راشد اشرف
محفلین
پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی-9مارچ 2014
ہمارے پسندیدہ اداکار و مصنف کمال احمد رضوی صاحب نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامنے الف نون کا ایک کھیل ”کتب فروشی میں“ کے عنوان سے بھی تحریر کیا تھا۔ ایک مرتبہ جب راقم کمال صاحب کو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی دستخط شدہ خود نوشت’ ’یادوں کا جشن“ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے وہ پرانی کتب کے ٹھکانے سے اتفاقا ً مل گئی اور کیا کیا خزانے وہاں فروخت کے لیے آتے ہیں تو انہوںنے مجھے الف نون کے ایک ایسے پروگرام کے بارے میں بتایا جس کا ذکر میں نے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ اس ڈرامے کا عنوان ’کتب فروشی میں‘ تھا۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ اس میں الن ایک گاہک کو جارج برنارڈ شا کی کتاب یہ کہہ کر بیچ دیتا ہے کہ یہ کتاب برنارڈ شا نے سمرسٹ ماہم کو تحفتا پیش کی تھی اور اس پر لکھا تھا ’سمرسٹ ماہم کے لیے جی بی شا کی طرف سے‘۔ الن اسی کتاب کی پانچ کاپیاں ’ اگین گفٹڈٹو سمرسٹ فرام جی بی شا‘ لکھ کر فروخت کردیتا ہے۔ اسے طرح وہ ایک گاہک کو چند جعلی قلمی نسخے فروخت کرتا ہے اور گاہک کے یہ پوچھنے پر کہ کیا غالب کا کوئی قلمی نسخہ ہے، ننھا جوابا ًکہتا ہے کہ آپ پرسوں صبح آجائیں، گاہک سوال کرتا ہے کہ کل کیوں نہیں تو ننھا کہتا ہے کہ کل رات تو یہ (الن ) بیٹھ کروہ قلمی نسخہ لکھے گا۔
کراچی کے اتوار بازار میں اس مرتبہ کہنے کو تو کئی کتابیں منتظر تھیں لیکن کتابی دنیا لکھنو سے 1964 میں شائع ہوئی کتاب سب پر بازی لے گئی۔
نام کتاب: انتخابِ اودھ پنچ
اس کے مرتب رضی کاظمی ہیں۔ بطور ناشر، اظہر نگرامی کا نام کندہ ہے۔ جبکہ اس کے پرنٹر تنویر برقی پریس، لکھنو ہیں۔ ناشر کا فون نمبر 26335 درج ہے۔
کتاب ہاتھ میں تھام کر سوچا کہ یقیناًیہ تمام لوگ اب خواب و خیال ہوچکے ہوں گے۔
اشاعت کے وقت اس کے لائبریری ایڈیشن کی قیمت دو روپے تھی لیکن پورے پچاس برس بعد کتب فروش نے اسے سو روپے پاکستانی میں ہمارے حوالے کیا۔ لیکن کیا سو روپے میں یہ کتاب مہنگی ہے ؟ یقینا نہیں۔ اتوار ہی کے روز دوپہر کے وقت جب فیس بک پر کتابوں کا تعارف پیش کیا تو میرے دوست محبوب خاں صاحب مقیم لکھنو کاانگریزی
اور رومن میں ملا جلا یہ تبصرہ موصول ہوا۔ فرماتے ہیں:
کتابی دنیا، ایک ادارہ، ایک بک اسٹال لکھنو کے امین آباد میں۔ معیاری کتابوں کے پبلشر۔افسوس اب بند ہوگیا۔ جہاں علم کی شمع روشن تھی، اب چپلوں کی دکان ہے۔
Another prestigious publishing house, naseem book depot of naseem anhonavi , published a series of urdu translations of world fame detective novels by mazhar ul haq alvi, closed down. Recently alvi sahab died at allahabad.
