پرانی یادیں
زندہ اور مردہ قوموں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے اول الذکر اپنے ان سپوتوں کو بھلاتی نہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیکر اپنے علاقے اور اپنی مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے وہ ان کی یاد سے جڑی ہوئی ہر چیز کو محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ نئی نسل یا آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف اور اپنے ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو ان کویاد رکھنے کے کئی طریقے ہیں ان کے ناموں پر شہر کی سڑکوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اگر وہ گھر موجود ہیں جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی تو ان کو ثقافتی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جاسکتا ہے ان کے شعبے سے متعلق جن میں انہوں نے نام کمایا ہو کی عمارتوں کے بلاکوںکے نام ان کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں
سائنس‘ طب ‘فنون لطیفہ‘ تعلیم وغیرہ وغیرہ کے میدانوں میں خیبر پختون خوا کی مٹی نے کئی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو اپنے اپنے فن میں یکتا تھے یا ہیں اور ان میں ید طولے رکھتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر چترال تک کے وسیع علاقے نے مختلف ادوار میں کئی ایسے انمول موتی پیدا کئے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں اور شاید وہ گمنام ہی رہیں کیونکہ اپنے ہاںلکھنے پڑھنے کا مادہ ہمیشہ سے کم رہا ماضی بعید کی عظیم شخصیتیں تو کجا ہم ماضی قریب کی عظیم شخصیتوں کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر کرکے ان کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جو ان کا حق ہے۔
گذشتہ روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک رپورٹر نے پشاور سے تعلق رکھنے والے فلمی ستاروں کے بارے میں اپنے خبرنامے میں چند منٹوں پر محیط ایک فوٹیج چلائی جو یقینا ایک اچھی کاوش تھی پر اس سے ناظرین کی تشفی نہیں ہوئی کیونکہ وہ فوٹیج نہایت ہی سطحی اور نامکمل تھی اس فوٹیج میں ان فلمی شخصیات اور گھرانوں کا ذکر کیاگیا جنہوں نے بالی ووڈ جاکر وہاں کی فلمی صنعت کو چار چاند لگائے اس رپورٹر کا یہ مطالبہ بالکل بجا تھا کہ پشاور میں ثقافت سے متعلق جو سرکاری ادارہ بھی کام کررہا ہے وہ کم ازکم ان فلمی شخصیات کے گھروں کو ہی ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلے کہ وہ اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں جس حالت میں وہ بنے تھے گو وقت کے ساتھ ساتھ وہ خستہ حال ضرور ہوئے
اس قسم کا مطالبہ پرنٹ میڈیا اس سے پیشتر بھی کر چکا ہے پر پشاور میں ثقافت کے بارے میں معاملات نبٹانے والے سرکاری بابوؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی پچھلی صوبائی حکومت سے خیر کوئی کیا گلہ کرے کہ وہ تو فنون لطیفہ کے بارے میں اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہی نہ تھی پر موجودہ صوبائی حکومت میں ضرور ایسے اہلکار موجود ہوں گے جو اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے
پرتھوی راج کپور کے خاندان کا فلمی دنیا میں ایک اہم مقام ہے۔گذشتہ 60برسوں سے پرتھوی راج کپور‘ ان کے بیٹے راج کپور ‘شمی کپور ششی کپور‘ان کے پوتے رشی کپور اور ان کے پڑپوتوں اور پڑپوتیوں نے برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگیوں میں اپنی عمدہ اداکاری سے خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیری ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعے معاشرے کو کئی سبق آموز کہانیاں اور پیغام دیئے ہیں ڈھکی نعلبندی پشاور میں وہ گھر آج بھی ایستادہ ہے جس میں شہرہ آفاق فلم مغل اعظم کا اکبر بادشاہ‘ پرتھوی راج کسی زمانے میں رہا کرتا تھا اور وہاں سے سائیکل پر ایڈورڈ کالج پشاور پڑھنے جایا کرتا تھا
ڈھکی نعلبندی کی اسی گلی میں ’’آوارہ‘‘ نامی فلم کا خوبرو ہیرو راج کپور جو پرتھوی راج کپور کا بڑا بیٹا تھا کھیلا کرتا تھا اسی ڈھکی نعلبندی میں انیل کپور کے والد کا گھر تھا چند قدم دور محلہ خداداد قصہ خوانی کی ایک چھوٹی سی گلی کے نکڑ پر وہ گھر آج بھی نظر آتا ہے جہاں دنیائے فلم کے عظیم ترین اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا تھا اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہ ان جیسا کنگ آف ٹریجڈی آج تک پروہ سیمیں کو پھر میسر آیا ہی نہیں بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی پشاور میں وہ گھر بھی موجود ہے کہ جس میں ضیا ء سرحدی جیسا لکھاری‘فلمی ہدایت کار اور کہانی نویس پیدا ہوا جس کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ رہتی دنیا تک فلم کے ناظرین یا درکھیں گے پیرپیائی نوشہرہ کے گل حمید کا گھر پیرپیائی میں موجود ہے ۔
ایک زمانے میں اس نے بالی ووڈ میں تہلکہ مچا رکھا تھا اس طرح نامور ادیب وسفارت کار پطرس بخاری‘ عظیم مصور اور سنگتراش گل جی مشہور فلمی ہیرو لالہ سدھیر اور اسی درجے کے کئی دوسرے فنکار جن کے نام اس وقت ذہین میں نہیں آرہے ان سب کی یادوں کو کسی نہ کسی طریقے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے کاش کہ صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی پراجیکٹ بنائے یقینا عوام الناس اس کی پذیرائی کریں گے۔
