پربھاکرن تو زندہ ہے!!!

اج جب ٹی وی پر پربھاکرن کی موت کی خبرچلائی جارہی تھی تو عجیب سا محسوس ہوا۔ تامل ٹائیگرز نے 37 سال کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ ان کی لڑائی ایک ازاد وطن کے حصول کے لیے تھی جو ابھی تک ناکام رہی اور بالاخر یہ تنظیم دم توڑتی نظر ارہی ہے۔ تامل قوم ایک بڑی قوم ہے جو انڈیا، سری لنکا اور ملائشیا میں‌مقیم ہے۔ تاملز پر لنکن افواج کی چڑھائی یہاں‌ملائیشین تامل میں‌بےچینی کے ساتھ دیکھی جارہی تھی اور اکثر ان کے ٹی وی تاملوں‌پر مظالم کو ہائی لائٹ کرتے رہے ہیں۔

پربھاکرن شاید 26 برس سے زیادہ تامل حکمران رہا۔ اسکے دور میں تاملوں‌نے راجیو گاندھی کو مارا اور شاید سری لنکن چیف اف ارمی کوبھی۔ ائیر پورٹ بھی تباہ ہوا۔ یقین نہیں‌اتا کہ پربھاکرن ایمبولینس میں‌ مارا گیا۔ سری لنکا میں‌جشن کا سماں‌ہے ۔ لوگ ناچ رہے ہیں۔
کہ تامل ہار گئے
کیاتامل ہار گئے؟
نہیں‌ تامل اپنے عزم میں‌پکے ہیں جس طرح‌کی چڑھائی سری لنکن افواج نے کی ہے پربھاکرن ہر تامل کے دل میں‌زندہ ہوگیا ہے۔ وہ واپس ائے گا۔ تامل اپنا وطن لے کر رہیں‌گے یہی ان کا عزم بتاتا ہے۔ پربھاکرن زندہ ہے۔ جب تک تامل اپنے وطن کی جدوجہد کرتا رہے گا وہ زندہ رہے گا۔

ابھی یہی سوچ رہا تھاکہ دوست ملنے اگیا۔ وہ سوات کا ہےمگر طالب نہیں ہے داڑھی منڈا ہے۔ اس سے یہ خبر شیر کی تھی کہنے لگا رات عجیب خواب دیکھا کہ میری لمبی سی داڑھی ہے اور میں‌کفر کے خلاف لڑرہا ہوں۔ فرنگی مجھے گولی مارتے ہین مگر مجھے لگتی نہیں اس عزم میں‌ہوں‌کہ فرنگی کے مظالم کے خلاف لڑنا ہے ۔ ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ پیچھے سے گولی کی بوچھاڑ ائی۔ کچھ لوگ جو فرنگی نہیں تھے مجھ جیسے ہی تھے۔ کہہ رہے تھے ہم کیا مسلم نہیں‌۔ مگر گولیاں‌مجھے مارتے تھے۔ پھر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک اور شخص نظر ایا جو الطاف جیسیا تھا کہہ رہا تھا کہ مجھے اسلام سکھاو گے میں تو پہلے ہی مسلم ہوں مگر گولیاں‌مجھے ہی مار رہا تھا۔
ایرانی ملا نظر ائے۔کہہ رہے تھے کہ تو کب سے طالب ہے۔ ہم طالبان ہیں‌کیونکہ ابوطالب کے چاہنے والے ہیں مگر کافر سے نہیں‌لڑتے تھے گولیاں‌مجھے مارتے تھے۔ سب میرے گرد ناچ رہے تھے کہ میں‌مرگیا۔
پھر میری انکھ کھل گئی۔
 

ساجداقبال

محفلین
پربھاکرن تو زندہ ہے پر جو 70ہزار سری لنکن مارے گئے ان کو کون زندہ کرے؟
اگر سنہالی اکثریت تامل اقلیت کو انکے جائز حقوق دیتی ہے تو امید ہے حالات ٹھیک ہو جائینگے وگرنہ کل کو تامل مرلی دھرن کوئی نئ تنظیم بنا لینگے۔
 

arifkarim

معطل
یہاں ناروے میں بھی ان تاملوں کی روز بروز ڈیمونسٹریشنز نے ناک میں دم کر رکھا ہے!
 

