الشفاء
لائبریرین
وہ ایک عجیب جنگل تھا۔ ایک گھنا اور وسیع جنگل ۔ جس میں ہم دوڑے چلے جا رہے تھے۔۔۔ عجیب بات یہ تھی کہ ہمیں احساس ہی نہیں تھا کہ ہم اس جنگل میں کیوں بھاگ رہے ہیں۔ ایک خود فراموشی کا عالم ہم پر چھایا ہوا تھا۔۔۔ جب کبھی کسی درندے سے مڈبھیڑ ہو جاتی تو ہم ایک دم ساکت ہو جاتے اور کنی کتراتے ہوئے نکلنے کی کوشش کرتے۔ کچھ درندے تو ہماری حالت پر رحم کھاتے ہمیں نظر انداز کر دیتے لیکن کچھ غرّا کر ایک آدھ پنجہ ہمارے دامن پر جڑ دیتے۔ جس کی ٹیس تھوڑی دیر تک ہمیں تڑپاتی۔ لیکن پھر ہم دوبارہ اپنا سفر شروع کر دیتے۔۔۔
جنگل میں کہیں کہیں دوسرے جانور ، خوبصورت چہچہاتے پرندے ، جھیلیں اور تالاب بھی نظر آ جاتے۔ اور بعض اوقات ہم ان دل کش مقامات پر رک کر قدرت کی صناعی سے لطف اندوز بھی ہوتے۔ لیکن پھر اچانک اپنے اندر کے اضطراب سے بے چین ہو کر آگے چل پڑتے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں شدید تھکن کا احساس ہوا۔ آس پاس نگاہ دوڑائی تو ایک درخت کے نیچے نسبتاً صاف جگہ دیکھ کر درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئے۔۔۔
جب اوسان تھوڑا بحال ہوئے تو سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں بھاگے جا رہے ہیں؟؟؟ تھکاوٹ اور کمزوری تو تھی ہی۔ پلکیں بوجھل ہونے لگیں۔۔۔ اچانک کچھ پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی اور ہماری نگاہیں سیدھی سامنے والے درخت پر جا ٹکیں۔ جہاں ایک پنچھی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ایک عجیب اور خوبصورت پنچھی۔۔۔ اتنا بڑا اور خوبصورت پنچھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے غور سے اس کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔۔۔ اس کی ہیئت وحرکات سے لگ رہا تھا کہ یہ پنچھی اس جنگل کا باسی نہیں ہے بلکہ کہیں دور سےآیا ہے اور اس جنگل میں پھنس گیا ہے۔۔۔ اس کے اندر کی بے چینی اس کی حرکات سے ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر کسی ایک درخت پر بیٹھتا پھر اڑ کر کسی دوسرے درخت پر جا بیٹھتا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ درخت تبدیل کرنے سے اس چہرے کے تاثرات بھی تبدیل ہو جاتے۔ کسی درخت پر بیٹھنے سے یوں لگتا کہ وہ وحشت و اضطراب کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کسی دوسرے درخت پر بیٹھتے ہی اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے۔۔۔
نہ جانے کیوں ہمارا دل چاہنے لگا کہ اس پنچھی سے باتیں کریں ۔ اس سے پوچھیں کہ یہ کیوں پریشان ہے۔ اس خیال کے آتے ہی ہم نے پنچھی کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کی ٹھانی۔ اور آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھنے لگے۔ پنچھی کو بھی ہماری موجودگی کا احساس ہو چکا تھا کیونکہ اس کی نظریں بھی ہماری ہی طرف لگی ہوئی تھیں۔ یہ کام کچھ زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جی ہاں ہم پنچھی سے باتیں کر رہے تھے ۔ بغیر آواز و حروف کے۔۔۔
جب بھی ہم کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتے ، پنچھی ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کا جواب دینے لگتا۔ ان کہے الفاظ اور ان کہی باتوں کے جواب۔۔۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پنچھی ہمارے دل میں اٹھنے والے جذبات ، ہماری زبان تک آنے والے ان کہے الفاظ ، ہمارے کانوں میں ہونے والی مدھم سرگوشیوں، ہمارے ذہن میں اٹھنے والے افکار اور ہماری آنکھ میں اترنے والی نمی سے بھی بخوبی واقف ہے۔۔۔
