محمد خرم یاسین
محفلین
" پرمیشر سنگھ"اورہجرت کی نفسیات(تجزیاتی مطالعہ )۔۔۔ محمد خرم یاسین
احمد ندیم قاسمی اردوادب کے ہمہ جہت اور مشاق ادبامیں شامل رہے۔وہ بیک وقت نہ صرف اچھےافسانہ نگار تھے بل کہ انھوں نےشاعری ، تنقید، ادارت اور صحافت میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ان کے افسانے زندگی کے ترجمان اور حقیقت نگاری کی عمدہ روایت کا مظہر ہیں ۔ انھو ں نے اردو ادب کو سولہ (۱۶)بہترین افسانوی مجموعے دیے جب کہ دس ایسے شعری مجموعے تخلیق کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ یوں بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی ساری زندگی پرورشِ لوح و قلم ہی سے تعبیر رہی۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تلخ و شیریں حقائق سے مواد کشید کیا اور ادب کے سانچے میں ڈھالا ۔ ان کے افسانے جہاں ایک جانب دیہاتی معاشرت کے نمائندگی کرتے ہیں ،وہیں ان میں مابعد جدیدیت ایسے جدید دنیا کے مسائل، ہجر ت کے غم و مصائب، انسانی اقدار کا بحران ،روشن روایات کی پامالی، فکرِ معاش سے جنم لیتی نفسیاتی شکست و ریخت اور جذباتی کشمکش وغیرہ بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ان کے بیش تر افسانوں کا مادہ انسان دوستی سے پھوٹتا ہے اور لاشعوری تعلق امن، رواداری اورعدل و انصاف سے جڑتا ہے۔ان کا ایک ایسا ہی افسانہ " پرمیشر سنگھ" ہے جو ہجرت سے جڑے گہرے غم و اندوہ، تشخص کی تلاش ، انسان دوستی ، مذہب اورمعاشرے کی گہری وابستگی کو ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ یہ افسانہ جس کا تعلق برصغیر کی تقسیم سے ہے، اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں بعد از تقسیم کے مسائل کوجغرافیائی حدود سے بلند ہو کر انسانی نفسیاتی سطح پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انھوں نے تقسیم اور اس کے مصائب پر اور بھی افسانے تخلیق کیے ہیں جن میں "نیا فرہاد"، "اندمال"، :"کفن دفن"، "ارتقا"، "تسکین"، "فساد"، "میں انسان ہوں" اور "جب بادل امڈ آئے" شامل ہیں۔
"پرمیشر سنگھ" کا پلاٹ سادہ ہے اور اہم کرداروں میں پرمیشر سنگھ ، اس کی بیگم بنتو، بیٹی امرکور اور مسلمان بچہ اختر شامل ہیں۔تمام کردار شدید ذہنی اضطراب، الجھن اور کرداری دوہریت کا شکار ہیں ۔ تمام تر نفسیاتی الجھنیں چوں کہ ہجرت سے منسلک ہیں اس لیے اس افسانے کے کرداروں کے رویے نفسیات کی رو سے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے تحت سمجھے جاسکتے ہیں جس میں ذہنی صحت کے مسائل جن میں تناؤ (ٹینشن)دباؤ(ڈپریشن)، غیر ضروری حساسیت، چڑ چڑا پن، بدلہ لینے کے شدید جذبات، غم اور سوگ، ثقافتی شناخت کا بحران یا تشخص کے مسائل اور رویوں کی تبدیلی کا انسلاک کسی ناگوار یا صدماتی واقعے کا تجربہ کرنے یا اسے دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