مہوش علی

لائبریرین
اج جب ٹی وی پر پربھاکرن کی موت کی خبرچلائی جارہی تھی تو عجیب سا محسوس ہوا۔ تامل ٹائیگرز نے 37 سال کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ ان کی لڑائی ایک ازاد وطن کے حصول کے لیے تھی جو ابھی تک ناکام رہی اور بالاخر یہ تنظیم دم توڑتی نظر ارہی ہے۔ تامل قوم ایک بڑی قوم ہے جو انڈیا، سری لنکا اور ملائشیا میں‌مقیم ہے۔ تاملز پر لنکن افواج کی چڑھائی یہاں‌ملائیشین تامل میں‌بےچینی کے ساتھ دیکھی جارہی تھی اور اکثر ان کے ٹی وی تاملوں‌پر مظالم کو ہائی لائٹ کرتے رہے ہیں۔

پربھاکرن شاید 26 برس سے زیادہ تامل حکمران رہا۔ اسکے دور میں تاملوں‌نے راجیو گاندھی کو مارا اور شاید سری لنکن چیف اف ارمی کوبھی۔ ائیر پورٹ بھی تباہ ہوا۔ یقین نہیں‌اتا کہ پربھاکرن ایمبولینس میں‌ مارا گیا۔ سری لنکا میں‌جشن کا سماں‌ہے ۔ لوگ ناچ رہے ہیں۔
کہ تامل ہار گئے
کیاتامل ہار گئے؟
نہیں‌ تامل اپنے عزم میں‌پکے ہیں جس طرح‌کی چڑھائی سری لنکن افواج نے کی ہے پربھاکرن ہر تامل کے دل میں‌زندہ ہوگیا ہے۔ وہ واپس ائے گا۔ تامل اپنا وطن لے کر رہیں‌گے یہی ان کا عزم بتاتا ہے۔ پربھاکرن زندہ ہے۔ جب تک تامل اپنے وطن کی جدوجہد کرتا رہے گا وہ زندہ رہے گا۔

ابھی یہی سوچ رہا تھاکہ دوست ملنے اگیا۔ وہ سوات کا ہےمگر طالب نہیں ہے داڑھی منڈا ہے۔ اس سے یہ خبر شیر کی تھی کہنے لگا رات عجیب خواب دیکھا کہ میری لمبی سی داڑھی ہے اور میں‌کفر کے خلاف لڑرہا ہوں۔ فرنگی مجھے گولی مارتے ہین مگر مجھے لگتی نہیں اس عزم میں‌ہوں‌کہ فرنگی کے مظالم کے خلاف لڑنا ہے ۔ ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ پیچھے سے گولی کی بوچھاڑ ائی۔ کچھ لوگ جو فرنگی نہیں تھے مجھ جیسے ہی تھے۔ کہہ رہے تھے ہم کیا مسلم نہیں‌۔ مگر گولیاں‌مجھے مارتے تھے۔ پھر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک اور شخص نظر ایا جو الطاف جیسیا تھا کہہ رہا تھا کہ مجھے اسلام سکھاو گے میں تو پہلے ہی مسلم ہوں مگر گولیاں‌مجھے ہی مار رہا تھا۔
ایرانی ملا نظر ائے۔کہہ رہے تھے کہ تو کب سے طالب ہے۔ ہم طالبان ہیں‌کیونکہ ابوطالب کے چاہنے والے ہیں مگر کافر سے نہیں‌لڑتے تھے گولیاں‌مجھے مارتے تھے۔ سب میرے گرد ناچ رہے تھے کہ میں‌مرگیا۔
پھر میری انکھ کھل گئی۔


ہمت برادر، اگر کسي نے ايسا خواب ديکھ بھي ليا ہے تو ايسے خواب بيان کرتے وقت خيال رکھنا چاہيے کہ کسي کي اس سے دل شکني نہ ہو
مثلا جواب ميں کوئي آپ کو کہے کہ خدانخواستہ يہ خواب اگر آپ نے ديکھ ليا ہوتا تو اس ميں کوئي پنجابي بھي گولي مار رہا ہوتا وغيرہ وغيرہ تو پھر کيا آپ کے دل کو برا نہيں لگتا؟

طالبان نے سيکنڑوں معصوموں کو ذبح کيا ہے
لوگ خواب کيا، حقيقت ميں ديکھتے ہيں کہ وہ نعرہ تکبير لگاتے ہوئے اللہ کا نام لے کر معصوموں کے گلے ذبح کر رہے ہوتے ہيں

نجانے لوگ ان خوابوں کي دنيا سے نکل کے ان حقيقتوں کا ادراک کب کريں گے

******************

اور اس طالباني خواب کا تامل ٹائگرز کي تحريک سے کيا تعلق؟

*****************

اور کشمير کي تحريک کي تو آپ نے پاک فوج کي سازش قرار دے ديا
اور حزب اللہ کي تحريک کو آپ نے اسرائيلي سازش قرار دے ديا
اور حماس کے ساتھ بھي يہي سلوک کيا
اور چچين اور بوسنيا کي تحريکوں کا بھي يہي حال کيا

مگر تامل ٹائگرز ہيرو ہيں؟

واللہ آپ کيوں ايسے ہو گئے ہيں کہ ہاتھ دھو کر پيچھے پڑ جاتے ہيں؟
 

خرم

محفلین
بات اکثریت اور اقلیت کی نہیں‌ہوتی۔ بات انصاف کی ہوتی ہے۔ اگر کسی کو بھی کہیں پر بھی انصاف ملتا ہے، یکساں مواقع ملتے ہیں‌زندگی میں آگے بڑھنے کے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اکثریت اقلیت کی بات وہیں ہوتی ہے جہاں انصاف کی فراہمی کبھی ایک بنا پر تو کبھی دوسری بنا پر ناممکن بنا دی جاتی ہے۔ گستاخی معاف لیکن پھر امریکہ کی ہی مثال دینا پڑتی ہے۔ دنیا جہاں کے لوگ اس ملک میں آباد ہیں لیکن اپنی جہد مسلسل سے وہ اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں‌ملکی سطح پر کوئی بھی اقلیت یہ دعوٰی نہیں‌کرسکتی کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے صرف ایک بنا پر یا دوسری وجہ سے۔ اگر آپ ایک منصف مزاج سماج تشکیل دے لیتے ہیں‌تو نہ کوئی لبریشن آرمی بنے گی اور نہ کوئی ظالمان۔
 
ہمت برادر، اگر کسي نے ايسا خواب ديکھ بھي ليا ہے تو ايسے خواب بيان کرتے وقت خيال رکھنا چاہيے کہ کسي کي اس سے دل شکني نہ ہو
مثلا جواب ميں کوئي آپ کو کہے کہ خدانخواستہ يہ خواب اگر آپ نے ديکھ ليا ہوتا تو اس ميں کوئي پنجابي بھي گولي مار رہا ہوتا وغيرہ وغيرہ تو پھر کيا آپ کے دل کو برا نہيں لگتا؟

طالبان نے سيکنڑوں معصوموں کو ذبح کيا ہے
لوگ خواب کيا، حقيقت ميں ديکھتے ہيں کہ وہ نعرہ تکبير لگاتے ہوئے اللہ کا نام لے کر معصوموں کے گلے ذبح کر رہے ہوتے ہيں

نجانے لوگ ان خوابوں کي دنيا سے نکل کے ان حقيقتوں کا ادراک کب کريں گے

******************

اور اس طالباني خواب کا تامل ٹائگرز کي تحريک سے کيا تعلق؟

*****************

اور کشمير کي تحريک کي تو آپ نے پاک فوج کي سازش قرار دے ديا
اور حزب اللہ کي تحريک کو آپ نے اسرائيلي سازش قرار دے ديا
اور حماس کے ساتھ بھي يہي سلوک کيا
اور چچين اور بوسنيا کي تحريکوں کا بھي يہي حال کيا

