محمداحمد
لائبریرین
پرانا پاکستان
حبیب اکرم
حبیب اکرم
''میں ایسے سکول میں داخل ہوا جو اپنے مزاج میں ہی انگریزی تھا، یعنی ایچی سن کالج۔ آپ اسے برطانیہ کے ایٹن سکول کا چربہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سکول میں پڑھنے والے دیگر بچوں کی طرح میں بھی خود کو ان بچوں سے برتر سمجھتا تھا جو اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں جاتے تھے۔ انگریزی میڈیم سکولوں میں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا بلکہ بچوں کو انگریزی بولنے پر بھی مجبور کیا جاتا تھا۔ اس معاملے میں سختی کا عالم یہ تھا سکول کے اوقات میں اردو بولنا منع تھا اور اگر کوئی لڑکا اردو بولتا پکڑا جاتا تو اسے جرمانہ بھی کیا جاتا۔ ہمارا مسلم معاشرہ اور اس کی روایات سکول میں کہیں نظر نہیں آتی تھیں کیونکہ ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ اگر زندگی میں ترقی کرنی ہے تو انگریزوں کی نقالی کرنا ہو گی۔ ہماری مسلم شناخت گھروں تک محدود تھی۔ سکول کا کام ہمیں برطانیہ کے پبلک سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی گھٹیا سی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا۔ قدرتی طور پر اس طرح کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے لیے انگریزوں کے کھلاڑی، اداکار اور گلوکار ہی قابل تقلید ٹھہرے۔
ہم سے پہلے والی نسل کا المیہ یہ تھا کہ وہ انگریزوں کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ مجھے بہت بعد میں یہ ادراک ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم ہی ہمیں ایک قوم بننے سے روکے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنی قومی شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے انگریزی میڈیم سکولوں کی یہی حالت ہے۔ میری نسل کے لیے برطانیہ ہماری جنتِ گم گشتہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج ان سکولوں کے بچے امریکا کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں امریکا اتنا سرایت کر چکا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے بچے بیس بال کی ٹوپی بھی بالکل امریکنوں کی طرح اوڑھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کبھی امریکا نہیں گیا۔
جب پاکستان بنا تو ہمیں ان انگریزی میڈیم سکولوں سے جان چھڑا لینی چاہیے تھی اور ایک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کرنا چاہیے تھا جیسا کہ سنگا پور، بھارت اور ملائیشیا نے کیا بھی۔ ہمارے ہاں سکول ابھی برطانوی کتابیں درآمد کر کے مقامی طلبہ کو پڑھاتے ہیں اور یہی طلبہ اپنی انگریزی بولنے کی صلاحیت کی بنیاد پر سول سروس میں چلے جاتے ہیں۔ ملک کی بہترین نوکریوں کے دروازے ایسے طلبہ پر کھل جاتے ہیں اور یہی بچے بڑے ہو کر اپنی ثقافت سے نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ملک میں خود کر پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی گفتگو میں انگریزی الفاظ بکثرت آئیں، بصورت دیگر آپ کی تعلیم ہی مشکوک ٹھہرے گی۔
ایچی سن کالج میں جو جتنا زیادہ انگریز ہو جاتا ، وہ اتنا ہی قابل تعریف سمجھا جاتا۔ ہم انگریزی تاریخ، انگریزی فلموں، انگریزی کھیلوں ، انگریزی ناولوں اور انگریزی لباس سے حد درجہ متاثر ہوتے چلے گئے۔ ہر وہ شخص مذاق کا نشانہ بنتا جو درست انگریزی نہیں بول سکتا تھا؛ البتہ بہت سارے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اردو بولنا اس وقت کا فیشن تھا۔ ہمیں شلوار قمیض پہننا بھی مناسب نہیں لگتا تھا؛ البتہ عید وغیرہ کے موقع پر یہ لباس پہن لیا جاتا۔
جب میں سولہ سال کی عمر میں لاہور کی کرکٹ ٹیم میں آیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں تو ٹیم کے زیادہ تر لوگوں سے بات ہی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اردو بولتے تھے اور میں انگریزی۔ وہ لڑکے اکٹھے ہو کر میرا مذاق اڑاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہوں۔ ان کے اور میرے درمیان کلچر اور طبقاتی فرق کی اتنی بڑی خلیج حائل تھی جو خود برطانیہ میں نظر نہیں آتی۔ ان کے لطیفے، ان کا مزاح، ان کی پسندیدہ فلمیں، حتٰی کہ دنیا کے بارے میں ان کے خیالات، سب کچھ مختلف تھا۔ اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ اردو میڈیم سکولوں میں پڑھے ہوئے بچوں کے اندر انگریزی میڈیم کے بچوں کے خلاف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی ذہن میں اٹھا کہ ایچی سن کالج کے بہترین میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے جب باہر آ کر ان غریب لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہار کیوں جاتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ غریب لڑکے بہت محنتی ہوتے ہیں، کامیابی کی تڑپ انہیں مزید محنت پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ کرکٹ کی طرح ہاکی اور سکواش کو ہی دیکھ لیجیے، ان کھیلوں کے بہترین کھلاڑی بھی اردو میڈیم سکولوں سے نکلے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ واقعی کچھ بن جاتے ہیں تو مغرب کے رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ انگریزی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مغربی کپڑے پہننے لگتے ہیں حتٰی کہ کچھ تو شراب وغیرہ بھی پینا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ اعلیٰ طبقے کا ہونے کی نشانی ہے۔
قومی لباس ہماری شناخت تھی‘ لیکن وہ بھی غلامانہ ذہنیت کے ہتھے چڑھ کر برباد ہو گئی۔ جب میں چھوٹا تھا تو مجھے یاد ہے کہ میرے کزن نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی تو میرے ایک عزیز بزرگ نے ان سے پوچھا ''یہ تم نوکروں والا لباس کیوں پہنے ہوئے ہو؟‘‘۔ اسی طرح اپنی والدہ کی ایک دوست کو کہتے سنا کہ فلاں کے حالات اب بہتر ہیں کیونکہ اس نے بھی مغربی لباس پہننا شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے کے دس برس بعد انیس سو اٹھاسی میں اپنے کچھ انگریز دوستوں کو قراقرم لے کر گیا تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ میرے ارد گرد تمام لوگوں نے پاکستانی لباس پہن رکھا ہے۔ اسی لمحے دل میں کوندے کی طرح یہ خیال لپکا کہ میں اس ملک کا ایک مشہور شخص ہوں، جہاں جاتا ہوں مجھے دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور میری حالت یہ ہے کہ میرے اور غیر ملکیوں کے لباس میں کوئی فرق سرے سے ہے ہی نہیں۔ کچھ عرصے بعد میں پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان گیا تو وہاں ایک بزرگ مجھ سے پشتو میں بات کرنے پر اصرار کر رہے تھے حالانکہ مجھے زیادہ پشتو نہیں آتی۔ اس بزرگ نے مجھ پر واضح کیا کہ انہیں اپنی قومی شناخت پر فخر ہے۔ یہ صرف قبائلی علاقے میں ہی دیکھا جہاں لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کبھی انگریز کے غلام نہیں رہے اس لیے انہیں کسی دوسری قوم سے کچھ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی روز یہ نکتہ بھی کھلا کہ غلامی صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو خود کو کمتر اور غلام بنانے والے کو برتر سمجھنے لگیں۔
پاکستان کا نظام تعلیم مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے‘ کیونکہ یہاں کوئی ایک نہیں، تین تین نظامِ تعلیم متوازی طور پر چل رہے ہیں۔ یہاں ایک طرف برطانیہ اور امریکا سے درآمد شدہ نصاب پر مبنی نظام ہے تو دوسری طرف حکومت کے قائم کردہ اردو میڈیم سرکاری سکول ہیں اور اس پر مستزاد دینی مدارس۔ ہمارے ملک کے حکمران طبقے کو اسے درست کرنے کی کوئی خواہش بھی نہیں۔ ان تین مختلف طرح کے نظام ہائے تعلیم کا اثر ہے کہ ملک میں مختلف طبقات پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات ہی دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دو مختلف ملکوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ نجی شعبے کے سکولوں نے ان حالات میں بھی اپنا معیار برقرار رکھا ہوا ہے لیکن سرکاری نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور یہیں سے ایسے نوجوانوں کی فوج پیدا ہو رہی ہے جن کے پاس کوئی کارآمد ہنر نہیں ہے۔ مدرسوں کی حالت یہ ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ مسجد کی امامت یا کسی مدرسے میں پڑھانے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے۔ بعض حالات میں تو مدرسے کے تعلیم یافتہ لوگوں کو رویہ یہ ہے کہ وہ ہر مغربی چیز کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ ان تینوں نظامِ تعلیم کے درمیان کسی ربط اور آہنگ کا نہ ہونا ہی ہماری نوجوان نسل کو راستے سے بھٹکائے چلا جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ان تینوں اقسام کے تعلیمی اداروں کے درمیان مشترک نکات ڈھونڈنا ہوں گے‘‘۔
پرانے پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر اوپر دیے ہوئے خیالات خاکسار کے نہیں بلکہ مستقبل کے وزیر اعظم جناب عمران خان کے ہیں جو ان کی اپنی کتاب Pakistan: A personal History میں درج ہیں۔ میں نے صرف اس کتاب کے چند صفحات کا ترجمہ کر دیا ہے تاکہ سند رہے اور نئے پاکستان میں بوقت ضرورت کام آئے۔
بشکریہ روزنامہ دُنیا