http://www.ummatpublication.com/2010/03/21/story4.html
اس حوالے سے مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے کمپیوٹرز پر پابندی عائد کرنے کی جو وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، ان میں سر فہرست یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ قانون ہے کہ کچھ سال استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کو اٹھا کر بڑے بڑے گوداموں میں ڈمپ کرنے کے لیے بھر دیا جاتا ہے اور ان میں سے 15 سے 20 فیصد کمپیوٹرز ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ سے قابلِ استعمال بنائے جاتے ہیں جبکہ زیادہ تعداد میں کمپیوٹرز کو مضرِ صحت قرار دے کر ضائع کرنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر وہاں سے امپورٹرز ان کو بولی لگا کر حاصل کر لیتے ہیں اور یہ لاٹس کی صورت میں پاکستان منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو ضائع شدہ کمپیوٹرز کے لیے ڈمپنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے اور ایک بار استعمال کیے ہوئے کمپیوٹرز کو دوبارہ استعمال کرنے سے مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
پرانے کمپیوٹروں کو کسی قانون کی وجہ سے نہیں نکال باہر کیا جاتا بلکہ اس وجہ سے نکالا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کو اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے نئے اور زیادہ طاقتور کمپیوٹروں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے جگہ بنانے کے لیے پرانے کمپیوٹر کو عموماً گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔
یہ جو گھروں اور دفتروں سے پرانے کمپیوٹر آتے ہیں، ان میں سے ری سائیکل ان کو کیا جاتا ہے جو کسی خرابی کی وجہ سے قابلِ استعمال نہیں ہوتے۔ اور ترقی یافتہ ممالک مضرِ صحت اشیاء کو فروخت نہیں کرتے بلکہ ان کے لیے الگ سے ری سائیکلنگ کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے جہاں پارے (جو کہ ٹیوب لائٹ میں عام ہوتا ہے) جیسے زہریلے مادوں پر مشتمل اشیاء کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اگر چیک کیا جائے تو وہاں کے قانون میں بھی مضرِ صحت اشیاء کی فروخت اور برآمدات پر پابندیاں بھی ہوں گی۔ فروخت صرف وہی کمپیوٹر ہوتے ہیں جو ابھی تک اچھی حالت میں ہوں کیونکہ وہی چیز بکے گی جس کا کوئی گاہک ملے گا۔ جس چیز کا کوئی گاہک نہ ہو، اسے بیچنے کی کون سوچے گا۔ یہ کمپیوٹر نہ صرف یہاں پر کافی عرصہ تک چلتے ہیں بلکہ (غربت کی وجہ سے) ایک شخص کے استعمال کے بعد دوسرے کے استعمال میں آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جل جائیں یا کسی اور وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو جائیں۔ اور جب ان کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو حکومت کی جانب سے ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے ورنہ نوے فیصد حصہ تو آرام سے ری سائیکل ہو سکتا ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں بازار میں بکنے والے ایک عام کمپیوٹر پر۔ سٹیل اور پلاسٹک کا ایک فریم، تانبے کے تار، پلاسٹک کے کچھ سرکٹ بورڈ، جن پر دھاتی تار اور چھوٹے چھوٹے کچھ برقی آلات ہیں۔ مانیٹر اگر سستا ہے تو کیتھوڈ رے ٹیوب والا، اور اگر مہنگا ہے تو ایل سی ڈی۔ ایک دو مقناطیسی حصے (ہارڈ ڈسک اور سپیکر) جو کہ ظاہری بات ہے کہ دھاتوں پر ہی مبنی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اگر بازیافتگی کے کارخانے لگائے جاتے ہیں تو اس کا کم از کم نوے فیصد حصہ نہایت آرام سے بازیافت کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ایسے کارخانے تو لازمی ہیں چاہے ہم نئے کمپیوٹر استعمال کرتے ہوں یا پرانے کیونکہ بنیادی طور پر تو سب کی ساخت ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کیا نئے کمپیوٹر کسی دور میں خراب نہیں ہوں گے؟ کیا انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے؟ جب ایسا ہوگا تو اس کے لیے ہم نے کتنی تیاری کر رکھی ہے؟
اور یہ عجیب منتق ہے کہ کمپیوٹر ایک بار استعمال ہو جائے تو مضرِ صحت ہو جاتا ہے۔ کمپیوٹر ہے کہ ٹائلٹ پیپر؟ یا اسے خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ اب میں ایک بار استعمال ہو چکا ہوں چنانچہ زہریلا ہو جاتا ہے؟
ماحولیاتی آلودگی پرانے کمپیوٹروں سے نہیں بلکہ کچرا بازیافت کرنے کے کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔
قصہ مختصر کہ یہ دلیل صرف جھوٹ پر مبنی ہے۔
دوسری وجہ جو پیش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کمپیوٹرز کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے مقامی طور پر اسمبل ہونے والے کمپیوٹرز کی صنعت اور مارکیٹ بہت متاثر ہو رہی ہے جو کہ مستقبل کے لیے پریشان کن بات ہے۔
اگر ترقی کرنی ہے تو وقتی طور پر بڑے فوائد کے لیے چھوٹے نقصانات کو برداشت کرنا ہوگا۔ کمپیوٹر آج کے دور میں تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم عام ہوگی تو خوشحالی آئے گی اور تب پھر لوگ نئے کمپیوٹر خریدنے کے بھی قابل ہو جائیں گے۔
پرانے کمپیوٹرز پر پابندی کے نتیجے میں تعلیم جو غریب کی پہنچ سے مزید دور ہوگی، اس سے صرف غریب طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ طویل المیعاد طور پر مقامی اسمبلر بھی متاثر ہوں گے کیونکہ تعلیم کی کمی سے غربت مزید بڑھے گی اور نئے کمپیوٹر کو خریدنا مزید لوگوں کے بس سے باہر ہوتا جائے گا۔ تو یہ اسمبلر مجھے یہ بتائیں کہ جب ہوتے ہوتے ہر کوئی غریب ہو جائے گا اور کوئی بھی ان کے کمپیوٹر نہیں خرید پائے گا، تو تب یہ لوگ کیا کریں گے؟