راشد اشرف
محفلین
تیئس مارچ کی ایک چمکیلی صبح شہر کراچی خدشات میں گھرا ہوا۔کہیں جلسہ، کہیں جلوس ، جان کا خوف اس پر مستزاد۔ لیکن اسی برس کے قاضی ِشہر کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں پائے گئے۔ وہ صرف ایک ہی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں ، وہ یہ کہ نئی شادی کب ،کہاں اور کیسے کی جائے۔۔۔۔۔ع
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں ’دھی‘ دا ’ ور‘ پیدا (روح ِاقبال سے معذرت کے ساتھ-خدا جانے ہمیں اور کتنی مرتبہ روح اقبال سے معذرتیں طلب کرنی پڑیں گی )
لیکن صاحبو! ور توکب کا پیدا ہوچکا اور اس خدمت کے لیے ہمہ وقت دستیاب بھی رہتا ہے۔ لاشیں گرتی رہیں ، گودیں اجڑتی رہیں ، صحرا تھر کے معصوم بچے بھوک سے دم توڑتے رہیں۔۔۔۔اسے کب پروا ہے ۔۔۔۔کون سنتا ہے فغان درویش۔ بقول داغ ۔۔۔
ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
علی الصبح سات بجے ہی اتوار بازار کی جانب جانے والے رستے بند کیے جارہے تھے۔ راقم کسی طور وہاں پہنچا تو اسی فیصد کتب فروشوں کو موجود پایا۔ ایک بزرگ پٹھان کتب فروش ایک ایسی کتاب لیے بیٹھے تھے کہ جی خوش ہوگیا۔ سید یوسف بخاری دہلوی اس کے مصنف ہیں۔ ۔۔۔ع
حسن کے روبرو مجال کہاں
میں کہاں اور عرضِ حال کہاں
اس شعر کے خالق بخاری صاحب ہی ہیں۔ ذکر ان کی کتاب کا ہے جس کا نام ہے ”یہ دلی ہے“۔ پہلا نسخہ 1942 میں دلی کے جمال پریس سے شائع ہوا جبکہ دوسرا 1963 میں کراچی کے ناشر ایچ ایم سعید کمپنی نے شائع کیا۔ بزرگ پٹھان کتب فروش نے اتوار بازار میں اپنے مستقر کے سامنے موجود کوڑے کے ڈھیر کو ایک جانب سمیٹ کر آگ لگائی ہوئی تھی۔ ہم نے کھانستے ہوئے سوال کیا ” خاں صاحب! ھغہ حہ چی دی بیی دی کتاب ؟
کھانسی میں گندھی اس قماش کی پشتو سن کر خاں صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، ہمارے ساتھ وہ بھی کھانس رہے تھے اور اسی کیفیت میں انہوں نے پچاس روپے کا مطالبہ کردیا۔ صرف پچاس روپے یہ دلی ہے جیسی کتاب کے ؟ جو لگ بھگ چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو بغل میں داب وہاں سے کھسکنے کی فکر کی مبادا ان کا ارادہ نہ تبدیل ہوجائے۔
یوسف بخاری دہلوی10 جنوری 1907کو دلی میں پیدا ہوئے۔ اور یکم اگست 1991 کو کراچی میں انتقال کیا۔ بخاری مرحوم کے خاکوں کی یادگار کتاب ”یاران رفتہ“ مشفق خواجہ مرحوم کے آنجہانی ادارے اسلوب سے شائع ہوئی تھی۔ مرقع اقوال و امثال، موتی،دامن یوسف، بازگشت وغیرہ ان کی دیگر کتابوں کے نام ہیں۔
”یہ دلی ہے“ میں یوسف بخاری دلی کی گلیاں، دلی کی شادی، دلی کے شہدے، دلی کے کرخندار، دلی کی عید، دلی کی شطرنج، دلی کی پتنگ بازی جیسے ابواب سے کتاب کو سجایا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کا پیش لفظ تحریر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ:
”
یہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے۔ دلچسپی کے علاوہ اس میں بہت سی کام کی باتیں بھی ہیں۔ آپ اس میں بہت سے نئے لفظ، نئے محاورے اور نئی معلومات پائیں گے۔ سید یوسف بخاری صاحب کا طرز بیان دلکش ہے اوراس کے ساتھ شوخی و ظرافت کا بھی چٹخارہ ہے۔ زبان سادہ، شگفتہ اور دلی کی زبان ہے۔
