راشد اشرف
محفلین
اتوار بازار سے اس مرتبہ ملنے والی کتابوں سے کل 135 منتخب اوراق پر مشتمل پی ڈی ایف فائل کے لیے کارآمد سافٹ لنک:
آج کی پہلی کتاب جس کے مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل کا آغاز ہوتا ہے، سن 1979 میں کلکتہ ‘ادارہ انشائے ماجدی، 147 رابندر سرانی کلکتہ 73 سے شائع ہونے والی مولانا عبدالماجد دریابادی کی "معاصرین" ہے۔ کتاب بارہ سو کی تعداد میں شائع ہوئی تھی، صفحات دو سو بتیس، کتاب عبدالمجید المجید صدیقی سُنسہاروی کی اور طباعت کوہ نور آرٹ پریس کلکتہ کی۔ کتاب کی ترتیب حکیم عبدالقوی دریابادی کے ذمے رہی تھی۔ مولانا ماجد نے معاصرین کا دیباچہ 17 مئی 1974 کو تحریر حکیم عبدالقوی کے مطابق 6 جنوری 1977 کو مولانا کا انتقال ہوگیا اور کتاب ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہوسکی۔ یہ مولانا کے تحریر کردہ خاکے و تذکرے ہیں۔ معاصرین تین حصوں میں منقسم ہے:
تینتالیس بڑے
کچھ برابر والے
آٹھ چھوٹے
بڑوں میں علامہ اقبال، اکبر الہ آبادی، محمد علی جوہر، شوکت علی، حسرت موہانی، ریاض خیر آبادی، شبلی نعمانی، مولوی عبدالحق، راجہ صاحب محمود آباد، عبدالحلیم شرر، مرزا رسوا، اکبر یار جنگ، خواجہ حسن نظامی، چودھری محمد علی رودولوی، خواجہ غلام الثقلین جیسے نام شامل ہیں۔ مصنف نے "برابر والوں" میں ملا واحدی، مولانا مودودی، پریم چند، مولانا مہر و سالک جبکہ آٹھ چھوٹوں میں رئیس جعفری، شوکت تھانوی جیسی شخصیات کو رکھا ہے۔ راقم نے متذکرہ پی ڈی ایف فائل میں اکبر الہ آبادی، ملا واحدی، پیٹرک گیڈس، راجہ صاحب محمود آباد، دو گنج مخفی (دو بزرگوں کا احوال)، مولوی عبدالحق، مرزا رسوا، رئیس جعفری، شوکت تھانوی، عبدالرحمن ندوی نگرامی۔ اکبر الہ آبادی کا خاکہ دلچسپ ہے اور جس انداز اور جن پہلوؤں سے لکھا گیا ہے، ان کی عمومی شخصیت کی نفی کرتا ہے۔ مصنف اکبر سے عمر میں کم ہونے کے باوجود بے تکلف تھے اور ان سے بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا عبدالماجد مغربی مصنفین کے بری طرح زیر اثر تھے اور بقول ان کے یہ ان کے "الحاد و تشکیک" کا زمانہ تھا۔ ایک روز اکبر کہنے لگے
" کیوں صاحب! آپ کو اللہ میاں سے متعلق جو کچھ شک و شبہے رہے ہوں، یہ فرمائیے کہ کبھی اپنے بندہ ہونے میں بھی شک ہوا ہے ?