پرمیشر سنگھ پاکستان سے ہجرت کر کے بھارتی پہنچنے والے ا ن بد نصیب مہاجرین میں سے ایک ہے جس کا پیارا بیٹا کرتار سنگھ ہجرت کی بھگ دڑمیں بچھڑ چکا ہے جب کہ اختر ان بدنصیب بچوں میں سے ایک ہے جس کے والدین ہجرت کے ہنگاموں میں اس سے بچھڑ چکے ہیں ۔افسانے کا آغاز ہجرت کے خونی مناظر سے ہوتا ہے۔ تتلیوں کا پیچھا کرتا اختر نہ جانے کب پاکستان جانے والے مہاجر قافلے سے بچھڑ چکا ہے جس پر اس کی والدہ ماتم کناں ہے اور سارا منظر ا ٓہوں ،سسکیوں میں رچا بسا ہے۔ اس غیر متوقع صورتِ حال پر اختر کی والدہ کا ناتواں احتجاج ملاحظہ کیجیے جس میں اس کے لاشعورمیں اپنی جان بچانے کا خوف، اس کے فطری مادری جذبہ محبت(Motherhood) پر غالب آجاتا ہے۔والدین عموماً بچوں پر جان نچھاور کرتے ہیں لیکن اختر کی والدہ کو جس صورتِ حال کا شکار دکھایا گیا ہے اس میں انتہا درجے کی بے بسی، خوف اور زندگی بچانے کی امید ہے اس لیے وہ عمومی رویے سے متضاد عمل کرتی ہے۔ وہ موہوم سی امید سے بھی بندھی ہے کہ شاید اختر جلد ہی اسےآن ملے:
’’اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔آہی رہا ہو گا’’ وہ سوچتی ‘‘کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔ (1)‘‘
بدلے کی آگ میں جلتےپرمیشر سنگھ کو ساتھیوں سمیت مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر لوٹ کھسوٹ اورقتل و غار گری میں مصروف دکھایا گیا ہے۔ ایسے ہی بلوے کے دوران اختر پرمیشر سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے قبضے میں آجاتا ہے۔اس نئی صورتِ حال میں پانچ سالہ اخترپرخوف ،بے چینی اور غصے کی ملی جلی کیفیات (Anxiety)حملہ آور ہوتی ہیں جس کےرد عمل میں وہ خود کوپہلے سے زیادہ پر اعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیات میں یہ کیفیت "کاؤنٹر فوبیا" (counter phobia )کہلاتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی دفاعی طریقہ کار ہے جہاں ایک فرد خو د کو ایسے حالات کے مقابل لاتا ہے یا اپنے خوف کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کے اضطراب میں کمی واقع ہوسکے۔ ملاحظہ کیجیے کس طرح وہ نعرہ تکبیر سے سکھوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے اور خود سہم جاتا ہے:
’’وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا ‘‘میں نعرۂ تکبیر ماروں گا’’ ‘‘(2)
پرمیشر سنگھ کے ساتھی اختر کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے اچانک اختر کی صورت میں اپنے بیٹے "کرتاراسنگھ"ہی کی معصومیت اوربھولپن کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ دوستوں کو اس کے قتل سےروک دیتا ہے۔ پرمیشر سنگھ کا یہ نفسیاتی مظہر فلیش بلب میموری "Flashbulb Memory"کے تحت سمجھا جاسکتا ہے جس میں ایک شخص غیر متوقع طور پر ماضی کے کسی واقعے کو یاد کرتا ہے ، جو اکثر ایک اہم یا تکلیف دہ تجربے سے جڑا ہوتا ہےاور اس سے اس کا عہد موجود میں طرز عمل متاثر ہوتا ہے۔چناں چہ جب پرمیشر سنگھ کے ساتھی اسے قتل کے ارادے سے بڑھتے ہیں اور ایک ساتھی کرپان نکال کراپنے تئیں مذہبی فریضے کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے توایسے میں پرمیشر سنگھ میں انسانی ہمدردی اور محبت جو کہ نفسیات میں انسان دوستی (Altruism)کہلاتی ہے، کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے اور وہ ساتھیوں سےکہتا ہے :
"مارو نہیں یارو، پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی۔اسے مارو نہیں۔ اتنا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے جس نے تمھیں اور تمھارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔ "(3)