“
مولوی عبدالحق نے یہ دلی ہے کا مسودہ پڑھنے کے بعد کہا تھا کہ ایسے مضمون وہی لکھ سکتا ہے جو بقول میر امن دلی کا روڑا ہو۔
”
یہ دلی ہے “ دراصل متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ دلی کے شہدے اور دلی کی پتنگ بازی کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین آل انڈیا ریڈیو، دلی سے تقاریر یا فیچر کی شکل میں نشر ہوتے رہے تھے۔ یوسف بخاری نے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ حرف اول کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ اس وقت ان کا پتہ گلی امام صاحب، اردو بازار ،جامع مسجد دلی درج تھا۔ جبکہ 1963 میں کراچی سے شائع ہوئے دوسرے ایڈیشن پر پتہ تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ دلی کو خیر باد کہہ چکے تھے اور ناظم آباد کراچی میں ”بیت یوسف بخاری“ میں قیام پذیر تھے۔ یہ ان کی اقامت گاہ کا نام تھا۔ دوسرے ایڈیشن کے حرف ثانی میں اپنی اقامت گاہ سے متعلق ایک شعر میں لکھتے ہیں:
بخارا رہا اب نہ دلی ہماری
کراچی میں ہے بیت یوسف بخاری
یوسف بخاری مرحوم کو دلی سے ملاقات کی کیسی ہڑک اٹھتی تھی، کیسے بے چین ہو ہو جایا کرتے تھے، اس کا اندازہ ان سطور سے ہوتا ہے:
” مجھ کو ایک بار، کم از کم ایک بار اس خاک پاک پر لے جائے تاکہ میں اس خانہ خدا جامع مسجد کی وہ ازاں سن آو ں جس کی صدا کعبے تک پہنچتی ہے۔ جمنا سے آب حیات سے دو گھونٹ پی لوں۔ دلی کے اوراق مصور کوچہ و بازار میں گھوم آو ¿ں ، گلی امام میں اپنے مولد و مسکن کو دیکھ آو ¿ں۔دلی تیری کوکھ ٹھنڈی رہے۔دلی! تیری گود بھری رہے۔ “
ایک جگہ یوسف بخاری لکھتے ہیں :
” سچ پوچھیے تو دلی میر اور غالب کے سامنے ہی مرحوم ہوچکی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں نے جس دلی کو دیکھا وہ میر و غالب کے زمانے کی دلی کا صرف ایک نقش موہوم تھا اور کچھ نہ تھا۔ہم جو اس کے پس ماندگان کہلائے، اس جنت نشان دلی کے محض سوگوار اور پرستار تھے۔دلی کے چند بچے کھچے بوڑھوں اور قدیم آثاروں کو دیکھ کر جو باقی رہ گئے تھے ،اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلیا کرتے تھے۔ “
” یہ دلی ہے “ مکمل کتاب اسکین کرلی گئی ہے اور احباب کے لیے پیش خدمت ہے:
-------xxxx---------
پس نوشت:
پاکستان ٹیلی وژن کی اداکارہ عظمی گیلانی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب "جو ہم پہ گزری" ڈیرہ اسمعیل خان سے شائع ہوئی ہے۔ مذکورہ کتاب بھی اتوار بازار ہی کے احوال میں شامل کی جارہی ہے۔ قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ کراچی میں واقع ایک کتابوں کی دکان پر کام کرنے والے ایک شخص نے، جو اتوار بازار میں تڑکے آتا ہے، باتوں باتوں میں ہمیں بتا بیٹھا کہ اس کے پاس مذکورہ کتاب کا ایک نسخہ ہے، سو کتاب خریدی گئی جس کا سرورق منسلک کیا جارہا ہے۔
اتوار بازار سے ملنے والی دیگر کتب کا تعارف اس طرح سے ہے:
بے اصلاح-
جوگندر پال-
تخلیق کار پبلیکیشنز دہلی-1998
یہ دلی ہے-سید یوسف بخاری دہلوی-ایچ ایم سعید کمپنی کراچی-1963 (طبع دوم)
