عبد الرحمٰن
محفلین
باپ نے بیٹے کو امریکہ بھیجا جو وہاں رہائش پذیر ہو گیا
کچھ عرصے بعد باپ نے بیٹے کو خط لکھا اور پوچھا کہ بیٹا
امریکہ کیسا لگا ؟ تو بیٹے نے خط کا جواب کچھ ایسے دیا ۔
محترم والد صاحب !
آپ نے پوچھا ہے کہ مجھے امریکہ کیسا لگا ؟ یہاں زمین ہموار
نہیں ، موسم کا اعتبار نہیں ، لڑکی وفادار نہیں ، مذہب سے سروکار نہیں ، خلوص سے ہمکنار نہیں ، بدلنے کو تیار نہیں
وقت مدد گار نہیں ، حالات سازگار نہیں ، خدا کا شکرگزار
نہیں ، غرض یہ کہ امریکہ کوئی شاہکار نہیں ۔
مگر ان کی چند اچھی باتیں ہیں ۔
رسومات کا مینار نہیں ، ، سڑک پر غبار
نہیں ، بھکاری کا دیدار نہیں ، نلوں پر قطار نہیں ، کوئی
شخص بیکار نہیں ، پابندی وقت دشوار نہیں ، تعلیم لا معیار
نہیں ، ایجادات کا شمار نہیں ، کوئی کسی سے خوار نہیں ۔
ان کی چند چیزیں البتہ دل کو کھٹکتی ہیں مثلا غذا مزیدار
نہیں ، کھانے میں اچار نہیں ، گھی کا بگار نہیں ، قورمے میں
تار نہیں ، چوڑیوں کی جھنکار نہیں ، سب سے بڑی بوریت
اردو کا اخبار نہیں ، داتا کا دربار نہیں ، قائد کا مزار نہیں ۔
فقط آپ کا گرین کارڈ ہولڈر بیٹا
کچھ عرصے بعد باپ نے بیٹے کو خط لکھا اور پوچھا کہ بیٹا
امریکہ کیسا لگا ؟ تو بیٹے نے خط کا جواب کچھ ایسے دیا ۔
محترم والد صاحب !
آپ نے پوچھا ہے کہ مجھے امریکہ کیسا لگا ؟ یہاں زمین ہموار
نہیں ، موسم کا اعتبار نہیں ، لڑکی وفادار نہیں ، مذہب سے سروکار نہیں ، خلوص سے ہمکنار نہیں ، بدلنے کو تیار نہیں
وقت مدد گار نہیں ، حالات سازگار نہیں ، خدا کا شکرگزار
نہیں ، غرض یہ کہ امریکہ کوئی شاہکار نہیں ۔
مگر ان کی چند اچھی باتیں ہیں ۔
رسومات کا مینار نہیں ، ، سڑک پر غبار
نہیں ، بھکاری کا دیدار نہیں ، نلوں پر قطار نہیں ، کوئی
شخص بیکار نہیں ، پابندی وقت دشوار نہیں ، تعلیم لا معیار
نہیں ، ایجادات کا شمار نہیں ، کوئی کسی سے خوار نہیں ۔
ان کی چند چیزیں البتہ دل کو کھٹکتی ہیں مثلا غذا مزیدار
نہیں ، کھانے میں اچار نہیں ، گھی کا بگار نہیں ، قورمے میں
تار نہیں ، چوڑیوں کی جھنکار نہیں ، سب سے بڑی بوریت
اردو کا اخبار نہیں ، داتا کا دربار نہیں ، قائد کا مزار نہیں ۔
فقط آپ کا گرین کارڈ ہولڈر بیٹا