیں جو دوسرے علاقوں میں یا تو کبھی سنے ہی نہیں گئے اور یا نہ ہونے کے برابر استعمال ہوتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
متعدد الفاظ موت کے قریب ہیں کیونکہ ان کو استعمال کرنے والے محض چند بوڑھے افراد ہیں۔ لغت میں ایک لفظ ہے ’’دیہاؤن‘‘ جس کا معنی ہے ’’پپوٹے‘‘ اور ’’درآب‘‘ کا مطلب ہے ’’روٹی‘‘ جبکہ ’’ڈونڈی‘‘ کا مطلب ہے ’’ایک اعلان‘‘۔
اکبر مخمورؔ کہتے ہیں، ’’یہ الفاظ اب سے چالیس برس پہلے روزمرہ گفتگو کا حصہ تھے۔‘‘ پہلی لغات جک او برین، انیس جیلانی، سِراج الدین سانول، مرید حسین جتوئی، قیس فریدی، دِلشاد کلانچوی، شوکت مغل اور سعد اللہ کھیتران نے مرتب کی تھیں۔
سرائیکی ماہنامہ ’’اوتا‘‘ کے ایڈیٹر، ڈاکٹر احسان چنگوانی نے کہا، ’’یہ مخمور کا بہت بڑا کام ہے۔‘‘
35 کُتب کے مصنف اور ماہرِ لسانیات، پروفیسر شوکت مغل نے بھی مخمورؔ کے کام کا اعتراف کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کُتب میں سے ایک کا انتساب مخمورؔ سمیت سرائیکی لغات مرتب کرنے والوں کے نام لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبان اور عالموں کے لئے اس طویل تخلیقی کام کی اشاعت بہت ضروری ہے۔
سرائیکی روزنامے ’’جھوک‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور سرائیکی قوم پرست ظہور دھریجہ نے کہا کہ لُغت مرتب کرنا اداروں کا کام تھا لیکن ایک مزدور نے اپنے جذبے کے ساتھ یہ کام مکمل کر دیاہے۔انہوں نے کہا جیسا کہ سات کروڑ لوگ سرائیکی زبان بولتے ہیں، اکیڈمی آف لیٹرز کویہ لغت شائع کرنی چاہئے۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی علاقے کے مطالعے کے شعبے کے سربراہ، پروفیسر علمدار حسین بخاری نے بھی اکبر کے کام کی بہت زیادہ تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا شعبہ لغت کے اس طویل تخلیقی کام کی اشاعت کے لئے ناکافی اور محدود فنڈز رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے مخمور کو ایک تعریفی خط بھیجا تھا۔ان کے شعبے نے مخمور کو دعوت دی ہے کہ وہ تشریف لائیں اور بطور مہمان طلبہ سے خطاب کریں۔
مخمور قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آبادکے قومی ادارہ برائے تاریخی و ثقافتی تحقیق سے بھی ایسا ہی ایک دعوت نامہ وصول کر چکے ہیں۔
اگرچہ مزید دعوت نامے بھی آرہے ہیں، لیکن مخمورکو اپنے کام کو کتابی شکل میں دیکھنے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے۔

http://thespokesman.pk/index.php/national/item/7466-2014-01-17-20-36-44

شاہ برہمن
 

مہوش علی

لائبریرین
میری خواہش ہے کہ ہماری ٹیم میں سے کوئی ان مجذوب فکر شخص، ہمارے چمن کے اس دیدہ ور سے رابطہ کرے، اسے لغت کو ڈیجیٹل شکل میں تبدیل کرنے کے فوائد سے آگاہ کرے۔

دوسرا ضمنی پراجیکٹ ہے کہ ہو سکے تو چندہ کر کے انکے لیے ایک عدد کمپیوٹر کا انتظام کیا جائے اور انہیں سرائیکی ٹائپنگ سکھائی جائے، تاکہ وہ ہمارے ساتھ ملک کر یہاں اس پراجیکٹ کی خود نگرانی کر سکیں اور یوں یہ پراجیکٹ بہتر طور پر انجام پذیر ہو۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ اک عظیم کام جو کہ اک عام سے انسان نے اپنے شوق و جنون کے بل پر انجام دیا ۔
بلا شک ہمیں بھی ان کے کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ان صاحب کو میں تقریباً ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ میرے ایک اچھے دوست کے ہمسائے ہیں۔ میں ان سے براہ راست رابطے کی کوشش کرتا ہوں، دیکھئے کیا اپ ڈیٹ ملتی ہے :)
 

مہوش علی

لائبریرین
امید ہے کہ کوئی ادارہ انکے کام کو چھاپ دے۔۔۔
دنیا آج اس چوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں اشاعت شدہ کتب (بطور خاص لغات) کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اگر اس محنت کا صحیح مزیدار میٹھا پھل پانا ہے، تو پھر اسے ڈیجیٹائز کرنے کا پراجیکٹ شروع ہونا چاہیے۔ اسکے بعد لوگ زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور یہ سرائیکی زبان کو صحیح معنوں میں ترقی دے سکے گی۔
 