اس پر اختر سے سوال کیا جاتا ہے کہ اسے کس نے پیدا کیا تو وہ کہتا ہے کہ پتہ نہیں، ماں تو کہتی تھی کہ وہ اسے بھوسے کے ڈھیر سے ملا تھا۔ اس پر سکھ قہقہے لگاتے ہیں لیکن پرمیشر سنگھ ایک ذہنی کیفیت سے فوراً دوسری میں چلاجاتا ہے اور اچانک رونے لگتا ہے۔ اسے کرتارا یاد آتا ہے۔
" پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا۔ ۔ ۔ “سب بچے ایک سے ہوتے ہیں یارو۔ میرا کرتار ابھی تو یہی کہتا تھا ۔" (4)
پرمیشر سنگھ کا یہ نفسیاتی ردِ عمل اس کے مخفی غم کے اظہاریے (Expressive crying) کے مظہر کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جو عین فطری ہے لیکن افسانے میں اس کا موقع محل یکسر مختلف دکھایا گیا ہے۔ یہاں پرمیشر سنگھ کو تشخص کی تلاش ہے۔ وہ جو کر رہا ہے، وہ نہایت کریہہ اور غیر انسانی ہے لیکن اس کی انسان دوستی جلد ہی اس پر غالب آجاتی ہے۔گویا یہ اس کےلاشعور کی شعور پر برتری کی علامت ہے ۔
اس کے پدری محبت کے جذبے(Fatherhood) کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں اس کے لاشعور میں بسی کرتارے کی یادیں اسے کرداری دوہریت (Duality) سے دوچار کردیتی ہیں۔ وہ لمحہ موجود ہی میں یک دم دوسری شخصیت کا روپ لے لیتا ہے اور حال سے یکسر بےگانہ ہوجاتا ہے۔ گویا اختر کا ملنا، کرتار ے ہی کا ملنا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’پرمیشر نے اختر کو یوں جھپٹ کر اٹھا لیا کہ اس کی پگڑی کھل گئی اور کیسوں کی لٹیں لٹکنے لگیں۔ اس نے اختر کو پاگلوں کی طرح چوما۔ اسے اپنے سینے سے بھینچا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا مسکرا کر کچھ ایسی باتیں سوچنے لگا جنھوں نے اس کے چہرے کو چمکا دیا ۔۔۔ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں بندروں کی طرح کودتا اور چھپتا رہا اور اس کے کیس اس کی لپک جھپٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ ‘‘(5)
پرمیشر کا یک دم اختر کے ساتھ گھل مل جانا اس کی چھپی انسانیت کو ظاہرکرتا ہے اور نفسیات میں"نفسیاتی تبدیلی"کہلاتا ہے۔ پرمیشر سنگھ اس کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے، سینے سے لگا تا ہے، آنسو بہاتا ہے۔ اس کا رویہ نفسیاتی حوالے سے کرتارے کے غم کا کیتھارسز(Catharsis)کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
پرمیشر سنگھ جولاہورسے اجڑا کر امرترسر آیا ہے، خود کو اس ماحول کا عادی بنانے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ اسے جو متبادل مکان دیا گیا ہے وہاں پہلے ایک مسلمان خاندان رہ رہا تھا جو اجڑ کر نہ جانے کہاں گیا۔اس مکان میں غیر ضروری حساسیت کی وجہ سے وہ سمعی فریب کاری ( Auditory hallucinations) کا شکار ہوتا ہے اور کچھ ایسا سنتا ہے جو اس کے سوا اورکسی کو سنائی نہیں دیتا۔ اسے مکان میں متعدد بار قرآنِ مجید پڑھنے کی آواز سنائی دیتی ہے ۔اس کے لیے اس مکان کے درو دیوار اور سارا ماحول نیا ہے جس میں وہ بنیادی طورپر اپنا انسلاک (اڈجسٹمنٹ) نہیں کر پارہا۔اس کی سمعی فریب کاری کا احوال ملاحظہ کیجیے:
"وہ اپنی بیوی اور بیٹی سمیت جب اس چار دیواری میں داخل ہوا تھا تو ٹھٹک کر رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا سی گئیں تھیں اور وہ بڑی پر اسرار سرگوشی میں بولا تھا۔"یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔"(6)