گلہائے خنداں
مشاہیر ادب کے تذکرے
محمد ذکی الدہلوی-ایوان علم و ادب کراچی-1993
سفرنامے-حج و زیارات
مفتی احمد یار خان نعیمی
اشاعت: 1988، لاہور
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں ’دھی‘ دا ’ ور‘ پیدا (روح ِاقبال سے معذرت کے ساتھ-خدا جانے ہمیں اور کتنی مرتبہ روح اقبال سے معذرتیں طلب کرنی پڑیں گی )
لیکن صاحبو! ور توکب کا پیدا ہوچکا اور اس خدمت کے لیے ہمہ وقت دستیاب بھی رہتا ہے۔ لاشیں گرتی رہیں ، گودیں اجڑتی رہیں ، صحرا تھر کے معصوم بچے بھوک سے دم توڑتے رہیں۔۔۔۔اسے کب پروا ہے ۔۔۔۔کون سنتا ہے فغان درویش۔ بقول داغ ۔۔۔
ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
علی الصبح سات بجے ہی اتوار بازار کی جانب جانے والے رستے بند کیے جارہے تھے۔ راقم کسی طور وہاں پہنچا تو اسی فیصد کتب فروشوں کو موجود پایا۔ ایک بزرگ پٹھان کتب فروش ایک ایسی کتاب لیے بیٹھے تھے کہ جی خوش ہوگیا۔ سید یوسف بخاری دہلوی اس کے مصنف ہیں۔ ۔۔۔ع
حسن کے روبرو مجال کہاں
میں کہاں اور عرضِ حال کہاں
اس شعر کے خالق بخاری صاحب ہی ہیں۔ ذکر ان کی کتاب کا ہے جس کا نام ہے ”یہ دلی ہے“۔ پہلا نسخہ 1942 میں دلی کے جمال پریس سے شائع ہوا جبکہ دوسرا 1963 میں کراچی کے ناشر ایچ ایم سعید کمپنی نے شائع کیا۔ بزرگ پٹھان کتب فروش نے اتوار بازار میں اپنے مستقر کے سامنے موجود کوڑے کے ڈھیر کو ایک جانب سمیٹ کر آگ لگائی ہوئی تھی۔ ہم نے کھانستے ہوئے سوال کیا ” خاں صاحب! ھغہ حہ چی دی بیی دی کتاب ؟
کھانسی میں گندھی اس قماش کی پشتو سن کر خاں صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، ہمارے ساتھ وہ بھی کھانس رہے تھے اور اسی کیفیت میں انہوں نے پچاس روپے کا مطالبہ کردیا۔ صرف پچاس روپے یہ دلی ہے جیسی کتاب کے ؟ جو لگ بھگ چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو بغل میں داب وہاں سے کھسکنے کی فکر کی مبادا ان کا ارادہ نہ تبدیل ہوجائے۔
یوسف بخاری دہلوی10 جنوری 1907کو دلی میں پیدا ہوئے۔ اور یکم اگست 1991 کو کراچی میں انتقال کیا۔ بخاری مرحوم کے خاکوں کی یادگار کتاب ”یاران رفتہ“ مشفق خواجہ مرحوم کے آنجہانی ادارے اسلوب سے شائع ہوئی تھی۔ مرقع اقوال و امثال، موتی،دامن یوسف، بازگشت وغیرہ ان کی دیگر کتابوں کے نام ہیں۔
”یہ دلی ہے“ میں یوسف بخاری دلی کی گلیاں، دلی کی شادی، دلی کے شہدے، دلی کے کرخندار، دلی کی عید، دلی کی شطرنج، دلی کی پتنگ بازی جیسے ابواب سے کتاب کو سجایا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کا پیش لفظ تحریر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ:
”
یہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے۔ دلچسپی کے علاوہ اس میں بہت سی کام کی باتیں بھی ہیں۔ آپ اس میں بہت سے نئے لفظ، نئے محاورے اور نئی معلومات پائیں گے۔ سید یوسف بخاری صاحب کا طرز بیان دلکش ہے اوراس کے ساتھ شوخی و ظرافت کا بھی چٹخارہ ہے۔ زبان سادہ، شگفتہ اور دلی کی زبان ہے۔
“
مولوی عبدالحق نے یہ دلی ہے کا مسودہ پڑھنے کے بعد کہا تھا کہ ایسے مضمون وہی لکھ سکتا ہے جو بقول میر امن دلی کا روڑا ہو۔
