راشد اشرف
محفلین
پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی-یکم ستمبر، 2013
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحب کتاب نہیں
قبل اس کے کچھ بیان کیا جائے، بازار سے ملنے والی کتابوں کے تعارف پر مبنی پی ڈی ایف فائل کا لنک پیش خدمت ہے
بعض دوستوں نے بارے پرانی کتابوں کے اتوار بازار دریافت کیا کہ کیا وہاں کتابیں سربسجود، نمایاں جگہوں پر آپ کی منتظر ہوتی ہیں کہ جائیے اور اٹھا لیجیے۔ احباب کے ذہنوں میں اتوار بازار کا تصور ایک نہایت صاف ستھری جگہ کی حیثیت سے آتا ہے۔ نستعلیق لوگ، قائدے کے کتب فروش، چمکتا دمکتا ماحول۔
ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔
صفائی نہ ہونے کے برابر، پان کی پیکیں جابجا بکھری ہوئی، فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ کوڑے کے انبار، گھاک اور حرفوں کے بنے ہوئے کتب فروش اور خریداروں میں علی الصبح زیادہ تر وہ جو درسی کتابیں، ڈائجسٹ اور فلمی رسائل، خریدنے کی غرض سے وہاں جمع ہوتے ہیں۔ حلیہ اور وضع قطع ایسی کہ دیکھ کر دل بیٹھ جائے۔ گالی گلوچ تو ایک عام سی بات ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ سے ایک خاتون تشریف لائیں اور راقم سے کہا کہ وہ بازار جانا چاہتی ہیں۔ اپنے ہمراہ لے جاتا تو سوائے شرمندگی کے، اور کچھ ہاتھ نہ آتا۔ ناصر نے کہا تھا:
بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا
مگر کیا کیجیے کہ بازار میں سب چہرے ہی تیزابی نظر آتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ دن چڑھنے پر ماحول تبدیل ہوجاتا ہو لیکن علی الصبح تو وہی صورت حال ہوتی ہے جس کا نقشہ بیان کیا جارہا ہے۔ ایک موصوف کی آواز ایسی گرج دار ہے کہ سارے بازار میں گونجتی ہے۔ وہ بھی ایسا بے شرم کہ صبح ہی سے گاہکوں کے متوجہ کرنے کے لیے کرخت آواز میں چلانا شروع ہوتا ہے تو اگلے ایک گھنٹے تک مجال ہے کہ ذرا تھم جائے۔ "دس دس روپے میں اسلامی کتابیں خریدیے" اس کا مخصوص نعرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلام کا نہ تو اس کی شخصیت سے کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی اس کے پاس موجود کتابوں میں اس کا شائبہ نظر آتا ہے۔ ایک روز راقم اس کا نعرہ سن کر اس جانب جانکلا تو جو کتاب نمایاں جگہ پر رکھی نظر آئی وہ کوک شاستر تھی۔
استفسار پر وہ بے حیاء ڈھٹائی سے گویا ہوا کہ میں تو اسے
coke
شاستر سمجھ کر بیچ رہا ہوں۔
راقم اس کے ذخیرہ الفاظ, شیطانی نوع کی بذلہ سنجی اور الفاظ کے الٹ پھیر پر ششدر رہ گیا۔
کچھ گاہک ایسے ہیں کہ ان کا آنا نہ آنا برابر ہے۔ کتاب کی قیمت دریافت کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، حسرت ہی رہی کہ کبھی ان کے ہاتھوں میں خرید کردہ کتابوں کا انبار دیکھیں ۔ ۔ ۔بقول شاعر:
کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے، دن پلٹتے رہتے ہیں
ادھر کچھ عرصے سے کتب فروشوں نے بھاؤ بڑھا دیے ہیں۔ اتنے کہ اب کتاب خریدتے وقت سوچنا پڑتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کیماڑی سے آنے والا ہمارا ایک پٹھان دوست بھی آنکھیں دکھانے لگا ہے۔ اسی روپے کی کتاب اب اس کے پاس ایک سو تیس روپے سے کم میں دستیاب نہیں۔ کتاب کس موضوع پر ہے، اس کے اچھوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ یہ فیصلہ وہ گاہک کے چہرے کا رنگ دیکھ کر کرتا ہے جو عموما" اپنی پسند کی کتاب دیکھ کر متغیر ہوجاتا ہے اور پھر بھاؤ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
ہاشم رضا کی تنو مند خودنوشت ہماری منزل لکھی انگریزی میں گئی ہے لیکن کتاب کے سرورق پر اس کا نام رومن میں درج ہے:
hamari manzil
راقم نے انجان بن کر پوچھا " خاں صاحب! یہ کتاب کتنے کی ہے" ?