محبوب خاں صاحب کتابوں کی دکان کی جگہ چپلوں کی دکان کھلنے پر ملول ہیں۔مگر ہماری طرف کا حال کون سا اچھا ہے۔ شہر کراچی کے پرانے باسی بتاتے ہیں کہ زیادہ تر کتب فروش اپنی دکان بڑھا چکے ہیں۔ جو باقی بچے ہیں، غنیمت ہیں۔کراچی کی معروف جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے ذرا سا آگے کی جانب واقع شیخ غلام علی اینڈ سنز کی قدیم دکان میں اب سوائے گرد و غبار کے، اور کچھ نہیں۔ ادارے سے شائع ہوئی چند پرانی کتابیں ضرور موجود ہیں لیکن ان کی حالت ایسی ہے کہ پہلے گرد ہٹائیے ،بہت سی گرد پھانکیے اور پھر ان کے عنوانات دیکھیے۔ اندازہ یہی ہے کہ جلد ہی یہاں بھی کوئی ”چکن تکہ کارنر“ کھل جائے گا۔ یا پھر چکن کا کپڑا فروخت ہورہا ہوگا۔
ذکر ہے ” انتخابِ اودھ پنچ “کارضی کاظمی نے اودھ پنچ کے لیے جن لکھنے والوں کی تحریروں کا انتخاب کیا ہے ان میں شامل ہیں سجاد حسین، نواب سید محمد آزاد، نواب سید محمد آزاد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، اکبر الہ آبادی، پنڈت تربھون ناتھ ہجر، احمد علی شوق، مچھو بیگ ستم ظریف، منشی جوالا پرشاد برق، عبدالغفور شہباز اور سید ممتاز حسین عثمانی۔
منشی سجاد حسین نے 1877 میںاپنے دوست ڈپٹی کلکٹر منشی محفوظ علی کے مشورے سے اودھ پنچ کی داغ بیل ڈالی تھی۔اس سے قبل سجاد حسین، فیض آباد میں انگریزی فوج کو اردو پڑھانے پر مامور تھے۔ نوکری چھوڑی اور اودھ پنچ کے ہو کر رہ گئے۔ 1912 میں اودھ پنچ بند ہوگیا اور سجاد حسین 22 جنوری 1915کو منشی سجاد حسین راہی ملک عدم ہوئے۔ ” انتخابِ اودھ پنچ “ میں اس کے مرتب نے منشی سجاد حسین کی کئی تحریریں شامل کی ہیں۔
اس کے بعد آتے ہیں نواب سید محمد سجاد ۔ذرا نمونہ تحریر تو ملاحظہ ہو۔ ”نئے سال کی نئی روشنی کی ڈکشنری “ نامی مضمون میں چند الفاظ کے معنی یوں بیان کرتے ہیں
شکریہ:
”وہ پائی
[pie]
جس کے اندر صرف ہوا ہے ۔وہ لفظ جو دنیا بھر کو خوش کرنے کے لیے بلا صرف کسی قسم کے ایک مجرب دوا ہے۔ وہ انعام جو سال بھر تک دل و دماغ کے خون کرنے کا صلہ دیتا ہے۔ وہ تمغا جو سینکڑوں کو جان نثاری کی حسن خدمت کے عوض ملا ہے۔ وہ پرمعنی لفظ جس نے حاتم دلوں کی سخاوت کی داد دی ہے۔ وہ کرامت کی پڑیا جس نے بڑے رجواڑوں کے دل و دماغ کی خبر لی ہے۔ وہ دولت لازوال جس کا تہذیب یافتہ دنیا میں بے انتہا خرچ ہے۔ وہ تسخیر قلوب کا نسخہ جو اکثر سرکاری کاغذ کی پیشانی پر درج ہے۔خوش کرنے کا کم خرچ بالا نشین آلہ۔“
حقوق:
ایک نازک ہڈی جس پر ایک محلے کے ایک ہی رنگ و نسل کے کتے اس ہیبت ناک طریقے سے لڑیں کہ ان کی آواز سے دوسروں کے ڈرنے کا احتمال ہو۔
پارلیمنٹ:
مدبروں کا آشیانہ فصحا اور بلغا کی پرورش کا زچہ خانہ۔ کسی ملک کے قابل لوگوں کی وقت گویائی کے تماشا دکھانے کا تھئیٹر۔
” انتخابِ اودھ پنچ “ مکمل کتاب اسکین کرلی گئی ہے اور احباب کے لیے پیش خدمت ہے:
پی ڈی ایف فائل کا سافٹ لنک
راشد اشرف
کراچی سے
ہمارے پسندیدہ اداکار و مصنف کمال احمد رضوی صاحب نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامنے الف نون کا ایک کھیل ”کتب فروشی میں“ کے عنوان سے بھی تحریر کیا تھا۔ ایک مرتبہ جب راقم کمال صاحب کو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی دستخط شدہ خود نوشت’ ’یادوں کا جشن“ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے وہ پرانی کتب کے ٹھکانے سے اتفاقا ً مل گئی اور کیا کیا خزانے وہاں فروخت کے لیے آتے ہیں تو انہوںنے مجھے الف نون کے ایک ایسے پروگرام کے بارے میں بتایا جس کا ذکر میں نے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ اس ڈرامے کا عنوان ’کتب فروشی میں‘ تھا۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ اس میں الن ایک گاہک کو جارج برنارڈ شا کی کتاب یہ کہہ کر بیچ دیتا ہے کہ یہ کتاب برنارڈ شا نے سمرسٹ ماہم کو تحفتا پیش کی تھی اور اس پر لکھا تھا ’سمرسٹ ماہم کے لیے جی بی شا کی طرف سے‘۔ الن اسی کتاب کی پانچ کاپیاں ’ اگین گفٹڈٹو سمرسٹ فرام جی بی شا‘ لکھ کر فروخت کردیتا ہے۔ اسے طرح وہ ایک گاہک کو چند جعلی قلمی نسخے فروخت کرتا ہے اور گاہک کے یہ پوچھنے پر کہ کیا غالب کا کوئی قلمی نسخہ ہے، ننھا جوابا ًکہتا ہے کہ آپ پرسوں صبح آجائیں، گاہک سوال کرتا ہے کہ کل کیوں نہیں تو ننھا کہتا ہے کہ کل رات تو یہ (الن ) بیٹھ کروہ قلمی نسخہ لکھے گا۔
کراچی کے اتوار بازار میں اس مرتبہ کہنے کو تو کئی کتابیں منتظر تھیں لیکن کتابی دنیا لکھنو سے 1964 میں شائع ہوئی کتاب سب پر بازی لے گئی۔
نام کتاب: انتخابِ اودھ پنچ
اس کے مرتب رضی کاظمی ہیں۔ بطور ناشر، اظہر نگرامی کا نام کندہ ہے۔ جبکہ اس کے پرنٹر تنویر برقی پریس، لکھنو ہیں۔ ناشر کا فون نمبر 26335 درج ہے۔
کتاب ہاتھ میں تھام کر سوچا کہ یقیناًیہ تمام لوگ اب خواب و خیال ہوچکے ہوں گے۔
اشاعت کے وقت اس کے لائبریری ایڈیشن کی قیمت دو روپے تھی لیکن پورے پچاس برس بعد کتب فروش نے اسے سو روپے پاکستانی میں ہمارے حوالے کیا۔ لیکن کیا سو روپے میں یہ کتاب مہنگی ہے ؟ یقینا نہیں۔ اتوار ہی کے روز دوپہر کے وقت جب فیس بک پر کتابوں کا تعارف پیش کیا تو میرے دوست محبوب خاں صاحب مقیم لکھنو کاانگریزی
اور رومن میں ملا جلا یہ تبصرہ موصول ہوا۔ فرماتے ہیں:
کتابی دنیا، ایک ادارہ، ایک بک اسٹال لکھنو کے امین آباد میں۔ معیاری کتابوں کے پبلشر۔افسوس اب بند ہوگیا۔ جہاں علم کی شمع روشن تھی، اب چپلوں کی دکان ہے۔
Another prestigious publishing house, naseem book depot of naseem anhonavi , published a series of urdu translations of world fame detective novels by mazhar ul haq alvi, closed down. Recently alvi sahab died at allahabad.
