ڈاکٹر بلند اقبال
محفلین
پردے جو نفرتوں کے تھے۔۔۔ تحریر ڈا
پردے جو نفرتوں کے تھے۔۔۔ مختصر علامتی افسانہ: ڈاکٹر بلند اقبال
ہارمونیم کے پردوں کے پیچھے چھپا ہوا میٹھا سُر جنم جنم سے ان دیکھی مشتاق انگلیوں کا منتظر تھا۔۔ انگلیاں جو بولتی ہو، انگلیاں جو دیکھتی ہو، انگلیاں جو ہنستی ہو ، انگلیاں جو روتی ہو۔۔۔انگلیاں جو ڈھولک کی تھاپ ، سارنگی کے سُراور با نسری کی لے کے ساتھ ہارمونیم کے اُس میٹھے سُر کو کچھ اس طرح سے ملا دے کہ ایک ایسا سنگیت جنم لے کہ جس کی ہر تان ایک دیپک ہو۔
مگر ۔۔بادل گزرتے رہے، سورج اُبھرتا ڈوبتا رہا اور موسم بدلتے رہے۔۔ سا رنگی ہارمونیم کے میٹھے سُر کے لیے ترستی رہی، بانسری کی لے ڈھولک کی تھاپ کے انتظار میں روتی رہی ۔۔۔ ہارمویم کا سچا سُر کہیں کھوگیا تھا ، سنگیت بنا جنم لیے مر رہا تھا۔
بلاخر تھک ہار کر ایک رات کے پچھلے پہر کچھ انگلیاں ہارمونیم کے پردوں پر سر سرائی، ہارمونیم کے سوئے ہوئے میٹھے سُر نے نیند کی آغوش میں کروٹ لی، اور پھر دھیمے سے ڈھولک کی تھاپ کے کان میں کچھ ایسی بات کہی کہ ڈھولک کی تھاپ اک دم شرما سی گئی اور پھر بانسری کی لے کے ساتھ کسی ناچتی ناگن کی طرح بل کھا کر اُٹھی۔
مگر اس سے پہلے کہ سنگیت کی جل ترنگ فضاوں میں گنگناتی
ہارمونیم کا میٹھا سُر معصوم روتے ہوئے بچوں کی آوازوں میں کراہنے لگا۔ ڈھولک کی تھاپ ماوَں کے سینے کوٹتے ہوئے بے ہنگم شور میں بدلنے لگی۔ سارنگی سے نکلتے ہوئے سُر ہوائی جہازوں کی بے سُری چنگہاڑتی ہوئی آوازوں سے کانپنے لگے۔ بانسری کی لے روتے ہوئے گیدڑوں کی آوازوں میں ڈھلنے لگی۔ سنگیت نوحہ بننے لگا ۔ ہر طرف دھواں دھواں ہونے لگا۔ سُر رو رہا تھا اور سنگیت مر رہا تھا۔
اور پھر سُر نے روتے ہوئے اُن مشتاق انگلیوں کی طرف دیکھا جو ہارمونیم پر ناچ رہی تھیں۔۔۔۔انگلیاں ۔۔ جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔۔ انگلیاں جو درد کے قصے بانٹتی تھیں۔۔ انگلیاں جو زندگیوں میں عزاب بن کر ناچتی تھیں۔۔ انگلیاں جو عزتیں بھمبھو ڑتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو گولیاں چلاتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو بم گراتیں تھیں۔۔ انگلیاں جو زیست کے نوالے بناتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو خون چاتتی تھیں۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
اور پھر تھک ہار کر ڈھولک نے ہارمونیم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سارنگی روتے روتے سوگئی۔ سُر پھر سے ہارمونیم کے پردوں میں چھپ گیا۔
اُس چاندنی رات کے پچھلے پہر ہر سو موت کی سی خاموشی تھی۔
۔۔۔۔ کچھ لمحوں کے بعد ہارمونیم پر جمی انگلیاں دھیمے سے سر سرائی اور آ ہستگی سے ہارمونیم کے پردوں کو تکنے لگی۔پردے۔۔۔ جو نفرتوں کے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردے جو نفرتوں کے تھے۔۔۔ مختصر علامتی افسانہ: ڈاکٹر بلند اقبال