جواب دیا: کون سا کتاب، یہ "امارا منزل" ? لے جاؤ سو روپے میں۔ اور کتنی چاہیں ?
بعد میں اندازہ ہوا کہ ہمارا ممدوح انگریزی کتابوں کے معاملے میں فراخ دل ہے، پان سو صفحات کی ہماری منزل بھلا سو روپے میں کون دیتا ہے ?
معلوم ہوا کہ "امارا منزل" کے کئی نسخے اس نے کہیں سے کوڑیوں کے داموں خرید کیے ہیں اور اب انہیں ریوڑیوں کے داموں فروخت کرنے پر آمادہ ہے۔
تو صاحبو! یہ ہے اتوار بازار۔ اور رہا سوال کتابوں کی دستیابی کا تو کیفیت یہ ہے کہ گوہر نایاب ڈھیر میں سے تلاش کرنے کا یارا سبھوں میں نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کپڑوں کی بربادی کا خیال ترک کرکے، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنی پسند کی کتابیں جھانٹنی پڑتی ہیں۔ اس سودے میں ہاتھ بھی مٹی سے آلودہ ہوتے ہیں۔ ہاں مگر یہ بھی ہے کہ مطلوبہ کتابیں ملنے پر تمام کوفت بھی جاتی رہتی ہے، عالم سرخوشی میں کتاب کے دوانوں کے دل سے یہی صدا نکلتی ہے:
کوئی آفت ترے میخانے پہ آسکتی ہے ?
سب دعاگو ہیں یہ جتنے ہیں شرابی ساقی
اس مرتبہ سید معراج جامی صاحب کی عنایت سے جو پہلی کتاب ہاتھ آئی وہ ہے "انتخاب شعرائے بدنام"۔ جلیل قدوائی اس کے مصنف ہیں۔ 232صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1965 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی۔
شاعر، نقاد، محقق، افسانہ نگار جلیل قدوائی
(پ: 16 مارچ 1904 - م: یکم فروری 1996)
سے ان کی کی خودنوشت "حیات مستعار" مشفق خواجہ مرحوم نے بصد اصرار لکھوائی تھی اور اپنے مکتبہ اسلوب ہی سے شائع بھی کی تھی۔ "انتخاب شعرائے بدنام" میں جلیل قدوائی نے شیخ قلندر بخش جرات، شیخ امام بخش ناسخ، سید آغا حسن امانت، نواب سید محمد خاں رند لکھنوی اور سید انشاء اللہ خاں انشاء کے مختصر حالات زندگی اور کلام سے انتخاب شامل کیا ہے۔ مصنف، کتاب کو سپرد قلم کیے جانے کی توجیہہ حسرت موہانی کے اس بیان کو ٹھہراتے ہیں جس میں مولانا نے فرمایا تھا:
فاسقانہ شاعری کو بدمذاقی پر محمول کرنا، سوقیانہ و متبذل قرار دینا اور انصاف کا خون کرنا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ شاعری کا مقصد صحیح جذبات کی مصوری مسلم ہو تو پھر اس کے دائرے کو صرف پاک جذبہ عشق تک محدود کردینے اور عامہ خلاق کے 99 فیصد جذبات ہوس کو اس سے ضائع کردینے کی کوشش خود مخالفین ہوس نگاری کی انتہائی بدمذاقی اور بے شعوری کے سوا کسی اور چیز پر دلالت نہیں"
جلیل قدوائی مزید کہتے ہیں کہ:
"اسی نقطہ نظر کے مطابق عرصہ ہوا میں نے جرات، انشاء، ناسخ، امانت اور رند کے کلام کا بالااستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد ان کے انتخابات کراچی کے موقر سہ ماہی رسالہ العلم میں شائع کرائے تھے اور اب انہیں کتابی صورت میں پیش کرتا ہوں۔ ناظرین ان اشعار میں حسن و عشق کے معاملات اور محبت کے اشارے، کنایے اور چونچلے ملاحظہ فرمائیں اور فیصیلہ کریں کہ یہ زندگی اور زندہ دلی سے کی تب و تاب سے، جن کے بغیر ہماری دنیا سونی، روکھی پھیکی اور بے نمک رہ جاتی ہے، مزین ہیں یا نہیں اور کیا ان کی بنیاد پر متعلقہ شعراء سے ان کے ابدی طور پر زندہ رہنے کا حق کوئی چھین سکتا ہے? "
