کتابوں کا اتوار بازار۔12 مئی، 2013-انتخابات، نیا پاکستان اور نیا قانون
خیر اندیش۔راشد اشرف۔کراچی سے
زبیر تلمیذ خلیل الرحمن نایاب سید زبیر
اتوار 12 مئی کی ایک چمکیلی صبح راقم کتابوں کے اتوار بازار کی جانب رواں دواں تھا ۔۔۔’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘ گنگناتے ہوئے۔ ۔۔ ہفتے کے روز قوم دھڑکتے دلوں کے ساتھ اپناحق رائے دہی استعمال کرنے میں مصروف رہی تھی ۔۔۔ ہمارا ’کپتان‘ ہمیں 12 مئی کی صبح ایک نئے پاکستان کے طلوع ہونے کی نوید تیقن کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ سنا چکا تھا ۔۔اس کی بات پر یقین ایسا کہ منٹو کے ’منگو کوچوان‘ کو بھی کیا رہا ہوگا۔ علی الصبح ٹی وی پر چنگھاڑتے میزبانوں کی باتیں سنی تھیں ، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یار لوگوں کے تبصروں کی بھرمار دیکھی تھی اور دو چار اخبار وں پر بھی ایک نظر ڈال چکا تھا۔ گفتنی نا گفتنی باتوں کے ا نبو ہ کثیر میں مطلب کی بات صرف ایک تھی ۔۔۔نیا پاکستان ۔۔نیا قانون۔۔۔۔! ۔۔صبح صبح ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو کہتے سنا تھا کہ’ نئی حکومت کاہنی مون عرصہ جلد ختم ہوجائے گا اور انہیں اسی عرصے کے دوران وطن عزیز کے مستقبل سے متعلق کڑے اور نئے فیصلے کرنے ہوں گے‘۔۔۔ہنی مون کے دوران نئے اور اہم فیصلے ؟ ۔۔۔رہنے دیجیے محترمہ ۔۔۔ بھلا اس دنوں کوئی کڑے فیصلے کرتا ہے ؟ یہ تو بقول شخصے وہ دن ہوتے ہیں جب انسان سوچتا ہے کہ وہ انگوٹھا چوس کر ساری زندگی بسر کرسکتا ہے۔۔۔۔ گزشتہ حکمرانوں کو اس مرتبہ لوگوں نے مسترد کردیا تھا ۔۔بقول وسعت اللہ خان’’ اس مرتبہ ان کے پاس حاضر اسٹاک میں کوئی شہید نہیں ہے جسے وہ کیش کراسکیں‘‘۔۔۔۔۔جو ہیں وہ شہید ہونے پر تیار نہ تھے۔ بی بی سی پر وسعت اللہ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ’’ اگر سابقہ حکمران جماعت کو بدلے بدلے سے پاکستان میں میں بطور وفاقی قوت خود کو برقرار رکھنا ہے تو مرثیوں اور نوحوں کی کیسٹوں کو خاندانی پوشاک میں لپیٹ کر یادوں کی الماری میں بند کرنا ہوگا۔مجاوری اور نااہلی کی لاٹھی ٹیکنے والی بوڑھی سیاست ساتھ ساتھ چلتے چلتے اب تھک چکے ہیں۔ ‘‘۔ یہ وسعت اللہ خان ہی ہیں جنہوں نے انتخابی نتائج کی نصف شب پچاسی سالہ فخرو بھائی (چیف الیکشن کمشنر)کے چہرے پر وہ اطمینان اور خوشی دیکھی جو بیٹی کی رخصتی کے بعد عموماً کوئی والد ہی محسوس کرسکتا ہے۔