اب پنچھی سے گفتگو میں مزا آنے لگا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر پنچھی نے بتایا کہ وہ اس جنگل کا رہنے والا نہیں۔ بلکہ کہیں بہت دور سے یہاں آیا ہے اور اب اپنے وطن جانے کے لئے بے چین ہے۔ لیکن اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ وطن کی یاد آتے ہی پنچھی کو اپنے بے شمار دوست یاد آنے لگے جو اب اس سے بچھڑ گئے تھے۔ اور ان سب دکھوں سے بڑھ کر ایک دکھ پنچھی کو اپنے محبوب سے جدا ہو جانے کا تھا۔۔۔ محبوب کی یاد آتے ہی پنچھی کے دل سے ایک آہ نکلی اور وہ اپنے وطن اور اپنے محبوب کی یادوں میں گم ہوتا چلا گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں کی نمی سے چمکنے لگیں۔ اور ان چمکتی آنکھوں کے آئینے میں اس کی یادیں ایک فلم طرح چلتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھیں۔۔۔
وہ اڑتا چلا جا رہا تھا، ہواؤں اور فضاؤں کو چیرتا ہوا، اپنے محبوب سے ملنے کے شوق میں والہانہ اور بے تکان اڑتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ نہ جانے اس نے کتنے بادلوں کو چیرا ، کتنی منزلیں طے کیں اور پھر اچانک وہ ایک فضائے بسیط میں داخل ہو گیا۔ صاف شفاف ، پرسکون ماحول میں ہر طرف ایک دودھیا روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ پنچھی کے اس ماحول میں داخل ہوتے ہی اس دودھیا روشنی میں ہلکی سی لرزش ہوئی۔ تو پتا چلا کہ وہ صرف روشنی نہ تھی بلکہ وہ پنچھی کے دوست تھے، لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں پنچھی ، پردیسی پنچھی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔اس ہلکی سی لرزش کے بعد وہ روشنی پھر ساکت ہو گئی۔۔۔
تاحد نگاہ ، صف در صف ، حلقہ در حلقہ بے شمار پنچھی وہاں موجود تھے جو چہرے اٹھائے مبہوت انداز میں اوپر تکے جا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے لاتعداد مجنوں ، محبوب کے دروازے پر آنکھوں کے کشکول لئے دیدار کی بھیک مانگ رہے ہوں۔۔۔ اچانک ایک آواز آئی۔ کانوں میں رس گھولتی آواز ، جذبات کو بر انگیختہ کرتی ، موسیقیت کو شرمندہ کرتی ، ہیبت کو پکارتی ، وجد کو جگاتی اور عقل کو حیران کرتی ہوئی اس آواز نے پنچھیوں کو سراپا گوش بنا دیا۔ یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ آواز میں جمال زیادہ ہے یا جلال۔ پنچھیوں کا ایک ایک عضو کان بن کر اس آواز کو اپنے اندر سمو لینے کے بے چین ہو گیا تھا۔۔۔ اس آواز میں ایک سوال تھا ۔ ایک مختصر سا سوال ۔ الستُ بربکم؟ کیا میں تمہارا رب نہیں؟؟؟ اس سوال نے پوری فضائے بسیط کو ہلا کر رکھ دیا ۔ پنچھیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ کچھ کو آواز کے ترنم اور جمال نے مد ہوش کر دیا تو کئی سوال کی ہیبت اور جلال کے زیر اثر سجدہ ریز ہو گئے۔۔۔ اس ایک سوال میں کتنے ہی سوال پوشیدہ تھے۔ اور ہر پنچھی اپنے حال کے مطابق اس سے پوچھے گئے سوال کو بخوبی سمجھ رہا تھا۔۔۔ آواز کی بازگشت ابھی پوری طرح تھمی نہ تھی کہ اچانک ایک بھنبھناہٹ سی شروع ہوئی جو آہستہ آہستہ شور میں بدلنے لگی۔۔۔ پنچھی سوال کا جواب دے رہے تھے۔ ان کی زبانیں گنگ اور منہ بند تھے لیکن اعضائے بدن کے ایک ایک مسام سے، بدن پر لگے ایک ایک پر سے اور پروں پر لگے ایک ایک بال سے یہی صدا آ رہی تھی۔ بلٰی ، وربنا ۔ کیوں نہیں، تُو ہی تو ہمارا رب ہے ، تو ہی ہمارا مولا ہے ، تو ہی ہمارا پالن ہار ، ہمارا دوست، ہمارا محبوب ، ہمارا دلبر ، ہمارے دل کا سُرور ، ہماری آنکھوں کا نور ، ہمارے قلب کی بہار اور ہماری جاں کا قرار ہے۔ ان کے جسم کا رُواں رُواں شوق لقاء میں اپنے محبوب کو پکار رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ آواز غائب ہو گئی تھی، بازگشت تھم چکی تھی اور پنچھی سر تا پا "ایں کرم بار دگر کن" کی تصویر بنے مبہوت انداز میں اوپر تکے جا رہے تھے۔۔۔ اچانک ایک سلگتا ہوا قطرہ ہماے ہاتھ کی پشت پر آ کر گرا ۔ اور ہم نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ ہم درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اور پنچھی کے آنسو ہماری آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔
جنگل میں کہیں کہیں دوسرے جانور ، خوبصورت چہچہاتے پرندے ، جھیلیں اور تالاب بھی نظر آ جاتے۔ اور بعض اوقات ہم ان دل کش مقامات پر رک کر قدرت کی صناعی سے لطف اندوز بھی ہوتے۔ لیکن پھر اچانک اپنے اندر کے اضطراب سے بے چین ہو کر آگے چل پڑتے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں شدید تھکن کا احساس ہوا۔ آس پاس نگاہ دوڑائی تو ایک درخت کے نیچے نسبتاً صاف جگہ دیکھ کر درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئے۔۔۔
جب اوسان تھوڑا بحال ہوئے تو سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں بھاگے جا رہے ہیں؟؟؟ تھکاوٹ اور کمزوری تو تھی ہی۔ پلکیں بوجھل ہونے لگیں۔۔۔ اچانک کچھ پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی اور ہماری نگاہیں سیدھی سامنے والے درخت پر جا ٹکیں۔ جہاں ایک پنچھی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ایک عجیب اور خوبصورت پنچھی۔۔۔ اتنا بڑا اور خوبصورت پنچھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے غور سے اس کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔۔۔ اس کی ہیئت وحرکات سے لگ رہا تھا کہ یہ پنچھی اس جنگل کا باسی نہیں ہے بلکہ کہیں دور سےآیا ہے اور اس جنگل میں پھنس گیا ہے۔۔۔ اس کے اندر کی بے چینی اس کی حرکات سے ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر کسی ایک درخت پر بیٹھتا پھر اڑ کر کسی دوسرے درخت پر جا بیٹھتا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ درخت تبدیل کرنے سے اس چہرے کے تاثرات بھی تبدیل ہو جاتے۔ کسی درخت پر بیٹھنے سے یوں لگتا کہ وہ وحشت و اضطراب کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کسی دوسرے درخت پر بیٹھتے ہی اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے۔۔۔
نہ جانے کیوں ہمارا دل چاہنے لگا کہ اس پنچھی سے باتیں کریں ۔ اس سے پوچھیں کہ یہ کیوں پریشان ہے۔ اس خیال کے آتے ہی ہم نے پنچھی کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کی ٹھانی۔ اور آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھنے لگے۔ پنچھی کو بھی ہماری موجودگی کا احساس ہو چکا تھا کیونکہ اس کی نظریں بھی ہماری ہی طرف لگی ہوئی تھیں۔ یہ کام کچھ زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جی ہاں ہم پنچھی سے باتیں کر رہے تھے ۔ بغیر آواز و حروف کے۔۔۔
جب بھی ہم کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتے ، پنچھی ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کا جواب دینے لگتا۔ ان کہے الفاظ اور ان کہی باتوں کے جواب۔۔۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پنچھی ہمارے دل میں اٹھنے والے جذبات ، ہماری زبان تک آنے والے ان کہے الفاظ ، ہمارے کانوں میں ہونے والی مدھم سرگوشیوں، ہمارے ذہن میں اٹھنے والے افکار اور ہماری آنکھ میں اترنے والی نمی سے بھی بخوبی واقف ہے۔۔۔
اب پنچھی سے گفتگو میں مزا آنے لگا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر پنچھی نے بتایا کہ وہ اس جنگل کا رہنے والا نہیں۔ بلکہ کہیں بہت دور سے یہاں آیا ہے اور اب اپنے وطن جانے کے لئے بے چین ہے۔ لیکن اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ وطن کی یاد آتے ہی پنچھی کو اپنے بے شمار دوست یاد آنے لگے جو اب اس سے بچھڑ گئے تھے۔ اور ان سب دکھوں سے بڑھ کر ایک دکھ پنچھی کو اپنے محبوب سے جدا ہو جانے کا تھا۔۔۔ محبوب کی یاد آتے ہی پنچھی کے دل سے ایک آہ نکلی اور وہ اپنے وطن اور اپنے محبوب کی یادوں میں گم ہوتا چلا گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں کی نمی سے چمکنے لگیں۔ اور ان چمکتی آنکھوں کے آئینے میں اس کی یادیں ایک فلم طرح چلتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھیں۔۔۔
