بشکریہ رفی بھائی ۔۔۔
ہمارے سامنے والے کوارٹر میں جو نئی دلہن آئی تھیں سب انہیں "خالہ ووہٹی" کہہ کر بلانے لگے۔ ایک دن وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آئیں، تو ہم نے پوچھا کہ آپ کے یہ بچے اب کس کے پاس رہتے ہیں تو وہ بہت اداس ہو گئیں اور کہنے لگیں آج میں آپ کو اپنی کہانی سناتی ہوں، وہ یوں گویا ہوئیں:
"میں نے ایک بہت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میرے ماں باپ کے پاس ایک چیز تو بہت وافر مقدار میں تھی اور وہ تھی غربت۔ اس کے علاوہ ہم بہن بھائی بھی زیادہ تھے۔ والدین نے بہت ہی کم عمری میں میری شادی میرے ماموں کے بیٹے کے ساتھ کر دی۔ شادی کے بعد جب بچے ہوئے تو میں بہت مصروف رہنے لگی۔ میرے شوہر کا رویہ میرے ساتھ نہ بہت برا تھا اور نہ بہت اچھا۔ گھر قریب ہونے کی وجہ سے میری بہنیں بھی میرے گھر آتی رہتی تھیں۔ انہی دنوں مجھے احساس ہوا کہ میری چھوٹی بہن کا میرے شوہر کے ساتھ رویہ بدل گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھل مل کر رہتے ہیں لیکن میں نے خود اپنے خیال کو یہ سوچ کر جھٹک دیا کہ مجھے اپنی بہن کے بارے میں سوچتے ہوئے شرم آنی چاہیئے۔ اب آپ اسے میری سادگی کہہ لیں، بے وقوفی سمجھیں یا تقدیر کا ایک فیصلہ کہ میری بہن ہی میری "سوکن" بن گئی۔ میرے شوہر نے یہ کہہ کر مجھے طلاق دے دی کہ ایسا کئے بغیر وہ میری بہن سے شادی نہیں کر سکتے۔ یوں طلاق کا پروانہ لے کر میں اپنے ماں باپ کے گھر آ گئی۔
میرے بھائیوں نے شروع شروع میں تو میرے شوہر اور بہن کو دھمکیاں دیں، بائیکاٹ کیا، خوب جھگڑا ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ سب نے اس نئے رشتے کو قبول کر لیا۔ اب میرے بھائیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہم تمھیں پالیں یا تمھارے بچوں کو۔ یہ کہہ کر انہوں نے میری شادی اس فوجی سے کر دی۔ میرے اس شوہر نے مجھے بہت عزت اور محبت دی اور اب میری بہن یعنی میرے پہلے شوہر کی بیوی یہاں آتی ہے تو رشک اور حسد سے میرے ٹھاٹ باٹ دیکھتی ہے۔"
خالہ ووہٹی جب اپنی بپتا سنا چکیں تو ہم نے کہا کہ خالہ کمال ہے آپ اس بہن کو یہاں آنے دیتی ہیں جس نے آپ کا گھر اجاڑا اور آپ کے سر سے تاج چھین کر خود پہن لیا۔ خیال رکھئے گا کہ کہ وہ آپ کا دوسرا شوہر بھی نہ ہتھیا لے۔
رات کو جب ہمارے شوہر گھر آئے تو ہم نے خالہ ووہٹی کا قصہ انہیں سنایا۔ وہ کہنے لگے کہ یاد ہے بیگم! جب میں نے تمھیں اپنے بڑے بھائی سے پردہ کروایا تھا تو تم کہتی تھیں کہ وہ تو آپ سے بہت بڑے ہیں، باپ کی جگہ ہیں، مہینوں بعد گھر آتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے تمھیں باقی سب نا محرموں کی طرح ان سے بھی پردہ کروا دیا۔ دیکھو ربِ کریم کے ہر حکم میں ہم انسانوں کی بھلائ اور حکمت ہوتی ہے۔ اسی لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان عالی کا مفہوم ہے کہ "شوہر کا بھائی تو موت ہے" گویا اس سے مزید اہتمام کرنا چاہیئے اور بیوی کی بہن یعنی سالی کے لئے بھی کتنا سخت حکم ہے کہ بیوی کی موجودگی میں بیوی کی بہن سے نکاح حرام ہے اور ہم ہیں کہ دینِ فطرت کے باقی احکامات کی طرح نامحرموں سے پردے کو بھی، معاذ اللہ، بس پشت ڈال بیٹھے ہیں اور اپنی مرضی کے رسم و رواج نافذ کر دیئے ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرے میں نا اتفاقی، جھگڑے، فساد اور اپنوں سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اللہ کریم ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مراسلہ: نفیسہ طاہرہ سعیدی (مکہ مکرمہ)
بشکریہ: دھَنک۔ دسمبر 11، 2009