ہارمونیم کے پردوں کے پیچھے چھپا ہوا میٹھا سُر جنم جنم سے ان دیکھی مشتاق انگلیوں کا منتظر تھا۔۔ انگلیاں جو بولتی ہو، انگلیاں جو دیکھتی ہو، انگلیاں جو ہنستی ہو ، انگلیاں جو روتی ہو۔۔۔انگلیاں جو ڈھولک کی تھاپ ، سارنگی کے سُراور با نسری کی لے کے ساتھ ہارمونیم کے اُس میٹھے سُر کو کچھ اس طرح سے ملا دے کہ ایک ایسا سنگیت جنم لے کہ جس کی ہر تان ایک دیپک ہو۔
مگر ۔۔بادل گزرتے رہے، سورج اُبھرتا ڈوبتا رہا اور موسم بدلتے رہے۔۔ سا رنگی ہارمونیم کے میٹھے سُر کے لیے ترستی رہی، بانسری کی لے ڈھولک کی تھاپ کے انتظار میں روتی رہی ۔۔۔ ہارمویم کا سچا سُر کہیں کھوگیا تھا ، سنگیت بنا جنم لیے مر رہا تھا۔
بلاخر تھک ہار کر ایک رات کے پچھلے پہر کچھ انگلیاں ہارمونیم کے پردوں پر سر سرائی، ہارمونیم کے سوئے ہوئے میٹھے سُر نے نیند کی آغوش میں کروٹ لی، اور پھر دھیمے سے ڈھولک کی تھاپ کے کان میں کچھ ایسی بات کہی کہ ڈھولک کی تھاپ اک دم شرما سی گئی اور پھر بانسری کی لے کے ساتھ کسی ناچتی ناگن کی طرح بل کھا کر اُٹھی۔
مگر اس سے پہلے کہ سنگیت کی جل ترنگ فضاوں میں گنگناتی
ہارمونیم کا میٹھا سُر معصوم روتے ہوئے بچوں کی آوازوں میں کراہنے لگا۔ ڈھولک کی تھاپ ماوَں کے سینے کوٹتے ہوئے بے ہنگم شور میں بدلنے لگی۔ سارنگی سے نکلتے ہوئے سُر ہوائی جہازوں کی بے سُری چنگہاڑتی ہوئی آوازوں سے کانپنے لگے۔ بانسری کی لے روتے ہوئے گیدڑوں کی آوازوں میں ڈھلنے لگی۔ سنگیت نوحہ بننے لگا ۔ ہر طرف دھواں دھواں ہونے لگا۔ سُر رو رہا تھا اور سنگیت مر رہا تھا۔
اور پھر سُر نے روتے ہوئے اُن مشتاق انگلیوں کی طرف دیکھا جو ہارمونیم پر ناچ رہی تھیں۔۔۔۔انگلیاں ۔۔ جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔۔ انگلیاں جو درد کے قصے بانٹتی تھیں۔۔ انگلیاں جو زندگیوں میں عزاب بن کر ناچتی تھیں۔۔ انگلیاں جو عزتیں بھمبھو ڑتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو گولیاں چلاتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو بم گراتیں تھیں۔۔ انگلیاں جو زیست کے نوالے بناتی تھیں ۔۔ انگلیاں جو خون چاتتی تھیں۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
اور پھر تھک ہار کر ڈھولک نے ہارمونیم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سارنگی روتے روتے سوگئی۔ سُر پھر سے ہارمونیم کے پردوں میں چھپ گیا۔
اُس چاندنی رات کے پچھلے پہر ہر سو موت کی سی خاموشی تھی۔
۔۔۔۔ کچھ لمحوں کے بعد ہارمونیم پر جمی انگلیاں دھیمے سے سر سرائی اور آ ہستگی سے ہارمونیم کے پردوں کو تکنے لگی۔پردے۔۔۔ جو نفرتوں کے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