پرمیشر کا یہ ناموجود خوف جو ایک طرح سے اڈجسٹمنٹ فوبیا ہے،اس تک محدود نہیں رہتا بل کہ اس کی بیٹی تک بھی پہنچتاہے۔ وہ خود تو کروٹیں بدل کر سو جاتا لیکن امر کور کو اس خوف سے نیند نہ آتی کہ کوئی غیر مرئی مخلوق اس کے ساتھ ہے۔ یہ تصور اس کے دماغ میں رفتہ رفتہ راسخ ہوجاتا ہے۔ وہ شدید فریبِ نظر (ہیلوسی نیشن) کا شکار ہوجاتی ہے :
"اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائیاں ہر طرف بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آتی اور پھر جب ذار سی پو پھوٹتی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔ (7)
اس کی اس نفسیاتی حالت درحقیقت اس واقعے سے جڑی دکھائی گئی ہے جس میں اس کی قریبی سہیلی پریم کور کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور اسے قتل کرکے پھینک دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے اس کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے تھے ۔
وہ معاشرہ جہاں مذہب کے نام پر قتل و غار ت گری جاری ہو، وہاں دوسرے مذہب کے کسی شخص کی قبولیت خلافِ توقع ہے لیکن پرمیشر سنگھ کی ذہنی حالت دیکھ کر اس کے ساتھی ، اختر کو اس کے سپرد کردیتے ہیں لیکن ان کے لاشعور میں اجتماعی معاشرتی نفسیات (Social Psychology)اس کے آڑے آتی ہے۔ عدم برداشت، مذہبی منافرت اور رواداری کے خاتمے کے بعدمعاشروں کی ایسی صورتِ حال ہوجانا بعید از امکان نہیں ہوتا۔ اسی لیے سب سے پہلے وہ ننھا بچہ جو ابھی مذہب اور سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہے ، اس پرسکھ مت تھو پنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرمیشر کے دوست اختر کو حوالے کرتے ہوئے ہدایات دیتے ہیں کہ اس کے بال (کیس)بڑھوالے تاکہ کسی کو اس کے مذہب کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے یا معاشرہ اس سے خائف دکھائی نہ دے ۔یہ ہی نہیں ، اس معاشرے میں اس کی قبولیت کے لیے سکھ مت کا رہنما گرنتھی اختر کو سکھ بنانے کے سخت احکامات دیتا ہے اور یہ کہہ کر ڈرارا ہے کہ اگر اسے سکھ نہ بنایا گیا تو یہاں اسے اور اس کے خاندان کو نکال باہر کیا جائے گا۔
"گرنتھی جی نے بڑے دبدبے سے کہا" کل سے یہ لڑکا خالصے کی سی پگڑی باندھے گا، کڑا پہنے گا، دھرم شالہ آئے گا اور اسے پرشاد کھلایا جائے گا۔ اس کےکیسوں کو قینچی نہیں چھوئے گی ، چھوگئی تو کل ہی سے یہ گھر خالی کردو۔"(
پرمیشر سنگھ کی داخلی کیفیات ، کرب سے دوچار ہیں اور وہ اختر کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہتا ، اس کے دل میں ڈر ہے کہ اسی طرح کوئی کرتارے کے ساتھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے مسلمان بنا سکتا ہے لیکن معاشرتی بوجھ اس کی ارادے پر غالب آجاتا ہے اور گرنتھی کی دھمکی سے اس کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ بہرحال وہ اسے ظلم ہی سمجھتا ہے لیکن اس ظلم میں معاشرتی نفسیات کے بوجھ تلے خود بھی شریک ہوجاتا ہے۔
"تم لوگ کتنے ظالم ہو یارو اختر کو کرتارا بناتے ہو۔ اگر ادھر کوئی کرتارے کو اختر بنالے تو ؟ اسے ظالم ہی کہوگے نا۔"(9)
