ملک ارسلان
محفلین
مذکورہ بالا دلائل کا جواب
یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔پرے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں۔
جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے ،وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔جب کہ دوسرے فریق کو ئی دلائل نہیں مل سکے،لہذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہو گی۔
یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں،پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔
*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں:
ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے،چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔بصرت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جوازخود ظاہر ہو جائے" کی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النورآیت :31)
اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرارپائے،اس پر عمل کیا جائے۔
یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔پرے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں۔
جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے ،وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔جب کہ دوسرے فریق کو ئی دلائل نہیں مل سکے،لہذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہو گی۔
یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں،پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔
*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں:
ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے،چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔بصرت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جوازخود ظاہر ہو جائے" کی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النورآیت :31)
اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرارپائے،اس پر عمل کیا جائے۔