سوال سنتے ہی مولانا ماجد چکرا گئے اور کہنے لگے " جی نہیں، اس میں تو کبھی شبہ ہوا ہی نہیں اور شاید ہوسکتا بھی نہیں ہے"۔
اکبر نے جواب دیا " بس اتنا ہی کافی ہے۔ اپنی عبدیت کا اقرار کیے جائیے۔ رہی اللہ کی ذات و صفات تو وہ آج تک کس کی سمجھ میں آئی ہے۔ جنہیں بڑے سے بڑا عالم و عارف کہا جاتا ہے، وہ بے چارے انہیں بحثوں میں حیران و ششدر نظر آتے ہیں جبھی تو میں نے (اکبر نے) کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ع بندگی حالت سے ظاہر ہے
خدا ہو یا نہ ہو
یہ دلیل سن کر مولانا ماجد لکھتے ہیں کہ " میں قائل تو معا" کیا ہوتا البتہ سوچ میں اسی وقت سے پڑ گیا"
اکبر الہ آبادی کا وقت آخر قریب آیا تو خواجہ حسن نظامی ان کی نبض تھامے سرہانے بیٹھے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ نبض پر میرا ہاتھ تھا، جب میں کلمہ کہتا تو ڈوبتی ہوئی نبض ایک بار پھر تیز ہوجاتی تھی۔۔
مولانا ماجد، ریاض خیر آبادی کے خاکے میں ان کا شعر لکھتے ہیں:
دلبر سے جدا ہونا یا دل کو جدا کرنا ا
س سوچ میں بیٹھا ہوں کہ آخر مجھے کیا کرنا
گورکھپور کے رئیس مولوی سبحان اللہ خاں، ریاض خیر آبادی کے بڑے قدردان تھے۔ ایک مرتبہ ایک مطلع پر خوش ہوکر انہیں ایک ہزار روپے کے رقم انعام میں دی۔ مولانا کو مطلع یاد رہ گیا:
اتری جو آسمان سے تھی کل اٹھا تو لا
طاق حرم سے شیخ وہ بوتل اٹھا تو لا
دلاور فگار کی تحریر کردہ کتاب " انگلیاں فگار اپنی" بیک وقت خودنوشت بھی ہے اور منتخب مجموعہ کلام بھی۔ ابتدائی 100 صفحات میں دلاور فگار نے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔ راقم نے مذکورہ اوراق کو محفوظ کرکے انٹرنیٹ پر پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے جسے جلد پورا کیا جائے گا۔ شاعری میں دلاور فگار کا ایک علاحدہ اور خاص مقام تھا، یہ مقام ان کی وفات تک قائم رہا۔ زیر تذکرہ کتاب میں غزل کے عنوان سے یہ تخلیق ملاحظہ کیجیے:
اک دوات ایک قلم ہو تو غزل ہوتی ہے
جب یہ سامان بہم ہو تو غزل ہوتی ہے
مفلسی، عشق، مرض، بھوک، بڑھاپا، اولاد
دل کو ہر قسم کا غم ہو تو غزل ہوتی ہے
بھوت، آسیب، شیاطین، اجنہ، ہمزاد
ان بزرگوں کا کرم ہو تو غزل ہوتی ہے
شعر نازل نہیں ہوتا کسی لالچ کے بغیر
دل کو امید رقم ہو تو غزل ہوتی ہے
تندرستی بھی ضروری ہے تغزل کے لیے
ہاتھ اور پاؤں میں دم ہو تو غزل ہوتی ہے
پونچھ کتے کی جو ٹیڑھی ہے تو کچھ بھی نہ بنے
اور تری زلف میں خم ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف ٹھرے سے تو قطعات ہی ممکن ہیں فگار
ہاں اگر وہسکی و رم رم ہوں تو غزل ہوتی ہے
دلاور فگار یوپی کے شہر بدایوں میں 8 جولائی 1928 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شاکر حسین بدایوں کے ایک کالج میں مدرس تھے۔ خودنوشت میں دلاور فگار نے بدایوں کی تہذیبی زندگی کے احوال کے علاوہ کراچی میں قیام کے حالات بھی بیان کیے ہیں۔