اختر اور پرمیشر جو دونوں بے سہارا ہونے کی وجہ سے نفسیاتی رشتے میں بندھے ہیں ، افساس ناک امر یہ ہے کہ ابتداً پرمیشر کی بیوی اور بیٹی اختر کو نفسیاتی طورپر قبول نہیں کرتی، وہ اختر کو کرتارے کی جگہ دینے سے قاصر ہیں۔ اس کی کرتارے سے مادری محبت کو نفسیاتی مظہر انسلاک (Attachment) کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ نفسیاتی سطح پر پرمیشر سے زیادہ مضبوط ہے اس لیے ابتداًاختر کو کرتارا تسلیم نہیں کرتی ۔ اختر کو گھر لانے پر وہ ایک ہنگامہ کھڑا کردیتی ہے اور کرتارے کے غم میں اختر کو ماردینے تک کا ارادہ رکھتی ہے لیکن پرمیشر ایک مضبوط پہاڑ کی طرح اختر کی حفاظت کرتا ہے اورردعمل میں بیگم کو ماردینے کی بات کرتا ہے جس سے وہ کچھ ڈر جاتی ہے البتہ محلے میں شورمچاکر سب کو پرمیشر کی حرکت سے آگاہ کرتی ہے۔
"میں رات ہی رات جھٹکا کر ڈالوں گی اس کا۔ کاٹ کے پھینک دوں گی ۔ اٹھالایا ہے وہاں سے ۔ لے جا اسے، پھینک دے باہر۔ "تمھیں نہ پھینک دوں باہر؟" اب کے پرمیشر سنگھ بگڑ گیا۔ تمھارا نہ کر ڈالوں جھٹکا ؟ " (10)
محلے کے لوگ بھی اسے ہی سمجھاتےہیں کہ پرمیشر ایک مسلمان کو سکھ بنا کر نیک کام کر رہا ہے، یوں مذہب کے پیچھے انسانیت چھپ جاتی ہے اور اس کے عمل کو مذہب میں رنگ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ معاشرے کی اجتماعی نفسیات ، اس کی بیگم کے دل میں ایک ہلکا سا نرم گوشہ توپیدا کردیتی ہے لیکن ایک ماں کااپنے بچے کو کھو دینے کے بعد کسی دوسرے بچے کو قبو ل کرلینا بہرحال ایک مشکل امر ہے جس کا سامنا پرمیشر کی بیگم اور بیٹی کو کرنا ہی پڑتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ میں معصوم اختر کو دھرم شالہ بھیج کر سکھ بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور اس کے سر پر بندھی پگڑی، ہاتھ کا کڑا، اور بڑھتے بالوں کی وجہ سے وہ کرتارے جیسا ہی دکھنے لگتا ہے۔ اس پرپرمیشر کی بیگم،جو اختر کا جھٹکا کردینے کی فکر میں تھی، اسے بھی پرمیشر کی طرح اختر میں کرتارا نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا فطری مامتا کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور وہ کرتارے کی یاد میں اختر کو محبت سے دیکھتی ہے۔ یوں اس کی شخصیت بھی دوہرے پن کا شکار ہوتےہوئے انسانیت کے قریب آجاتی ہے۔وہ اختر کے کپڑوں کو دھوتی ہے اور اس کے کیس سنوارتے ہوئے کرتارے کو یاد کرکے روتی ہے ۔ آنسو اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:
"وہی کانوں کی لووں تک کس کر بندھی ہوئی پگڑی، وہی ہاتھ کا کڑا اور وہی لچھیرا۔۔۔ذرا ادھر آ امر کورے!یہ دیکھ کیس بن رہے ہیں ۔ پھر ایک دن جوڑا بنے گا ، کنگھا لگے گا اور اس کانام رکھاجائے گا کرتار سنگھ۔"(11)
گو کہ پرمیشر اختر سے محبت کا اظہار کرتا ہے لیکن اتنی جلدی اختر نہ تو اسے باپ تسلیم کرتا ہے نہ ہی ہمدرد ، اسے اپنے والدین تک پہنچنے کی جلدی ہے۔ نفسیاتی طور پر اس مظہر کوAttachment Disruption" کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جو کہ اس کی اندرونی شکست و ریخت، جذبات اور تجربات کا حاصل ہے۔ وہ اپنے سامنے سکھوں اور ہندوؤں کی قتل و غارت گری دیکھ چکا ہے اوردل ہی دل میں ان سے شدید خوف زدہ ہے جس کے سبب وہ لوگوں پر اعتبار نہیں کرپاتا ۔