مگر تامل ٹائگرز ہيرو ہيں؟

واللہ آپ کيوں ايسے ہو گئے ہيں کہ ہاتھ دھو کر پيچھے پڑ جاتے ہيں؟

بیٹی اپ کے سب الزامات اور ذاتیات سے درگزر کرتے ہوئے اگر میری تحریر سے اپکی دلازاری ہوئی ہے تو معذرت۔
اللہ اپ کو اور ہم سب کو حق بات تک پہنچنے اور اسپر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے۔
 
تامل ٹایگرس کی شکست کا آغاز اس سال جولائی میں شمال میں کلانوچی پر فوج کے قبضہ سے ہوا- کلانوچی تامل ٹایگرس کا انتظامی مرکز تھا- اپریل کے شروع میں فوج نے برے پیمانہ پر فضائی قوت استعمال کرتے ہوئے تامل ٹایگرس اور اس کی قیادت کو شمال مشرقی ساحل پر ایک چھوٹی سی پٹی میں دھکیل دیا تھا- اس دوران پربھاکرن نے روائتی جنگ کی جو حکمت عملی اختیار کی اس کی وجہ سے ان کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار اس پٹی پر تینوں سمت سے فوج کے حملہ نے تامل ٹایگرس کو گھٹنے ٹیک دینے اور شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا-
 
سری لنکا ميں تامل اقليت اور سنگھالی اکثريت کے مابين تنازعے کی جڑيں برطانوی نو آبادياتی دور تک پھيلی ہوئی ہيں ۔ برطانوی دور ميں تاملوں کو تعليم کے بہتر مواقع دئے گئے اور انہيں سرکاری محکموں ميں ملازمتوں ميں ترجيح دی گئی ۔ اس وقت تاملوں کی آبادی ، ملک کی مجموعی بيس ملين کی آبادی ميں تقريبا تيرہ فيصد ہے ۔ ان کی اکثريت ہندو ہے ،ليکن بعض مسلمان اور عيسائ بھی ہيں ۔ پچھتر فيصد سنگھاليوں ميں سے اکثريت بدھ مت کی پيروکار ہے ۔آزادی کے بعد ، ماضی ميں ناانصافيوں کے شکار سنگھاليوں نے سماجی اور تعليمی اداروں اور نظام صحت ميں ملازمتوں کے دروازے تاملوں پر بند کردئے ۔ تعليمی اداروں ميں داخلے کے کوٹہ سسٹم کو رائج کرکے بھی تاملوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ۔
 
اب میں‌سمجھا
1030.gif

جنگ

جہاں‌بھی قتل و غارت گری ہوتی ہے پاک فوج سامنے اتی ہے
 

گرائیں

محفلین
جہاں تک میرا علم کام کرتا ہے، آزادی کے بعد سری لنکا میں یہ کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ اقلیت تامل آبادی سری لنکا کے تمام اہم عہدوں پر فائز تھی۔ کیونکہ یہ آبادی تعلیم کے حساب سے سب سے آگے تھی۔ ذریعہ تعلیم انگریزی تھا اور تاملوں نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ اور انگریزوں کےتسلط کے دوران انگریزی زبان سیکھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے فورا بعد نظام مملکت چلانے کو تامل ہی آگے آئے اور یہ بات، ظاہر ہے، اکثریتی سنہالہ آبادی کو پسند نہ تھی۔

آپ خود سوچیں، آپ اکثریت میں ہیں اور آپ کے شہر کی اقلیت آپ پر حکمران بن جائے تو آپ کے کیا محسوسات ہونگے؟

آزادی کے بعد سری لنکا کی حکومت نے بہت کوششیں کیں کہ اس فرق کو ختم کیا جائے اور اس کام کے لئے سنہالہ زبان کو سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم بھی قرار دیا گیا تاکہ اکژیتی آبادی کو بھی مقابلے میں حصہ لینے کا برابر کا موقع ملے، مگر اقلیتی تامل آبادی کو یہ اقدامات تامل دشمن لگے اور چپقلش شروع ہو گئی۔ یہ چپقلش بعد میں ایک خونی جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔۔

اس بات میں مجھے وطن عزیز کے بہت سے معاملات کی مماثلت نظر آئی ہے۔ اللہ خیر کرے۔
 
Top