ملائکہ

محفلین
دنیا آج اس چوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں اشاعت شدہ کتب (بطور خاص لغات) کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اگر اس محنت کا صحیح مزیدار میٹھا پھل پانا ہے، تو پھر اسے ڈیجیٹائز کرنے کا پراجیکٹ شروع ہونا چاہیے۔ اسکے بعد لوگ زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور یہ سرائیکی زبان کو صحیح معنوں میں ترقی دے سکے گی۔
لیکن پبلش ہونے کی اہمیت کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔ یہ تو ہے کہ عوام کو بہت فائدہ ہوگا لیکن ساتھ ساتھ اس کام اور اتنی محنت کا فائدہ اس شخص کو بھی ملنا چائیے جس نے یہ سب کام کیا ہے۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
لیکن پبلش ہونے کی اہمیت کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔ یہ تو ہے کہ عوام کو بہت فائدہ ہوگا لیکن ساتھ ساتھ اس کام اور اتنی محنت کا فائدہ اس شخص کو بھی ملنا چائیے جس نے یہ سب کام کیا ہے۔۔۔ ۔
پبلش ہونے میں کئی مسائل ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سرائیکی کا ابھی سرکاری طور پر منظور شدہ کوئی قاعدہ نہیں۔ انفرادی طور پر بنائے گئے حروف تہجی ہیں جن پر بھی کئی رائے پائی جاتی ہیں کہ اس کو ایسے لکھا جائے کہ ویسے۔ اس کے علاوہ سرائیکی میں نان سرائیکی لوگوں کی دلچسپی اتنی نہیں کہ پبلشنگ سے مالی منفعت پیدا ہو۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیجیٹل شکل میں لانے کے بعد مصنف کو ہم چند دوست مل کر اپنی طرف سے "مناسب حق المحنت" دے دیں
 

کاشفی

محفلین
محفل میں سرائیکی فورم بھی ہونا چاہیئے۔۔۔تا کہ لوگ سرائیکی شعر و شاعری شیئر کرسکیں۔۔۔
اے پاکستان دے لوکو ! پلیتیاں کوُں مٹا ڈیوو،
نتاں اے جئیں وی ناں رکھ ئے اے ناں اُو کوں ولا ڈیوو،

جتھاں مخلص نمازی ہنِ اُو مسجد وی ہے بیت اللہ،
جو مُلاّں دے دکاناں ہنِ مسیتاں کوں ڈہا ڈیوو،

اُتے انصاف دا پرچم تلے انصاف وِکدا پئے،
اِیہو جئیں ہر عدالت کُوں بمع عملہ اُڈہ ڈیوو،

پڑھو رحٰمن دا کلمہ بنڑوں شیطان دے چیلے،
منافق توُں تاں بہتر ہےِ جو کافر ناں رکھا ڈیوو،

جے سچ آکھنڑ بغاوت ہےِ بغاوت ناں ہےِ شاکر دا،
چڑھاؤ نیزے تے سر بانویں میڈے خیمے جلا ڈیوو.
 

ملائکہ

محفلین
پبلش ہونے میں کئی مسائل ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سرائیکی کا ابھی سرکاری طور پر منظور شدہ کوئی قاعدہ نہیں۔ انفرادی طور پر بنائے گئے حروف تہجی ہیں جن پر بھی کئی رائے پائی جاتی ہیں کہ اس کو ایسے لکھا جائے کہ ویسے۔ اس کے علاوہ سرائیکی میں نان سرائیکی لوگوں کی دلچسپی اتنی نہیں کہ پبلشنگ سے مالی منفعت پیدا ہو۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیجیٹل شکل میں لانے کے بعد مصنف کو ہم چند دوست مل کر اپنی طرف سے "مناسب حق المحنت" دے دیں
جی پھر ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔
 

مقبول

محفلین
آساں نے سرائیکی بھراواں لئی ڈاڈی خوش خبری
ٹائرفروش نے سرائیکی کی بہترین لغت مرتب کر دی

