پرانے مشغلے اب نہیں رہے

عدیل ہاشمی

محفلین
بچپن میں مضمون پڑھا کرتے تھے ’’میرا مشغلہ‘‘۔ آج مشغلوں کے نام پر لوگ اپنے بہترین وقت کو ٹی وی یا سمارٹ فون پر صرف کردیتے ہیں ۔پہلے کے مشاغل اور ہوا کرتے تھے کوئی سکوں کو جمع کرتا تھا تو کوئی پودے لگاتا تھا، کوئی ڈائری لکھتا تھا تو کوئی سٹمپ جمع کرتا تھا کوئی کرکٹ کھیلتا تھا تو کوئی فٹ بال، کوئی نظمیں لکھتا یا پڑھتا تھا تو کوئی کہانیاں یا ناول۔ مگر آج جہاں الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے سب ان مشاغل سے دور ہوگئے ہیں ۔ کوئی بھی ان مشاغل پر اپنا وقت نہیں لگاتا۔ سب بس بجلی سے چلنے والے آلات کے آگے ہار مان جاتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت انٹرنیٹ یا ٹی وی پر برباد کرتے ہیں۔ جہاں کھیل پہلے جسمانی ورزش کا باعث تھے آج ان کھیلوں کی جگہ گیموں نے لے لی ہے۔ یہ گیمز آپ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے کھیل سکتے ہیں۔ ناتو جسم کی ورزش ہوتی ہے اور نہ ہی انسان دماغی طور پر چست ہوتا ہے۔ یہ برقی آلات ہمیں اندر ہی اندر مفلوج کررہے ہیں۔ ان کا استعمال ضرورت کے مطابق کرنا چاہیے لیکن ہم ان سب چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیوں؟ میں تو اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو پہلے سے بھی زیادہ لوگ اپنے شوق اور مشغلوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور اب وہ اپنے ہم خیال لوگوں سے انٹرنیٹ کی بدولت رابطے میں بھی ہیں۔
 

احمد محمد

محفلین
عدیل بھائی!

بقولِ غالب
یہ کہاں کی دوستی ہے، کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسارہوتا:D

باتیں سبھی آپ نے بہت اچھی کی ہیں۔ مگر یہ بھی تو کہیے کہ اس صورتِ حال سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو؟؟؟

اور ہاں۔۔۔ جو بھی حل آپ تجویز کریں، اس بات کا خیال رکھیئے گا کہ اس میں ہِل جُل بالکل نہ کرنی پڑے۔:D:D:D

کیا ہے کہ اتنے سال بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھا ہے تو اب بیزار ہیں ہم۔ :D:D:D

بلاشبہ تحریر عمدہ ہے اورآپ ایک اچھے نقاد ہیں۔:)
 

فلسفی

محفلین
کوئی سکوں کو جمع کرتا تھا
کوئی ڈائری لکھتا تھا
کوئی سٹمپ جمع کرتا تھا
یہ سب مشاغل شاید اب برقی صورت میں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ موجود ہیں۔
کوئی کرکٹ کھیلتا تھا
یہ افسوس ناک ہے۔ بلاشبہ تعداد کم ہو گئی ہے۔

کوئی نظمیں لکھتا یا پڑھتا تھا تو کوئی کہانیاں یا ناول
یہ بھی برقی صورت میں مجود ہے۔

جہاں کھیل پہلے جسمانی ورزش کا باعث تھے آج ان کھیلوں کی جگہ گیموں نے لے لی ہے
وقت اور حالات کے حساب سے مشاغل بدل جاتے ہیں۔ لیکن ان میں بیلینس ہونا چاہیے۔

یہ برقی آلات ہمیں اندر ہی اندر مفلوج کررہے ہیں۔ ان کا استعمال ضرورت کے مطابق کرنا چاہیے لیکن ہم ان سب چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں۔
ان برقی آلات کی غیر موجودگی میں پڑھنے لکھنے والے مشاغل کے علاوہ ہمارا بچپن، برف پانی، اونچ نیچ، باڈی باڈی، چھپن چھپائی، کرکٹ، فٹ بال، گلی ڈنڈا وغیرہ وغیرہ کھیلتے گزرا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بچے چار دیواری میں محصور ہو چکے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ بڑوں کو اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ کچھ اچھل کود میں حصہ ضرور لینا چاہیے۔ یہ بڑوں کی صحت کے لیے بھی اچھا ہے اور بچوں کے لیے بھی۔ میں خود روزانہ کی ترتیب تو نہیں بنا سکا لیکن جب بھی موقع ملتا ہے کوشش کرتا ہوں کے بچوں کے ساتھ مل کر ایسے کھیل کھیلے جائیں جو جسمانی یا ذہنی ورزش کا باعث ہوں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
کیوں؟ میں تو اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو پہلے سے بھی زیادہ لوگ اپنے شوق اور مشغلوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور اب وہ اپنے ہم خیال لوگوں سے انٹرنیٹ کی بدولت رابطے میں بھی ہیں۔
ان میں سے کوئی ڈاک ٹکٹ بھی جمع کرتا ہو گا ۔
 

زیک

مسافر
ان میں سے کوئی ڈاک ٹکٹ بھی جمع کرتا ہو گا ۔
تمام مشاغل باقی ہیں اور نت نئے بھی آ گئے ہیں۔

پرانے وقتوں میں بھی بہت لوگوں کے کوئی مشغلے نہ تھے آج بھی نہیں ہیں۔ پھر وقت اور عمر کے ساتھ انسان میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کالم تو محض ناسٹالجیا اور الیکٹرانکس پر الزام سے بھرا پڑا ہے۔
 