ریاض الرحمن ساغر کے سفرنامے "قلم، کیمری اور دنیا" سے ایک طویل دلچسپ باب مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل میں شامل کیا گیا ہے۔
اتوار بازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی تفصیل کھ یوں ہے:
انگلیاں فگار اپنی
دلاور فگار
ایجوکیشنل پریس کراچی
اکتوبر 1971
معاصرین
خاکوں کا مجموعہ
مولانا عبدالماجد دریابادی
ادارہ انشائے ماجدی، رابندر سرانی، کلکتہ
سن اشاعت: 1979
کیمرہ، قلم اور دنیا
سفرنامہ بنگلہ دیش، بنکاک
ریاض الرحمن ساغر
اشاعت: 1992
آج کی پہلی کتاب جس کے مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل کا آغاز ہوتا ہے، سن 1979 میں کلکتہ ‘ادارہ انشائے ماجدی، 147 رابندر سرانی کلکتہ 73 سے شائع ہونے والی مولانا عبدالماجد دریابادی کی "معاصرین" ہے۔ کتاب بارہ سو کی تعداد میں شائع ہوئی تھی، صفحات دو سو بتیس، کتاب عبدالمجید المجید صدیقی سُنسہاروی کی اور طباعت کوہ نور آرٹ پریس کلکتہ کی۔ کتاب کی ترتیب حکیم عبدالقوی دریابادی کے ذمے رہی تھی۔ مولانا ماجد نے معاصرین کا دیباچہ 17 مئی 1974 کو تحریر حکیم عبدالقوی کے مطابق 6 جنوری 1977 کو مولانا کا انتقال ہوگیا اور کتاب ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہوسکی۔ یہ مولانا کے تحریر کردہ خاکے و تذکرے ہیں۔ معاصرین تین حصوں میں منقسم ہے:
تینتالیس بڑے
کچھ برابر والے
آٹھ چھوٹے
بڑوں میں علامہ اقبال، اکبر الہ آبادی، محمد علی جوہر، شوکت علی، حسرت موہانی، ریاض خیر آبادی، شبلی نعمانی، مولوی عبدالحق، راجہ صاحب محمود آباد، عبدالحلیم شرر، مرزا رسوا، اکبر یار جنگ، خواجہ حسن نظامی، چودھری محمد علی رودولوی، خواجہ غلام الثقلین جیسے نام شامل ہیں۔ مصنف نے "برابر والوں" میں ملا واحدی، مولانا مودودی، پریم چند، مولانا مہر و سالک جبکہ آٹھ چھوٹوں میں رئیس جعفری، شوکت تھانوی جیسی شخصیات کو رکھا ہے۔ راقم نے متذکرہ پی ڈی ایف فائل میں اکبر الہ آبادی، ملا واحدی، پیٹرک گیڈس، راجہ صاحب محمود آباد، دو گنج مخفی (دو بزرگوں کا احوال)، مولوی عبدالحق، مرزا رسوا، رئیس جعفری، شوکت تھانوی، عبدالرحمن ندوی نگرامی۔ اکبر الہ آبادی کا خاکہ دلچسپ ہے اور جس انداز اور جن پہلوؤں سے لکھا گیا ہے، ان کی عمومی شخصیت کی نفی کرتا ہے۔ مصنف اکبر سے عمر میں کم ہونے کے باوجود بے تکلف تھے اور ان سے بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا عبدالماجد مغربی مصنفین کے بری طرح زیر اثر تھے اور بقول ان کے یہ ان کے "الحاد و تشکیک" کا زمانہ تھا۔ ایک روز اکبر کہنے لگے
" کیوں صاحب! آپ کو اللہ میاں سے متعلق جو کچھ شک و شبہے رہے ہوں، یہ فرمائیے کہ کبھی اپنے بندہ ہونے میں بھی شک ہوا ہے ?
