پرانی کتابوں کا اتوار بازار-31 مارچ، 2013 -چند نایاب کتابیں

راشد اشرف

محفلین
اس مرتبہ بھی پرانی کتابوں کا اتوار بازار حسب معمول اپنے دامن میں خزانے سمیٹے ہوئے تھا۔ راقم ان دنوں فیروز سنز لاہور سے سن ستر کی دہائی میں شائع ہوئے بچوں کے ناولوں کو محفوظ کرنے کے کام میں رات دن غلطاں ہے۔ فیروز سنز کے ایک اعلی عہدے دار سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ "ادارے کے مرکزی دفتر میں لگنے والی بھیانک آگ نے سب کچھ جلا کر خاکستر کردیا۔ دلوں کے ساتھ ساتھ کتابوں کے مسودے بھی نذر آتش ہوئے، ان ناولوں کے دوبارہ شائع ہونے کا کوئی امکان اگر تھا بھی تو آتش زدگی کے بعد سرے سے معدوم ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ سو اب اگر یہ کام کوئی انٹرنیٹ پر کررہا ہے تو اس سلسلے میں ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اس بہانے پڑھنے والوں کو اگر یہ میسر آتے ہیں تو کیا مضائقہ"۔۔۔۔!

مذکورہ ناولوں کے مصنفین میں سے اکثر یہ دنیا چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں کئی معروف نام شامل ہیں۔ مقبول جہانگیر، پروفیسر محمد یونس حسرت، جبار توقیر، آفتاب احمد، فرخندہ لودھی اور دیگر۔ مظہر انصاری دہلوی نے ایڈگر رائس بروز کی مشہور زمانہ ٹارزن سیریز کے تراجم کیے تھے۔ احباب میں سے کسی کو مظہر صاحب کے بارے میں کچھ علم ہو تو براہ کرم آگاہ فرمائیں۔

صاحبو! شنید ہے کہ قانون کے مطابق چالیس برسوں کے بعد کسی بھی کتاب کے حقوق ناشر سے خودبخود اس کے مصنف کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ لاہور میں مقیم فیروز سنز سے تین کتابیں لکھنے والے ایسے ہی ایک مصنف ڈاکٹر خالد جاوید جان نے راقم سے فرمائش کی کہ ان کے تینوں ناولوں (بستی کا سورج، آخری وار اور ساٹھ لاکھ کا آدمی) کو اسکین کرکے دستیاب کردیا جائے کہ اب یہ حقوق انہی کو منتقل ہوچکے ہیں۔
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے
:
انڈیا - سفرنامہ ہندوستان - سبوحہ خان
کتاب کا پیش لفظ، ابتدائی باب اور مصنفہ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے 1988 میں خاکوں کی کتاب "یاران دیرینہ" تحریر کی تھی، یہ کتاب ادارہ ادب و تبقید، لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں شامل خاکے تمام کے تمام دلچسپ و لاجواب ہیں۔

مصنف یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور سے وابستہ رہے تھے۔ کتاب کے انتساب میں انہوں نے "مرحوم یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور" تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ، حفیظ جالندھری، میاں بشیر احمد، پروفیسر سید وقار عظیم، پروفیسر وزیر الحسن عابدی، مولانا نور الحسن خان، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر برکت علی قریشی، ڈاکٹر صابر علی خان اور میاں مہر دین نامی شخصیات کے خاکوں سے یہ کتاب مزین ہے۔ ان میں میاں مہر دین کا، کہ اورئینٹل کالج کا پرانا چپراسی تھا، خاکہ شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر وزیر الحسن عابدی کا خاکہ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

مولانا ماہر القادری کی کتاب "یاد رفتگان" کی جلد اول بھی اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا حصہ ہے۔ مذکورہ کتاب کی فہرست کے علاوہ جو خاکے زیر موضوع انتخاب میں شامل کیے گئے ہیں ان میں شامل ہیں:
بہزاد لکھنوی
آررو لکھنوی
عبد المجید حیرت شملوی
سیماب اکبر آبادی

عبد المجید حیرت شملوی ایک درویش منشن شاعر تھے۔ تقسیم ہند کے بعد کسمپرسی کے عالم میں کراچی پہنچے اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دم کیا اور دیا بھی۔ وہیں انتقال کیا۔ ضلع صادق آباد کی تحصیل محمد آباد میں مقیم بزرگ ادیب سید انیس شاہ جیلانی نے حیرت شملوی کا کلام مرتب کیا تھا۔

مالک رام کے تحریر کردہ خاکوں کی کتاب "وہ صورتیں الہی" کی تلاش ایک عرصے سے تھی جو گزشتہ اتوار بازار میں بارآور ثابت ہوئی۔ غالب، سائل دہلوی، صدر یار جنگ، سید سلیمان ندوی، برج موہن دتا تریا کیفی، یگانہ چنگیزی، جگر، نیاز اور مولانا غلام رسول مہر کے خاکوں پر مشتمل اس کتاب سے تعارف اور نواب سائل دہلوی کا یادگار طویل خاکہ شامل کیا گیا ہے۔