زندہ اور مردہ قوموں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے اول الذکر اپنے ان سپوتوں کو بھلاتی نہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیکر اپنے علاقے اور اپنی مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے وہ ان کی یاد سے جڑی ہوئی ہر چیز کو محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ نئی نسل یا آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف اور اپنے ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو ان کویاد رکھنے کے کئی طریقے ہیں ان کے ناموں پر شہر کی سڑکوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اگر وہ گھر موجود ہیں جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی تو ان کو ثقافتی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جاسکتا ہے ان کے شعبے سے متعلق جن میں انہوں نے نام کمایا ہو کی عمارتوں کے بلاکوںکے نام ان کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں
سائنس‘ طب ‘فنون لطیفہ‘ تعلیم وغیرہ وغیرہ کے میدانوں میں خیبر پختون خوا کی مٹی نے کئی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو اپنے اپنے فن میں یکتا تھے یا ہیں اور ان میں ید طولے رکھتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر چترال تک کے وسیع علاقے نے مختلف ادوار میں کئی ایسے انمول موتی پیدا کئے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں اور شاید وہ گمنام ہی رہیں کیونکہ اپنے ہاںلکھنے پڑھنے کا مادہ ہمیشہ سے کم رہا ماضی بعید کی عظیم شخصیتیں تو کجا ہم ماضی قریب کی عظیم شخصیتوں کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر کرکے ان کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جو ان کا حق ہے۔
گذشتہ روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک رپورٹر نے پشاور سے تعلق رکھنے والے فلمی ستاروں کے بارے میں اپنے خبرنامے میں چند منٹوں پر محیط ایک فوٹیج چلائی جو یقینا ایک اچھی کاوش تھی پر اس سے ناظرین کی تشفی نہیں ہوئی کیونکہ وہ فوٹیج نہایت ہی سطحی اور نامکمل تھی اس فوٹیج میں ان فلمی شخصیات اور گھرانوں کا ذکر کیاگیا جنہوں نے بالی ووڈ جاکر وہاں کی فلمی صنعت کو چار چاند لگائے اس رپورٹر کا یہ مطالبہ بالکل بجا تھا کہ پشاور میں ثقافت سے متعلق جو سرکاری ادارہ بھی کام کررہا ہے وہ کم ازکم ان فلمی شخصیات کے گھروں کو ہی ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلے کہ وہ اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں جس حالت میں وہ بنے تھے گو وقت کے ساتھ ساتھ وہ خستہ حال ضرور ہوئے
اس قسم کا مطالبہ پرنٹ میڈیا اس سے پیشتر بھی کر چکا ہے پر پشاور میں ثقافت کے بارے میں معاملات نبٹانے والے سرکاری بابوؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی پچھلی صوبائی حکومت سے خیر کوئی کیا گلہ کرے کہ وہ تو فنون لطیفہ کے بارے میں اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہی نہ تھی پر موجودہ صوبائی حکومت میں ضرور ایسے اہلکار موجود ہوں گے جو اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے
پرتھوی راج کپور کے خاندان کا فلمی دنیا میں ایک اہم مقام ہے۔گذشتہ 60برسوں سے پرتھوی راج کپور‘ ان کے بیٹے راج کپور ‘شمی کپور ششی کپور‘ان کے پوتے رشی کپور اور ان کے پڑپوتوں اور پڑپوتیوں نے برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگیوں میں اپنی عمدہ اداکاری سے خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیری ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعے معاشرے کو کئی سبق آموز کہانیاں اور پیغام دیئے ہیں ڈھکی نعلبندی پشاور میں وہ گھر آج بھی ایستادہ ہے جس میں شہرہ آفاق فلم مغل اعظم کا اکبر بادشاہ‘ پرتھوی راج کسی زمانے میں رہا کرتا تھا اور وہاں سے سائیکل پر ایڈورڈ کالج پشاور پڑھنے جایا کرتا تھا
ڈھکی نعلبندی کی اسی گلی میں ’’آوارہ‘‘ نامی فلم کا خوبرو ہیرو راج کپور جو پرتھوی راج کپور کا بڑا بیٹا تھا کھیلا کرتا تھا اسی ڈھکی نعلبندی میں انیل کپور کے والد کا گھر تھا چند قدم دور محلہ خداداد قصہ خوانی کی ایک چھوٹی سی گلی کے نکڑ پر وہ گھر آج بھی نظر آتا ہے جہاں دنیائے فلم کے عظیم ترین اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا تھا اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہ ان جیسا کنگ آف ٹریجڈی آج تک پروہ سیمیں کو پھر میسر آیا ہی نہیں بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی پشاور میں وہ گھر بھی موجود ہے کہ جس میں ضیا ء سرحدی جیسا لکھاری‘فلمی ہدایت کار اور کہانی نویس پیدا ہوا جس کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ رہتی دنیا تک فلم کے ناظرین یا درکھیں گے پیرپیائی نوشہرہ کے گل حمید کا گھر پیرپیائی میں موجود ہے ۔
ایک زمانے میں اس نے بالی ووڈ میں تہلکہ مچا رکھا تھا اس طرح نامور ادیب وسفارت کار پطرس بخاری‘ عظیم مصور اور سنگتراش گل جی مشہور فلمی ہیرو لالہ سدھیر اور اسی درجے کے کئی دوسرے فنکار جن کے نام اس وقت ذہین میں نہیں آرہے ان سب کی یادوں کو کسی نہ کسی طریقے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے کاش کہ صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی پراجیکٹ بنائے یقینا عوام الناس اس کی پذیرائی کریں گے۔