”
یہ دلی ہے “ دراصل متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ دلی کے شہدے اور دلی کی پتنگ بازی کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین آل انڈیا ریڈیو، دلی سے تقاریر یا فیچر کی شکل میں نشر ہوتے رہے تھے۔ یوسف بخاری نے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ حرف اول کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ اس وقت ان کا پتہ گلی امام صاحب، اردو بازار ،جامع مسجد دلی درج تھا۔ جبکہ 1963 میں کراچی سے شائع ہوئے دوسرے ایڈیشن پر پتہ تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ دلی کو خیر باد کہہ چکے تھے اور ناظم آباد کراچی میں ”بیت یوسف بخاری“ میں قیام پذیر تھے۔ یہ ان کی اقامت گاہ کا نام تھا۔ دوسرے ایڈیشن کے حرف ثانی میں اپنی اقامت گاہ سے متعلق ایک شعر میں لکھتے ہیں:
بخارا رہا اب نہ دلی ہماری
کراچی میں ہے بیت یوسف بخاری
یوسف بخاری مرحوم کو دلی سے ملاقات کی کیسی ہڑک اٹھتی تھی، کیسے بے چین ہو ہو جایا کرتے تھے، اس کا اندازہ ان سطور سے ہوتا ہے:
” مجھ کو ایک بار، کم از کم ایک بار اس خاک پاک پر لے جائے تاکہ میں اس خانہ خدا جامع مسجد کی وہ ازاں سن آو ں جس کی صدا کعبے تک پہنچتی ہے۔ جمنا سے آب حیات سے دو گھونٹ پی لوں۔ دلی کے اوراق مصور کوچہ و بازار میں گھوم آو ¿ں ، گلی امام میں اپنے مولد و مسکن کو دیکھ آو ¿ں۔دلی تیری کوکھ ٹھنڈی رہے۔دلی! تیری گود بھری رہے۔ “
ایک جگہ یوسف بخاری لکھتے ہیں :
” سچ پوچھیے تو دلی میر اور غالب کے سامنے ہی مرحوم ہوچکی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں نے جس دلی کو دیکھا وہ میر و غالب کے زمانے کی دلی کا صرف ایک نقش موہوم تھا اور کچھ نہ تھا۔ہم جو اس کے پس ماندگان کہلائے، اس جنت نشان دلی کے محض سوگوار اور پرستار تھے۔دلی کے چند بچے کھچے بوڑھوں اور قدیم آثاروں کو دیکھ کر جو باقی رہ گئے تھے ،اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلیا کرتے تھے۔ “
” یہ دلی ہے “ مکمل کتاب اسکین کرلی گئی ہے اور احباب کے لیے پیش خدمت ہے:
-------xxxx---------
پس نوشت:
پاکستان ٹیلی وژن کی اداکارہ عظمی گیلانی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب "جو ہم پہ گزری" ڈیرہ اسمعیل خان سے شائع ہوئی ہے۔ مذکورہ کتاب بھی اتوار بازار ہی کے احوال میں شامل کی جارہی ہے۔ قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ کراچی میں واقع ایک کتابوں کی دکان پر کام کرنے والے ایک شخص نے، جو اتوار بازار میں تڑکے آتا ہے، باتوں باتوں میں ہمیں بتا بیٹھا کہ اس کے پاس مذکورہ کتاب کا ایک نسخہ ہے، سو کتاب خریدی گئی جس کا سرورق منسلک کیا جارہا ہے۔
اتوار بازار سے ملنے والی دیگر کتب کا تعارف اس طرح سے ہے:
بے اصلاح-
جوگندر پال-
تخلیق کار پبلیکیشنز دہلی-1998
یہ دلی ہے-سید یوسف بخاری دہلوی-ایچ ایم سعید کمپنی کراچی-1963 (طبع دوم)
گلہائے خنداں
مشاہیر ادب کے تذکرے
محمد ذکی الدہلوی-ایوان علم و ادب کراچی-1993
سفرنامے-حج و زیارات
مفتی احمد یار خان نعیمی
اشاعت: 1988، لاہور