احباب نے پیغامات بھیج کر الگ ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔10 مئی کو (انتخاب سے ایک روز قبل)سرشام ایک صاحب پشاور میں نئے پاکستان کے طلوع ہونے کی نوید یہ کہہ کر سنا رہے تھے کہ ’’ملک کے باقی حصوں میں رہنے والے اپنے اپنے مقامی وقت کے مطابق نیا پاکستان دیکھیں‘‘۔۔۔۔۔ جبکہ 12 مئی کی صبح ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ’’مبارک ہو پاکستانیوں ! پرانا پاکستان ہی رئپیر ہوگیا ۔ نیا بہت مہنگا تھا‘‘۔ راقم نے ان کی اس بات پر دھیان نہ دیا تھا کہ سعادت حسن منٹو کے یادگار افسانے ’’نیا قانون‘‘ کے مرکزی کردار منگو کوچوان نے اس کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔۔۔وہ منگو کوچوان جو غیر منقسم ہندوستان میں ’انڈیا ایکٹ ‘ کے نفاذ کی خبر پر یہ طے کر بیٹھا تھا کہ پہلی اپریل سے سب کچھ بدل جائے گا۔ظلم و استحصال کا خاتمہ ہوگا اور ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔
رستہ سنسان پایا، سڑکیں ویران ۔۔۔کیا واقعی تبدیلی آچکی ہے ؟ ۔۔۔قوم نے انتخابی نتائج کے دیکھنے کے لیے رت جگا کیا تھا۔۔سویرے جو سوئے ہوں گے تو اب شام ہی کی خبر لائیں گے۔ انہی سوچوں میں غلطاں منزل کی جانب سفر جاری تھا کہ قائد اعظم کے مزار کے عقب میں صدر کو جانے والی سڑک کے کنارے چند پولیس والوں پر نظر پڑی ۔۔۔۔یہ یہاں کیا کررہے ہیں ؟ اور ان کی ہمت کیسے ہوئی کہ تڑکے لوگوں کو پریشان کرنے یہاں آن کھڑے ہوئے ہیں ؟۔۔۔ پولیس والوں نے چند موٹر سائیکل سواروں کو روکا ہوا تھا ۔۔راقم نے ایک نوجوان کی جیب سے سرخ نوٹ طلوع ہوتا دیکھا جو ایک پولیس والے کی جیب میں غروب ہوا۔ ۔۔اس ایک منظر نے ساری غلط فہمی دور کردی۔ ۔۔پاکستان تو وہی پرانا ہے۔۔۔ راقم نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اپنے تئیں ’’نیا قانون ‘‘کے اختتام کا حصہ بننے سے بچ گیا جب منگو کوچوان نے ایک گورے ٹامی کو یہ کہتے ہوئے پیٹنا شروع کردیا تھا ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔۔۔پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔۔۔اب ہمارا راج ہے بچہ۔۔وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔اب نیا قانون ہے میاں۔۔۔نیا قانون۔۔۔۔۔ ‘‘۔۔۔اس مار پیٹ کا منگو کے حق میں وہی نتیجہ نکلا تھا جو نکلنا چاہیے تھا۔۔۔ جو کسی ایسے پرندے کا ہوتا ہے جو اپنے زور میں کسی چٹان سے ٹکرا جائے۔۔۔۔ چٹان پر لہو کا نشان بہرحال رہ جاتا ہے۔۔۔۔
راقم خود کو خوابوں کی دنیا سے نکال کر اتوار بازار پہنچا تو وہاں میدان صاف تھا۔۔۔کتب فروش گزشتہ دو اتواروں کی ہڑتالوں سے ادھ موئے ہو کر آج وقت سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے لیکن گاہک ؟ ۔۔۔۔ یہ جنس تو اس روز نایاب تھی ۔۔۔راقم کی کیفیت کچھ ویسی ہی تھی جیسے کسی کو کہا جائے کہ تمہارا انعام نکلا ہے اور تمہارے پاس پندرہ منٹ ہیں ۔۔۔ اس دکان میں سے جو چاہو اٹھا لو۔۔۔۔ سو ایک کتب فروش کو دیکھا کہ گاہکوں کے انتظار میں لب سڑک بچھے پلاسٹک کے بڑے سے ٹکڑے پر کتابیں پھینکتا جاتا تھا اور ’تیس تیس روپے میں ۔۔۔تیس تیس روپے میں‘کی آوازیں لگاتا جاتا تھا۔ ایک کتاب پر نظر پڑی تو بے اختیار اسے اٹھا لیا۔ پھر چند مزید۔۔۔اور پھر ایک چکر لگا کر کچھ اور ’مال غنیمت‘ سمیٹا ۔۔۔۔