ان تمام شعراء کے مختصر احوال میں جلیل قدوائی نے نہ صرف کھل کی ان کی حمایت کی ہے بلکہ ان کے رد میں دیے جانے والے بیانات پر بھی ان کی گہری نظر رہی ہے۔ مثلا" شیخ قلندر بخش جرات کے احوال میں لکھتے ہیں:
"سودا کے نقش قدم پر چل کر آزاد نے بھی آب حیات میں جرات کے خاندان کا مذاق اڑایا ہے اور ان کے نابینا ہوجانے کے سلسلہ میں بھی لطیفہ بازی سے کام لیا ہے۔ ہمارے خیال میں کسی شاعر کی زندگی اور اس کے فن پر اس انداز سے تبصرہ کرنا انصاف کا خون کرنا ہے۔ جرات کی چوما چاٹی حقیقتا" فطری جنسی ترغیب اور اس کے لیے ایک لطیف چیز ہے۔ میر کے ہاں تو بعض جگہ ایسے مضامین بھی پائے جاتے ہیں جنہیں نرم نرم الفاظ میں غیر فطری اور بیہودہ کہا جاسکتا ہے مثلا":
دلی کے کج کلاہ لونڈوں نے
کام عشاق کا تمام کیا
جرات کے ہاں اس قسم کی مذموم شاعری کی کی کوئی مثال نہیں۔
جلیل قدوائی، سید انشاء اللہ خاں انشاء کے بارے میں لکھتے ہیں
"انشاء میاں کی علمیت، جدت طبع اور زبان دانی بلکہ ہفت زبانی کے سب قائل ہیں۔ آپ نے ٹھیٹ ہندی میں نثری داستان لکھی اور اردو زبان کے قوائد مرتب کیے مگر شاعری میں آپ کی بے اعتدالی، ناہموری اور غیرسنجیدگی بلکہ تمسخر اور عریاں نگاری کی سبھوں کو شکایت رہی۔ مصحفی سے تو خیر آپ کی باقاعدہ چوٹیں رہیں، اس لیے ان کے ع
وللہ کہ شاعر نہیں تو بھانڈ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کو معاصرانہ چشمک کا تازیانہ بھی سمجھ لیا جائے مگر میاں بیتاب کے بقول "سید انشاء کے فضل کمال کو شاعری نے کھویا اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔
"
جلیل قدوائی نے انشاء کے منتخب کردہ کلام سے یہ نمونہ سب سے پہلے پیش کیا ہے:
دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا
ہمارے قبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا
کہانی ایک سنائی جو ہیر رانجھے کی
اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
"
اتوار بازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
انتخاب شعرائے بدنام
جلیل قدوائی
ناشر: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی
اشاعت: 1965
افکار ،کراچی۔سردار جعفری نمبر
اشاعت: 1991
صفحات: 732
لل دید۔کشمیر کی معروف شاعرہ
جے لال کول
ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
اشاعت: 1985
نئی دھرتی نئے انسان
افسانے
خواجہ احمد عباس
ناشر: مکتبہ جامعہ، دہلی
اشاعت: 1977
دلی والے-حصہ اول
تذکرے
ڈاکٹر صلاح الدین
ناشر: اردو اکادمی دہلی
اشاعت: 1986
براہ راست۔سفرنامہ یورپ
بشری رحمان
ناشر: وطن دوست لمیٹڈ، لاہور
اشاعت: نومبر 1983
کرن، تتلی اور بگولےسفرنامہ
پروین عاطف
اشاعت: جنوری 1987