سوال سنتے ہی مولانا ماجد چکرا گئے اور کہنے لگے " جی نہیں، اس میں تو کبھی شبہ ہوا ہی نہیں اور شاید ہوسکتا بھی نہیں ہے"۔
اکبر نے جواب دیا " بس اتنا ہی کافی ہے۔ اپنی عبدیت کا اقرار کیے جائیے۔ رہی اللہ کی ذات و صفات تو وہ آج تک کس کی سمجھ میں آئی ہے۔ جنہیں بڑے سے بڑا عالم و عارف کہا جاتا ہے، وہ بے چارے انہیں بحثوں میں حیران و ششدر نظر آتے ہیں جبھی تو میں نے (اکبر نے) کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ع بندگی حالت سے ظاہر ہے
خدا ہو یا نہ ہو
یہ دلیل سن کر مولانا ماجد لکھتے ہیں کہ " میں قائل تو معا" کیا ہوتا البتہ سوچ میں اسی وقت سے پڑ گیا"
اکبر الہ آبادی کا وقت آخر قریب آیا تو خواجہ حسن نظامی ان کی نبض تھامے سرہانے بیٹھے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ نبض پر میرا ہاتھ تھا، جب میں کلمہ کہتا تو ڈوبتی ہوئی نبض ایک بار پھر تیز ہوجاتی تھی۔۔
مولانا ماجد، ریاض خیر آبادی کے خاکے میں ان کا شعر لکھتے ہیں:
دلبر سے جدا ہونا یا دل کو جدا کرنا ا
س سوچ میں بیٹھا ہوں کہ آخر مجھے کیا کرنا
گورکھپور کے رئیس مولوی سبحان اللہ خاں، ریاض خیر آبادی کے بڑے قدردان تھے۔ ایک مرتبہ ایک مطلع پر خوش ہوکر انہیں ایک ہزار روپے کے رقم انعام میں دی۔ مولانا کو مطلع یاد رہ گیا:
اتری جو آسمان سے تھی کل اٹھا تو لا
طاق حرم سے شیخ وہ بوتل اٹھا تو لا
دلاور فگار کی تحریر کردہ کتاب " انگلیاں فگار اپنی" بیک وقت خودنوشت بھی ہے اور منتخب مجموعہ کلام بھی۔ ابتدائی 100 صفحات میں دلاور فگار نے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔ راقم نے مذکورہ اوراق کو محفوظ کرکے انٹرنیٹ پر پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے جسے جلد پورا کیا جائے گا۔ شاعری میں دلاور فگار کا ایک علاحدہ اور خاص مقام تھا، یہ مقام ان کی وفات تک قائم رہا۔ زیر تذکرہ کتاب میں غزل کے عنوان سے یہ تخلیق ملاحظہ کیجیے:
اک دوات ایک قلم ہو تو غزل ہوتی ہے
جب یہ سامان بہم ہو تو غزل ہوتی ہے
مفلسی، عشق، مرض، بھوک، بڑھاپا، اولاد
دل کو ہر قسم کا غم ہو تو غزل ہوتی ہے
بھوت، آسیب، شیاطین، اجنہ، ہمزاد
ان بزرگوں کا کرم ہو تو غزل ہوتی ہے
شعر نازل نہیں ہوتا کسی لالچ کے بغیر
دل کو امید رقم ہو تو غزل ہوتی ہے
تندرستی بھی ضروری ہے تغزل کے لیے
ہاتھ اور پاؤں میں دم ہو تو غزل ہوتی ہے
پونچھ کتے کی جو ٹیڑھی ہے تو کچھ بھی نہ بنے
اور تری زلف میں خم ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف ٹھرے سے تو قطعات ہی ممکن ہیں فگار
ہاں اگر وہسکی و رم رم ہوں تو غزل ہوتی ہے
دلاور فگار یوپی کے شہر بدایوں میں 8 جولائی 1928 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شاکر حسین بدایوں کے ایک کالج میں مدرس تھے۔ خودنوشت میں دلاور فگار نے بدایوں کی تہذیبی زندگی کے احوال کے علاوہ کراچی میں قیام کے حالات بھی بیان کیے ہیں۔
ریاض الرحمن ساغر کے سفرنامے "قلم، کیمری اور دنیا" سے ایک طویل دلچسپ باب مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل میں شامل کیا گیا ہے۔
اتوار بازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی تفصیل کھ یوں ہے:
انگلیاں فگار اپنی
دلاور فگار
ایجوکیشنل پریس کراچی
اکتوبر 1971
معاصرین
خاکوں کا مجموعہ
مولانا عبدالماجد دریابادی
ادارہ انشائے ماجدی، رابندر سرانی، کلکتہ
سن اشاعت: 1979
کیمرہ، قلم اور دنیا
سفرنامہ بنگلہ دیش، بنکاک
ریاض الرحمن ساغر
اشاعت: 1992