کھلا اک عمر میں، کار ہوس میں کچھ نہیں رکھا
پھر اس کے بعد میں نے دسترس میں کچھ نہیں رکھا
کتابوں کی ہمہ وقت رہتی طلب میں یہ شعر اتوار بازار کے پھیروں پر بھلا کب صادق آتا ہے ؟
ابتدا ہوئی تیس روپے میں ملی اس کتاب سے ہوئی جس کا نام ہے ’’ شاہان بے تاج‘‘ اور اس کی مصنفہ ہیں وحیدہ نسیم۔ اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں 9 ستمبر 1927 کو پیدا ہوئی تھیں ، ترک وطن کیا اور کراچی میں پڑاؤ ڈالا۔ درس تدریس کے پیشے سے منسلک رہیں اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئیں ۔ وحیدہ نسیم 1982 میں اورنگ آباد گئی تھیں، اس کے بعد 83ء اور 85ء میں دو مرتبہ مزید جانا ہوا۔ اسی دوران انہوں نے اسی گرد و نواح میں واقع دیگر مزارات کو بھی چھان مارا تھا اور ساتھ ہی ساتھ شمالی ہند کے اکثر مقامات کی سیر بھی کی لیکن ان کا دل اورنگ آباد ہی میں اٹکا رہا۔ایک جگہ لکھتی ہیں ’’ 1983 ء میں دورہ ہندوستان میں ،میں والدہ صاحبہ کی نصیحت کے مطابق اپنے ننھیال کاکوری بھی گئی جہاں قلندریہ سلسلے کے بہت بڑے بزرگ حضرت کاظم شاہ کا مزار ہے۔ وہاں میری بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ سجادہ نشینوں نے شفقت سے نوازا ۔پھر اس کے بعد فرنگی محل گئی جہاں میرے دودھیال کی ایک شاخ آباد ہے۔پھر ’بانسہ‘ گئی جہاں عبدالرزاق صاحب ہانسوی کا آستانہ ہے اور وہاں میر ی سگی پھوپھی کے پوتے سجادہ نشین ہیں۔میں اس سفر میں کہاں کہاں پہنچی، کن کن آستانوں پر حاضری دی، نہ پوچھیے۔ ہر جگہ بزرگوں کا جلال اور ہیبت تھی یا پھر مقبروں کی ویرانی۔ ، میرا دل کہیں نہ لگا، مجھے اس یگانگت ،رحمت اور سکون کا احساس نہ ہوا جو خلد آباد میں تھا۔ کچھ درگاہیں بستی سے اتنی ملحق تھیں کہ وہاں ایک لمحہ بھی خاموشی نہ تھی اور کچھ آستانے اتنے ویران تھے کہ وہاں بیٹھ کر وحشت سی ہوتی تھی۔آخر خلد آباد کی درگاہوں میں کیا خاص بات ہے ؟میں جوں جوں غور کرتی گئی ، میرے ذہن میں یہ یہ بات پختہ ہوتی گئی کہ خلد آباد اور دولت آباد کے علاوہ کہیں کی درگاہیں نہ اتنی بلندی اور اتنے پر فضا مقامات پر بنی ہیں اور نہ کسی کے ساتھ اتنے وسیع اور کشادہ صحن ہیں جو ہزاروں انسانوں کو اپنے دامن میں چھپا لیں۔
‘‘
۸۵ء میں دوران قیام وحیدہ نسیم ہر جمعے کو خلد آباد چلی جاتی تھیں اور حضرت برہان الدین غریب کی درگاہ کے سامنے سر تسلیم خم کیے بیٹھی رہتی تھیں۔ ایک جمعے کے روز ایسا ہوا کہ درگاہ کے سجادہ نشین نے ان کی دستار بندی کرڈالی اور مشاعرے کا انعقاد بھی کیا۔ وحیدہ نسیم نے ’’خلد آباد شریف‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی جو بعد ازاں ’اورنگ آباد ٹائمز‘ میں شائع ہوئی۔کچھ وقت گزرا کہ کیلیفورنیا کے کارل ۔ڈیبلو۔ ارنسٹ مسلم تہذیب اور ثقافت پر تحقیق کی عرض سے اورنگ آباد پہنچے جہاں انہوں نے وحیدہ نسیم کی ’’خلد آباد شریف‘‘ کو وہاں کے لوگوں کو پڑھتے سنا، تحقیق کے آدمی تھے سو تجسس نے انہیں وحیدہ نسیم تک جا پہنچایا۔ ایک مکتوب کے ذریعے انہوں نے وحیدہ نسیم سے رابطہ کیا۔خاتون کراچی واپس جا چکی تھیں۔ مسٹر ارنسٹ کا مکتوب پڑھ کر وحیدہ نسیم کا سر ندامت سے جھک گیا اور بقول ان کے ’’جب ان بزرگوں سے میری پرانی عقیدت میں ندامت شامل ہوگئی تو میں نے ان کے حالات تاریخ کی روشنی میں مرتب کرنے کی ٹھانی‘‘۔ ۔۔۔ اور اس طرح وحیدہ نسیم نے ’ شاہان بے تاج‘ کی داغ بیل ڈالی۔ مذکورہ کتاب میں اورنگ آباد کے جن بزرگان دین کا احوال محفوظ کیا گیا ہے ان میں شامل ہیں مخدوم شاہ نظام الدین، خوا جہ حسین و خواجہ عمر، مومن عارف، پیر مردان الدین، جلال الدین گنج رواں، شاہ خاکسار، شیخ بہاء الدین انصاری، امیر حسن علاء سنجری، بی بی عائشہ دختر بابا فرید شکر گنج، منتجب الدین زر زری زر بخش، فرید الدین ادیب، فخر الدین عراقی، راجو اتعتال حسینی، ملک عنبر، برہان الدین غریب، زین الدین دادو شیرازی، شمس الدین فضل اللہ، تاج محمد لشکری، شاہ نور حموی، نظام الدین مقبول الہی، پلنگ پوش صاحب اور شاہ مسافر۔ ۔۔۔
اورنگ آباد کی سرزمین پر بزرگان دین کی کثیر تعداد کا ذکر کرتے ہوئے وحیدہ نسیم نے اپنے لڑکپن کا واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہاں دہلی سے ایک بزرگ تشریف لائے جو صاحب کشف تھے۔ وہ اپنی سیاحت کے دوران جہاں جاتے،بذریعہ کشف معلوم کرلیتے کہ یہاں بزرگان دین کتنی تعداد میں ہیں۔وہ بزرگ جب دولت آباد سے گزر کر خلد آباد پہنچے تو وہاں بھی کشف کیا اور اس کے بعد اپنے جوتے اتار کر پیدل اورنگ آباد پہنچے تھے۔ جب تک مقیم رہے، جوتے نہیںپہنے اور بقول رضا نواز جنگ ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں نے جب دولت آباد پہنچ کر کشف القبور کا عمل کیا تو معلوم ہوا کہ خلد آباد کی پہاڑیوں سے لے کر اورنگ آباد کی بستی تک ساری زمین پر ستارے ہی ستارے بکھرے ہوئے ہیں۔میں نے کسی مقام پر اتنی تعدادمیں ولیوں اور بزرگوں کی روحیں نہیں دیکھی تھیں۔
‘‘
وحیدہ نسیم کا خاندان ابتدا ہی سے تصوف کی جانب مائل تھا۔ کتاب میں ’حضرت خواجہ منتخب الدین زر زری زربخش ‘ کے باب میں بیان کرتی ہیں ’’ محیر العقول واقعات کا جہاں تک تعلق ہے اس میں سنی سنائی باتیں زیادہ ہیں ۔البتہ اس بارگاہ کا ایک واقعہ میرے اور میرے گھرانے کے سامنے گزرا ہے۔ وہ یہ ہے کہ 1935 ء کی بات ہے کہ میری بڑی بہن کی شادی تھی۔ اقارب اور عزیز لکھنو، بارہ بنکی سے آئے ہوئے تھے ۔دو تین ہفتے خاصی چہل پہل تھی۔ اس دوران عمی جان (مصنفہ کی تائی)نے ان سب کو بڑی سی گاڑی میں بٹھایا اور دولت آباد اور خلد آباد کے مزاروں کی زیارت کے لیے چل پڑیں۔ یہ لوگ جب حضرت خواجہ منتخب الدین زر زری زربخش کے مزار پر پہنچے تو ان میں سے ایک خاتون نے ، جو رشتے میں میری چچی لگتی تھیں ،’ زر زری زر بخش‘ کے الفاظ بار بار دوہرانا شروع کردیے اور پھر ازراہ مذاق ہنس کر بولیں کہ کیا ان کے دربار سے سب کو سونا ملتا ہے ؟ ہمیں سونا ملے تو جانیں۔عمی جان نے ،جو ان کی بزرگ تھیں، ان کو تنبیہہ کی اور فاتحہ خوانی کے لیے چوکھٹ پر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے اور جب ہاتھوں کو منہ پر پھیرا تو چھن سے آواز آئی۔ہم لوگ سب اس آواز پر متوجہ ہوئے۔ان کے سامنے سونے کی ایک چھوٹی سی گول پتری پڑی ہوئی تھی جس کو انہوں نے فورا ً اٹھا لیا۔ ہم سب نے ہاتھ میں لے کر دیکھا۔پھر کیا تھا، وہ اسی چوکھٹ کے پاس بیٹھ کر زار و قطار رونے لگیں۔یہ آنسو سچی عقیدت کے تھے۔ زر زری زر بخش نے ان کو ’زر ‘بخش دیا تھا ۔انہوں نے وہ سونا سنبھال کر رکھا اور دونوں تادم مرگ کسی کے محتاج نہ ہوئے۔اگر یہ واقعہ میرا چشم دید نہ ہوتا اور اب تک میرے گھر والوں کو یاد نہ ہوتا تو میں ضبط تحریر میں نہ لاتی۔‘‘
’ شاہان بے تاج‘ کے آخری اوراق میں 20 اپریل 1988 کو لکھے ایک پیغام میں مصنفہ نے قارئین سے درخواست کی ہے کہ ’’خلد آباد ، دولت آباد اور اورنگ آباد کی سرزمین بزرگان دین سے بھری پڑی ہے ۔میں وہاں کی اکثر درگاہوں میں گئی ہوں۔ بزرگوں کے نام جانتی ہوں لیکن کوشش کے باوجود ان کے حالات نہ مل سکے۔ اس لیے پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ ان کے پاس قیمتی معلومات ہوں تو مجھے ارسال کریں تا کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کو شامل کرلوں۔‘‘ ۔۔۔۔
مذکورہ کتاب کے مطالعے کے بعد بے اختیار و حیدہ نسیم کے بارے میں جاننے کی خواہش ہوئی۔ کتاب کے پس ورق ان کے تحریر کردہ نو ناولوں کے نام، تین افسانوی مجموعوں اور دو شاعری کی کتابوں کے نام درج ہیں۔ یہ علم بھی ہوا کہ انہوں نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ’’ مکتبہ آصفیہ‘‘ کے نام سے اپنا ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا جہاں سے شائع ہونے والی پہلی کتاب ’ شاہان بے تاج‘ ہی تھی۔ ۔۔لیکن پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے۔وحیدہ نسیم کا پتہ ملا تو ’’وفیات اہل قلم‘‘ ہی میں ملا ۔وفیات سے علم ہوا کہ ان کی اسی موضوع پر مزید ایک کتاب بھی شائع ہوا تھی جس کا نام ’’ اورنگ آباد۔ملک عنبر سے عالمگیر تک‘‘ تھا۔ وحیدہ نسیم 27 اکتوبر 1996 کو کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
تخلیقی ادب۔شمارہ نمبر پانچ
مدیر: مشفق خواجہ
صفحات 450:
سن اشاعت1985
تخلیقی ادب کے عنوان سے مشفق خواجہ نے محض 5 ضخیم شمارے ہی شائع کیے تھے۔ متذکرہ شمارے سے دیگر مضامین و خاکوں کے علاوہ سحاب قزلباش کا ابن انشاء پر یادگار خاکہ بھی زیر نظر احوال کی ابتدا میں دیے گئے لنک میں شامل کیا گیا ہے۔