وہ اڑتا چلا جا رہا تھا، ہواؤں اور فضاؤں کو چیرتا ہوا، اپنے محبوب سے ملنے کے شوق میں والہانہ اور بے تکان اڑتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ نہ جانے اس نے کتنے بادلوں کو چیرا ، کتنی منزلیں طے کیں اور پھر اچانک وہ ایک فضائے بسیط میں داخل ہو گیا۔ صاف شفاف ، پرسکون ماحول میں ہر طرف ایک دودھیا روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ پنچھی کے اس ماحول میں داخل ہوتے ہی اس دودھیا روشنی میں ہلکی سی لرزش ہوئی۔ تو پتا چلا کہ وہ صرف روشنی نہ تھی بلکہ وہ پنچھی کے دوست تھے، لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں پنچھی ، پردیسی پنچھی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔اس ہلکی سی لرزش کے بعد وہ روشنی پھر ساکت ہو گئی۔۔۔
تاحد نگاہ ، صف در صف ، حلقہ در حلقہ بے شمار پنچھی وہاں موجود تھے جو چہرے اٹھائے مبہوت انداز میں اوپر تکے جا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے لاتعداد مجنوں ، محبوب کے دروازے پر آنکھوں کے کشکول لئے دیدار کی بھیک مانگ رہے ہوں۔۔۔ اچانک ایک آواز آئی۔ کانوں میں رس گھولتی آواز ، جذبات کو بر انگیختہ کرتی ، موسیقیت کو شرمندہ کرتی ، ہیبت کو پکارتی ، وجد کو جگاتی اور عقل کو حیران کرتی ہوئی اس آواز نے پنچھیوں کو سراپا گوش بنا دیا۔ یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ آواز میں جمال زیادہ ہے یا جلال۔ پنچھیوں کا ایک ایک عضو کان بن کر اس آواز کو اپنے اندر سمو لینے کے بے چین ہو گیا تھا۔۔۔ اس آواز میں ایک سوال تھا ۔ ایک مختصر سا سوال ۔ الستُ بربکم؟ کیا میں تمہارا رب نہیں؟؟؟ اس سوال نے پوری فضائے بسیط کو ہلا کر رکھ دیا ۔ پنچھیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ کچھ کو آواز کے ترنم اور جمال نے مد ہوش کر دیا تو کئی سوال کی ہیبت اور جلال کے زیر اثر سجدہ ریز ہو گئے۔۔۔ اس ایک سوال میں کتنے ہی سوال پوشیدہ تھے۔ اور ہر پنچھی اپنے حال کے مطابق اس سے پوچھے گئے سوال کو بخوبی سمجھ رہا تھا۔۔۔ آواز کی بازگشت ابھی پوری طرح تھمی نہ تھی کہ اچانک ایک بھنبھناہٹ سی شروع ہوئی جو آہستہ آہستہ شور میں بدلنے لگی۔۔۔ پنچھی سوال کا جواب دے رہے تھے۔ ان کی زبانیں گنگ اور منہ بند تھے لیکن اعضائے بدن کے ایک ایک مسام سے، بدن پر لگے ایک ایک پر سے اور پروں پر لگے ایک ایک بال سے یہی صدا آ رہی تھی۔ بلٰی ، وربنا ۔ کیوں نہیں، تُو ہی تو ہمارا رب ہے ، تو ہی ہمارا مولا ہے ، تو ہی ہمارا پالن ہار ، ہمارا دوست، ہمارا محبوب ، ہمارا دلبر ، ہمارے دل کا سُرور ، ہماری آنکھوں کا نور ، ہمارے قلب کی بہار اور ہماری جاں کا قرار ہے۔ ان کے جسم کا رُواں رُواں شوق لقاء میں اپنے محبوب کو پکار رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ آواز غائب ہو گئی تھی، بازگشت تھم چکی تھی اور پنچھی سر تا پا "ایں کرم بار دگر کن" کی تصویر بنے مبہوت انداز میں اوپر تکے جا رہے تھے۔۔۔ اچانک ایک سلگتا ہوا قطرہ ہماے ہاتھ کی پشت پر آ کر گرا ۔ اور ہم نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ ہم درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اور پنچھی کے آنسو ہماری آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