04c60ec4d77a717b94a6386f7f4cf62f_L.jpg



طارق سعید برمانی
سعودی عرب میں ایک روز اکبر مخمورؔ نے اس جگہ پر جہاں وہ عربوں اور دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، سرائیکی حرف ’الف‘ اور اردو اور سرائیکی میں اس کی تعریف کے ساتھ کام کا آغاز کیا ۔ اب، تقریباً تیس سال بعد، مخمورؔ سرائیکی الفاظ، ان کے معانی، ضرب الامثال، روزمرہ، محاورات، مترادف الفاظ اور ان کے استعمالات کے سینکڑوں صفحات مرتب کر چکے ہیں۔
اس غیر شائع شدہ لغت کو اکبر نہایت مسرت سے ’’سرائیکی اکھر پوتی‘‘ یا’’سرائیکی لغت‘‘ کہتے ہیں۔ اکبر مخمورؔ کی مرتب کردہ یہ لغت 115000 الفاظ پر مشتمل ہے۔
اکبر کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں نہیں گئے۔پیشے کے اعتبار سے وہ ٹائر مرمت کرنے والے ایک محنت کش ہیں۔مخمورؔ اپنے کام کو شائع کروانے کے لئے نجی یا سرکاری شعبے کی مدد کے منتظر ہیں۔
مخمورؔ اپنے شوق کے متعلق کہتے ہیں، ’’ایک لغت مرتب کرنے کے لئے کسی کو یونیورسٹی یا لائبریری میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔زیادہ تر الفاظ خیالی نہیں ہوتے۔وہ اسماء ہوتے ہیں۔وہ فعل ہوتے ہیں۔وہ اسمائے صفت اور متعلق فعل ہوتے ہیں۔ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ہم انہیں محسوس کر سکتے ہیں۔ہم ان پر عمل کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی لغت 1984ء سے 1994ء کے درمیان سعودی عرب میں اس جگہ پر مرتب کی،جہاں وہ کام کرتے تھے اوراس کا بقیہ حصہ انہوں نے1994ء سے2013ء کے درمیان، ڈیرہ غازی خان میں مرتب کیا۔
پہلے سے موجود سرائیکی لغات، صرف سرائیکی سے اردو ہیں اور تقریباً 36000الفاظ پر مبنی ہیں مگر مخمورؔ کی مرتب کردہ ’’سرائیکی اکھر پوتی‘‘ایک لاکھ پندرہ ہزارالفاظ کا ایک مجموعہ ہے۔
مخمور ؔ نے اتنے زیادہ الفاط کس طرح دریافت کئے ہیں؟
’’میں نے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سرائیکی کی کئی بولیوں پر تحقیق کی ہے، اور مختلف علاقوں میں مجھے کئی ایسے الفاظ سننے کو ملے ہیں جو دوسرے علاقوں میں یا تو کبھی سنے ہی نہیں گئے اور یا نہ ہونے کے برابر استعمال ہوتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
متعدد الفاظ موت کے قریب ہیں کیونکہ ان کو استعمال کرنے والے محض چند بوڑھے افراد ہیں۔ لغت میں ایک لفظ ہے ’’دیہاؤن‘‘ جس کا معنی ہے ’’پپوٹے‘‘ اور ’’درآب‘‘ کا مطلب ہے ’’روٹی‘‘ جبکہ ’’ڈونڈی‘‘ کا مطلب ہے ’’ایک اعلان‘‘۔
اکبر مخمورؔ کہتے ہیں، ’’یہ الفاظ اب سے چالیس برس پہلے روزمرہ گفتگو کا حصہ تھے۔‘‘ پہلی لغات جک او برین، انیس جیلانی، سِراج الدین سانول، مرید حسین جتوئی، قیس فریدی، دِلشاد کلانچوی، شوکت مغل اور سعد اللہ کھیتران نے مرتب کی تھیں۔
سرائیکی ماہنامہ ’’اوتا‘‘ کے ایڈیٹر، ڈاکٹر احسان چنگوانی نے کہا، ’’یہ مخمور کا بہت بڑا کام ہے۔‘‘
35 کُتب کے مصنف اور ماہرِ لسانیات، پروفیسر شوکت مغل نے بھی مخمورؔ کے کام کا اعتراف کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کُتب میں سے ایک کا انتساب مخمورؔ سمیت سرائیکی لغات مرتب کرنے والوں کے نام لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبان اور عالموں کے لئے اس طویل تخلیقی کام کی اشاعت بہت ضروری ہے۔
سرائیکی روزنامے ’’جھوک‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور سرائیکی قوم پرست ظہور دھریجہ نے کہا کہ لُغت مرتب کرنا اداروں کا کام تھا لیکن ایک مزدور نے اپنے جذبے کے ساتھ یہ کام مکمل کر دیاہے۔انہوں نے کہا جیسا کہ سات کروڑ لوگ سرائیکی زبان بولتے ہیں، اکیڈمی آف لیٹرز کویہ لغت شائع کرنی چاہئے۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی علاقے کے مطالعے کے شعبے کے سربراہ، پروفیسر علمدار حسین بخاری نے بھی اکبر کے کام کی بہت زیادہ تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا شعبہ لغت کے اس طویل تخلیقی کام کی اشاعت کے لئے ناکافی اور محدود فنڈز رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے مخمور کو ایک تعریفی خط بھیجا تھا۔ان کے شعبے نے مخمور کو دعوت دی ہے کہ وہ تشریف لائیں اور بطور مہمان طلبہ سے خطاب کریں۔
مخمور قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آبادکے قومی ادارہ برائے تاریخی و ثقافتی تحقیق سے بھی ایسا ہی ایک دعوت نامہ وصول کر چکے ہیں۔
اگرچہ مزید دعوت نامے بھی آرہے ہیں، لیکن مخمورکو اپنے کام کو کتابی شکل میں دیکھنے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے۔

http://thespokesman.pk/index.php/national/item/7466-2014-01-17-20-36-44

شاہ برہمن
اے پراجیکٹ کتھاں پہنچے؟
 
Top