بات تو درست ہے۔ مگر دیکھا جائے تو کسی حد تک لازمی بھی۔
کچھ مشاغل ایسے ہیں جو بدلتے وقت اور بدلتی ضروریات کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور ان کا ختم ہونا یا بدل جانا کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ مثلاً کسی کو ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، اور اب بھی ہو گا، مگر دورِ جدید میں ڈاک ٹکٹ کی ضرورت کم سے کم کوتی جا رہی ہے۔ تو یہ شوق بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
کسی کو اخبار سے کھلاڑیوں کی تصاویر کاٹ کر محفوظ کرنے کا شوق تھا تو اب کمپیوٹر، موبائل میں تصاویر اور ویڈیوز محفوظ ہوتی ہیں۔

کسی کو ڈائری لکھنے کا شوق تھا تو وہ اب بھی ہے، مگر کاغذ کی ڈائری سے موبائل یا لیپ ٹاپ پر نوٹس کی صورت میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور جب ڈائری نہیں ہوا کرتی تھی تو ایسا شوق کسی اور صورت میں ہوتا ہو گا۔

یہ تبدیلیاں بالکل فطری ہیں اور کوئی پریشانی والی بات نہیں۔

البتہ بچوں میں جسمانی کھیلوں سے دور ہو کر موبائل یا کمپیوٹر گیم تک محدود ہو جانے کا رجحان درست نہیں ہے۔

لکھنے پڑھنے کا رجحان تو اب بھی ہے، البتہ سطحیت بڑھ گئی ہے اور سطحی مواد کی مانگ بھی۔ لوگوں کو تفصیلی مضمون کی نسبت چند جملوں میں لکھی بات زیادہ پسند آتی ہے۔

فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے، اقتباس دے
معراج فیص آبادی
 

عدیل ہاشمی

محفلین
کیوں؟ میں تو اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو پہلے سے بھی زیادہ لوگ اپنے شوق اور مشغلوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور اب وہ اپنے ہم خیال لوگوں سے انٹرنیٹ کی بدولت رابطے میں بھی ہیں۔



ڈیجیٹل دنیا تیز رابطے کا باعث تو ہے لیکن اس نے آپ کے دماغ کو کمزور کردیا ہے۔۔۔آپ اس کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔آج اگر اچانک سے ٹیکنالوجی کو ختم کردیا جائے تو لوگوں کی خودکشی کی رپورٹس پڑھنے کو ملیں
 

عدیل ہاشمی

محفلین
عدیل بھائی!

بقولِ غالب
یہ کہاں کی دوستی ہے، کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسارہوتا:D

باتیں سبھی آپ نے بہت اچھی کی ہیں۔ مگر یہ بھی تو کہیے کہ اس صورتِ حال سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو؟؟؟

اور ہاں۔۔۔ جو بھی حل آپ تجویز کریں، اس بات کا خیال رکھیئے گا کہ اس میں ہِل جُل بالکل نہ کرنی پڑے۔:D:D:D

کیا ہے کہ اتنے سال بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھا ہے تو اب بیزار ہیں ہم۔ :D:D:D

بلاشبہ تحریر عمدہ ہے اورآپ ایک اچھے نقاد ہیں۔:)

بچوں کو مطالعے کی عادت ڈالیں۔مشاغل اپنانے میں سکول اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ہمارے کتنے سکولز میں کتاب پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے؟؟؟
آپ اور میں رٹا لگا کر یہاں پہنچے ہیں۔نصابی کتابوں کے علاوہ ریفرنس بکس کا مطالعہ بالکل زیرو۔
آج کل تو چند ایک لوگ مل رہے ہیں جو ملک و قوم کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہیں۔مستقبل قریب میں درآمد کرنے پڑیں گے
 

عدیل ہاشمی

محفلین
یہ سب مشاغل شاید اب برقی صورت میں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ موجود ہیں۔


یہ افسوس ناک ہے۔ بلاشبہ تعداد کم ہو گئی ہے۔


یہ بھی برقی صورت میں مجود ہے۔


وقت اور حالات کے حساب سے مشاغل بدل جاتے ہیں۔ لیکن ان میں بیلینس ہونا چاہیے۔


ان برقی آلات کی غیر موجودگی میں پڑھنے لکھنے والے مشاغل کے علاوہ ہمارا بچپن، برف پانی، اونچ نیچ، باڈی باڈی، چھپن چھپائی، کرکٹ، فٹ بال، گلی ڈنڈا وغیرہ وغیرہ کھیلتے گزرا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بچے چار دیواری میں محصور ہو چکے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ بڑوں کو اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ کچھ اچھل کود میں حصہ ضرور لینا چاہیے۔ یہ بڑوں کی صحت کے لیے بھی اچھا ہے اور بچوں کے لیے بھی۔ میں خود روزانہ کی ترتیب تو نہیں بنا سکا لیکن جب بھی موقع ملتا ہے کوشش کرتا ہوں کے بچوں کے ساتھ مل کر ایسے کھیل کھیلے جائیں جو جسمانی یا ذہنی ورزش کا باعث ہوں۔


بڑوں کا وقت نکالنا مشکل ہے کیونکہ یہ نسل خراب ہوچکی ہے۔ہاں البتہ آنے والی نسل کوضرور بہتر بنایا جاسکتا ہے سکول سسٹم بہتر کر کے۔۔۔تعلیمی انقلاب کے بغیر ہم مزید پستی کی طرف جائیں گے
 
Top