محبوب خاں صاحب کتابوں کی دکان کی جگہ چپلوں کی دکان کھلنے پر ملول ہیں۔مگر ہماری طرف کا حال کون سا اچھا ہے۔ شہر کراچی کے پرانے باسی بتاتے ہیں کہ زیادہ تر کتب فروش اپنی دکان بڑھا چکے ہیں۔ جو باقی بچے ہیں، غنیمت ہیں۔کراچی کی معروف جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے ذرا سا آگے کی جانب واقع شیخ غلام علی اینڈ سنز کی قدیم دکان میں اب سوائے گرد و غبار کے، اور کچھ نہیں۔ ادارے سے شائع ہوئی چند پرانی کتابیں ضرور موجود ہیں لیکن ان کی حالت ایسی ہے کہ پہلے گرد ہٹائیے ،بہت سی گرد پھانکیے اور پھر ان کے عنوانات دیکھیے۔ اندازہ یہی ہے کہ جلد ہی یہاں بھی کوئی ”چکن تکہ کارنر“ کھل جائے گا۔ یا پھر چکن کا کپڑا فروخت ہورہا ہوگا۔
ذکر ہے ” انتخابِ اودھ پنچ “کارضی کاظمی نے اودھ پنچ کے لیے جن لکھنے والوں کی تحریروں کا انتخاب کیا ہے ان میں شامل ہیں سجاد حسین، نواب سید محمد آزاد، نواب سید محمد آزاد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، اکبر الہ آبادی، پنڈت تربھون ناتھ ہجر، احمد علی شوق، مچھو بیگ ستم ظریف، منشی جوالا پرشاد برق، عبدالغفور شہباز اور سید ممتاز حسین عثمانی۔
منشی سجاد حسین نے 1877 میںاپنے دوست ڈپٹی کلکٹر منشی محفوظ علی کے مشورے سے اودھ پنچ کی داغ بیل ڈالی تھی۔اس سے قبل سجاد حسین، فیض آباد میں انگریزی فوج کو اردو پڑھانے پر مامور تھے۔ نوکری چھوڑی اور اودھ پنچ کے ہو کر رہ گئے۔ 1912 میں اودھ پنچ بند ہوگیا اور سجاد حسین 22 جنوری 1915کو منشی سجاد حسین راہی ملک عدم ہوئے۔ ” انتخابِ اودھ پنچ “ میں اس کے مرتب نے منشی سجاد حسین کی کئی تحریریں شامل کی ہیں۔
اس کے بعد آتے ہیں نواب سید محمد سجاد ۔ذرا نمونہ تحریر تو ملاحظہ ہو۔ ”نئے سال کی نئی روشنی کی ڈکشنری “ نامی مضمون میں چند الفاظ کے معنی یوں بیان کرتے ہیں
شکریہ:
”وہ پائی
[pie]
جس کے اندر صرف ہوا ہے ۔وہ لفظ جو دنیا بھر کو خوش کرنے کے لیے بلا صرف کسی قسم کے ایک مجرب دوا ہے۔ وہ انعام جو سال بھر تک دل و دماغ کے خون کرنے کا صلہ دیتا ہے۔ وہ تمغا جو سینکڑوں کو جان نثاری کی حسن خدمت کے عوض ملا ہے۔ وہ پرمعنی لفظ جس نے حاتم دلوں کی سخاوت کی داد دی ہے۔ وہ کرامت کی پڑیا جس نے بڑے رجواڑوں کے دل و دماغ کی خبر لی ہے۔ وہ دولت لازوال جس کا تہذیب یافتہ دنیا میں بے انتہا خرچ ہے۔ وہ تسخیر قلوب کا نسخہ جو اکثر سرکاری کاغذ کی پیشانی پر درج ہے۔خوش کرنے کا کم خرچ بالا نشین آلہ۔“
حقوق:
ایک نازک ہڈی جس پر ایک محلے کے ایک ہی رنگ و نسل کے کتے اس ہیبت ناک طریقے سے لڑیں کہ ان کی آواز سے دوسروں کے ڈرنے کا احتمال ہو۔
پارلیمنٹ:
مدبروں کا آشیانہ فصحا اور بلغا کی پرورش کا زچہ خانہ۔ کسی ملک کے قابل لوگوں کی وقت گویائی کے تماشا دکھانے کا تھئیٹر۔
” انتخابِ اودھ پنچ “ مکمل کتاب اسکین کرلی گئی ہے اور احباب کے لیے پیش خدمت ہے:
پی ڈی ایف فائل کا سافٹ لنک
راشد اشرف
کراچی سے