اسی لیے وہ نفسیاتی سطح پر تنہائی کے باوجود پرمیشرسنگھ کو سہارا سمجھ کر اس کی جانب راغب نہیں ہوپاتا۔ نتیجتاً پرمیشر ، جو شدید نفسیاتی کرب اور کشمکش سے گزر رہا ہے ، وہ ایک بار پھر سے جذباتی سطح پر ناپختگی کا ثبوت دیتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگتا ہے اور اختر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سمجھاتا ہے، تسلی دیتا ہے اور واپس اس کے والدین تک پہنچانے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس پر اختر راضی ہوجاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے پرمیشر کے حوالے سے یوں نفسیاتی حقیقت نگاری کی ہے:
" گھٹنوں کے بل اختر کے سامنے بیٹھ گیا۔ بچوں کی طرح یوں سسک سسک کر رونے لگا کہ اس کا نچلا ہونٹ بھی بچوں کی طرح لٹک آیا اور پھر بچوں کی سی روتی آواز میں بولا۔"مجھے معاف کردے اختر، مجھے تمھارے خدا کی قسم میں تمھارا دوست ہوں، تم اکیلے یہاں سے جاؤ گے تو تمھیں کوئی ماردے گا۔پھر تمھاری ماں پاکستان سے آکر مجھے
مار گی۔ میں خود جا کر تمھیں پاکستان چھوڑ آؤں گا۔ سنا؟پھر وہاں اگر تمھیں ایک لڑکا مل جائے نا کرتارا نام کا تو تم اسے ادھر گاؤں میں چھوڑ جانا۔ اچھا؟" (12)
کچھ ہی عرصے میں اختر اور پرمیشر کے خاندان کے درمیان امن قائم ہوجاتا ہے لیکن نہ تو وہ کرتارے کو بھول پاتے ہیں اور نہ ہی اختر اپنے والدین کو۔ اختر کو شدید بخار آتا ہے اس پر بھی پرمیشر اور اس کی بیگم دونوں اس کی خدمت کرتے ہیں لیکن اختر نفسیاتی طورپر پرمیشر ہی سے زیادہ جڑتا ہے۔ افسانے کا ایک نہایت جذباتی اور غیر متوقع منظر اختر اور قرآنِ مجید کی تلاوت کے حوالے سے پیش کیا گیاہے۔ پرمیشر کا خاندان اسلام سے سخت خائف دکھایا گیا ہے اور قرآنِ مجید کی تلاو ت سن کر ان کی جان نکلتی ہے ۔ اختر کو نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ اندھیرے میں سورہ اخلاص کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے کہ پرمیشر کی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ ڈر کے مارے بیوی اور بیٹی کو بھی اٹھادیتا ہے اور جب وہ چیخ مارتی ہے تو اختر کی بھی چیخ نکل جاتی ہے۔بیوی چراغ جلا کر بیٹی کے ساتھ سہم کر اسے ڈرتے ہوئے دیکھتی ہے کہ کہیں وہ جن بھوت تو نہیں۔ ایسے میں جب کہ ایک جانب شدید مذہبی منافرت ہے دوسری جانب پرمیشر سنگھ پدری محبت میں اس قدر گرفتار ہوجاتا ہے کہ وہ ہرشے کو نظر انداز کرکے اختر کو تلاوت سے روکنے کے بجائے اس کی اجازت دیتا ہے اوریہ بھی کہتا ہے کہ جب بھی نیند نہ آئے وہ تلاوت کرکے سو جایا کرے۔
" کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟” پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔“پڑھوں؟” اختر نے پوچھا۔“ہاں ہاں” پرمیشر سنگھ نے بڑے شوق سے کہا۔اور اختر قُل ہو اللہ اَحَد پڑھنے لگا۔ کُفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے گریبان میں چھوکی اور پھر پرمیشر سنگھ کی طرف مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ “تمھارے سینے میں بھی چھو کر دوں؟”“ہاں ہاں” پرمیشر سنگھ نے گریبان کا بٹن کھول دیا اور اختر نے چھو کر دی۔"(13)