آخری کتاب ڈاکٹر حسن وقار گل کا 700 صفحات سے زائد ضخیم مقالہ "اردو سوانح نگاری آزادی کے بعد" ہے۔ مذکورہ کتاب کی فہرست اور ڈاکٹر سید شاہ علی کے تحریر کردہ تعارفی مضمون "اردو سوانح نگاری کی نئی جہتیں" کے علاوہ مصنف کا پرمغر مقدمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا تمام مواد درج ذیل لنک پر پڑھا اور بہ آسانی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:



خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے @محمد خلیل@تلمیذ@وارث@ذحال
 

یوسف-2

محفلین
شنید ہے کہ قانون کے مطابق چالیس برسوں کے بعد کسی بھی کتاب کے حقوق ناشر سے خودبخود اس کے مصنف کو منتقل ہوجاتے ہیں۔

ہم نے تو سنا تھا کہ پچاس برس بعد کوئی بھی ”کاپی رائیٹ“ از خود ختم ہوجاتی ہے۔:) یہ معلوم نہیں کہ یہ پچاس برس کتاب کی اولین اشاعت کے بعد سے شمار ہوتے ہیں یا مصنف کی وفات کے بعد سے، اگر کتاب کی کاپی رائیٹ مصنف کے نام ہو تو۔ کاپی رائیٹ ایکٹ اس بارے میں کیا کہتا ہے، اگر کسی کے علم میں ہو تو شیئر کرے۔
 

ملائکہ

محفلین
یہ جو کتابوں کا اتوار بازار لگتا ہے کراچی میں یہ لڑکیوں کے جانے کی جگہ ہے کہ نہیں؟؟؟ ماحول کے اعتبار سے۔۔۔
 

راشد اشرف

محفلین
یہ جو کتابوں کا اتوار بازار لگتا ہے کراچی میں یہ لڑکیوں کے جانے کی جگہ ہے کہ نہیں؟؟؟ ماحول کے اعتبار سے۔۔۔

خواتین آتی ہیں وہاں، گرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ فیس بک پر حلقہ احباب میں شامل دو عدد خواتین راقم سے تصدیق کے بعد آئی تھیں۔ کتب فروش زیادہ تر دریدہ دہن ہیں لیکن کسی ایک بھی خاتون کی موجودگی میں لحاظ بہرحال کرتے ہیں۔ ایک خاتون وہاں ہر اتوار کی صبح باقاعدگی سے موجود رہتی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ادب سے اس کا واسطہ نہیں، وہ ایک مانگنے والی ہے۔
 

ملائکہ

محفلین
خواتین آتی ہیں وہاں، گرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ فیس بک پر حلقہ احباب میں شامل دو عدد خواتین راقم سے تصدیق کے بعد آئی تھیں۔ کتب فروش زیادہ تر دریدہ دہن ہیں لیکن کسی ایک بھی خاتون کی موجودگی میں لحاظ بہرحال کرتے ہیں۔ ایک خاتون وہاں ہر اتوار کی صبح باقاعدگی سے موجود رہتی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ادب سے اس کا واسطہ نہیں، وہ ایک مانگنے والی ہے۔
:p اب میں مانگنے والی کے کپڑے پہن کر جاؤں وہاں اگر جاؤں تو۔۔۔۔
 
خواتین آتی ہیں وہاں، گرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ فیس بک پر حلقہ احباب میں شامل دو عدد خواتین راقم سے تصدیق کے بعد آئی تھیں۔ کتب فروش زیادہ تر دریدہ دہن ہیں لیکن کسی ایک بھی خاتون کی موجودگی میں لحاظ بہرحال کرتے ہیں۔ ایک خاتون وہاں ہر اتوار کی صبح باقاعدگی سے موجود رہتی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ادب سے اس کا واسطہ نہیں، وہ ایک مانگنے والی ہے۔

راشد بھائی کتاب مانگ کے پڑھنے کا بھی اپنا ایک الگ مزا ہے۔:bee:
 

تلمیذ

لائبریرین
کتب فروش زیادہ تر دریدہ دہن ہیں لیکن کسی ایک بھی خاتون کی موجودگی میں لحاظ بہرحال کرتے ہیں۔

اپنی اسی ثقافت پر ہی تو ہمیں مان ہے۔

ایک خاتون وہاں ہر اتوار کی صبح باقاعدگی سے موجود رہتی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ادب سے اس کا واسطہ نہیں، وہ ایک مانگنے والی ہے۔
:)
 
خود سے تو کوئی کتاب نہ دے گا، جیسے کپڑے پہنے ہوں گے اسی طرح سے کتاب مانگنی ہو گی۔

۔۔۔ اُف کتنا ہاٹ ڈے ہے، پلیز غالب کا دیوان پرچیز کرنا ہے، اوریجنل ون۔۔۔

عمر فاروق بھائی اچھے ٹرینر نگتے ہیں فقیروں کے :)
 
گو کہ نیت کتابوں کے اتوار بازار جانے کی نہیں تھی
اردو محفل کا پاک ٹی ہاؤس میں چائے پر اکھٹا ہونا اور گپ شپ کی روئداد اور
محفلین کی تمام تصایر آپ یہاں سے دیکھ اور ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں
mehfil-24-03-13+%252844%2529.JPG
 
Top