ہمارے سامنے والے کوارٹر میں جو نئی دلہن آئی تھیں سب انہیں "خالہ ووہٹی" کہہ کر بلانے لگے۔ ایک دن وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آئیں، تو ہم نے پوچھا کہ آپ کے یہ بچے اب کس کے پاس رہتے ہیں تو وہ بہت اداس ہو گئیں اور کہنے لگیں آج میں آپ کو اپنی کہانی سناتی ہوں، وہ یوں گویا ہوئیں:
"میں نے ایک بہت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میرے ماں باپ کے پاس ایک چیز تو بہت وافر مقدار میں تھی اور وہ تھی غربت۔ اس کے علاوہ ہم بہن بھائی بھی زیادہ تھے۔ والدین نے بہت ہی کم عمری میں میری شادی میرے ماموں کے بیٹے کے ساتھ کر دی۔ شادی کے بعد جب بچے ہوئے تو میں بہت مصروف رہنے لگی۔ میرے شوہر کا رویہ میرے ساتھ نہ بہت برا تھا اور نہ بہت اچھا۔ گھر قریب ہونے کی وجہ سے میری بہنیں بھی میرے گھر آتی رہتی تھیں۔ انہی دنوں مجھے احساس ہوا کہ میری چھوٹی بہن کا میرے شوہر کے ساتھ رویہ بدل گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت گھل مل کر رہتے ہیں لیکن میں نے خود اپنے خیال کو یہ سوچ کر جھٹک دیا کہ مجھے اپنی بہن کے بارے میں سوچتے ہوئے شرم آنی چاہیئے۔ اب آپ اسے میری سادگی کہہ لیں، بے وقوفی سمجھیں یا تقدیر کا ایک فیصلہ کہ میری بہن ہی میری "سوکن" بن گئی۔ میرے شوہر نے یہ کہہ کر مجھے طلاق دے دی کہ ایسا کئے بغیر وہ میری بہن سے شادی نہیں کر سکتے۔ یوں طلاق کا پروانہ لے کر میں اپنے ماں باپ کے گھر آ گئی۔
میرے بھائیوں نے شروع شروع میں تو میرے شوہر اور بہن کو دھمکیاں دیں، بائیکاٹ کیا، خوب جھگڑا ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ سب نے اس نئے رشتے کو قبول کر لیا۔ اب میرے بھائیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہم تمھیں پالیں یا تمھارے بچوں کو۔ یہ کہہ کر انہوں نے میری شادی اس فوجی سے کر دی۔ میرے اس شوہر نے مجھے بہت عزت اور محبت دی اور اب میری بہن یعنی میرے پہلے شوہر کی بیوی یہاں آتی ہے تو رشک اور حسد سے میرے ٹھاٹ باٹ دیکھتی ہے۔"
خالہ ووہٹی جب اپنی بپتا سنا چکیں تو ہم نے کہا کہ خالہ کمال ہے آپ اس بہن کو یہاں آنے دیتی ہیں جس نے آپ کا گھر اجاڑا اور آپ کے سر سے تاج چھین کر خود پہن لیا۔ خیال رکھئے گا کہ کہ وہ آپ کا دوسرا شوہر بھی نہ ہتھیا لے۔
رات کو جب ہمارے شوہر گھر آئے تو ہم نے خالہ ووہٹی کا قصہ انہیں سنایا۔ وہ کہنے لگے کہ یاد ہے بیگم! جب میں نے تمھیں اپنے بڑے بھائی سے پردہ کروایا تھا تو تم کہتی تھیں کہ وہ تو آپ سے بہت بڑے ہیں، باپ کی جگہ ہیں، مہینوں بعد گھر آتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے تمھیں باقی سب نا محرموں کی طرح ان سے بھی پردہ کروا دیا۔ دیکھو ربِ کریم کے ہر حکم میں ہم انسانوں کی بھلائ اور حکمت ہوتی ہے۔ اسی لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان عالی کا مفہوم ہے کہ "شوہر کا بھائی تو موت ہے" گویا اس سے مزید اہتمام کرنا چاہیئے اور بیوی کی بہن یعنی سالی کے لئے بھی کتنا سخت حکم ہے کہ بیوی کی موجودگی میں بیوی کی بہن سے نکاح حرام ہے اور ہم ہیں کہ دینِ فطرت کے باقی احکامات کی طرح نامحرموں سے پردے کو بھی، معاذ اللہ، بس پشت ڈال بیٹھے ہیں اور اپنی مرضی کے رسم و رواج نافذ کر دیئے ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرے میں نا اتفاقی، جھگڑے، فساد اور اپنوں سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اللہ کریم ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مراسلہ: نفیسہ طاہرہ سعیدی (مکہ مکرمہ)
بشکریہ: دھَنک۔ دسمبر 11، 2009