افسانے میں پرمیشر کو ایک جگہ بہت خود غرض بھی دکھایا گیا ہے۔ جب فوجیوں کی گاڑی بچھڑنے والے بچوں کو لینے آتے ہیں تو وہ اختر کو چھپا دیتا ہے تاکہ وہ واپس نہ جائے۔ گاؤں میں اور بھی لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں اور فوجیوں کے جانے کے بعد مبارک باد دیتے ہیں لیکن پرمیشر پھر سے پچھتاوا محسوس کرتا ہے ۔ وہ انسانیت اور خود غرضی کے وسط میں کھڑا رہتا ہے اور اس کی خود غرضی اس پر غالب آجاتی ہے۔ اس کے دوہرے رویوں کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:
"پرمیشر سنگھ لاری کے آنے سے پہلے جو حواس باختہ ہورہا تھا تو اب لاری کے جانے کے بعد لُٹا لُٹا سا لگ رہا تھا۔ "(14)
لیکن یہ خود غرضی ایک پچھتاوا بن کر اس کے ضمیر پر اس قدر بھاری بوجھ ڈال دیتی ہے کہ وہ بالآخر شدید نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوکر اختر کو اس کے والدین کے پاس واپس بھیجنے کے لیے چل پڑتا ہے۔ فجر کی اذان کے وقت وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر سرحد کے پار دیکھتا ہے، اختر کو پیار کرتا ہے اور اسے دوسری جانب روانہ کردیتا ہے۔ دوسری جانب فوجی اس کے سکھ حلیے کو دیکھ کر سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں کہ اس کے سر کی پگڑی کھل جاتی ہے اور کنگھا گر جاتا ہے۔ اختر کے چلانے پر پرمیشر سنگھ اختر کی آوازکے تعاقب میں دوڑتا ہے تو فوجی اسے دشمن وطن سے سرحد میں داخل ہونے کی وجہ سے گولی ماردیتے ہیں جو اس کی ران میں لگتی ہے اور وہ افسوس ناک لہجے میں کہتا ہے:
"سپاہی جب ایک جگہ جا کر رُکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پٹی باندھ چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سیکڑوں پرتوں میں سے بھی پھوٹ آیا۔ اور وہ کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ “مجھے کیوں مارا تم نے، میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا؟ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔"(15)
یوں مجموعی طورپر دیکھا جائے تو یہ افسانہ اختتام پذیر ہوتے ہوئے انسانی رویوں ، ان کے محرکات، ان میں تبدیلی، داخل و خارج کی کشاکش، کرداری دوہریت و انتشاراوراجتماعی معاشرتی نفسیات ایسے مسائل ، پیچیدگیوں اور کشمکش کو ہدف بناتے ہوئے بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔یہ سوالات، لاجواب نہیں بل کہ احمد ندیم قاسمی نے بین السطور کامیابی سے ان کے جوابات بھی مہیا کردیے ہیں جن تک بیدار مغز قارئین ہی پہنچ پاتے ہیں۔
حوالہ جات
"Parameshar Singh" and The Psychology of Migration (Analytical Study). Dr. Muhammad Khurram Yasin
احمد ندیم قاسمی اردوادب کے ہمہ جہت اور مشاق ادبامیں شامل رہے۔وہ بیک وقت نہ صرف اچھےافسانہ نگار تھے بل کہ انھوں نےشاعری ، تنقید، ادارت اور صحافت میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ان کے افسانے زندگی کے ترجمان اور حقیقت نگاری کی عمدہ روایت کا مظہر ہیں ۔ انھو ں نے اردو ادب کو سولہ (۱۶)بہترین افسانوی مجموعے دیے جب کہ دس ایسے شعری مجموعے تخلیق کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ یوں بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی ساری زندگی پرورشِ لوح و قلم ہی سے تعبیر رہی۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تلخ و شیریں حقائق سے مواد کشید کیا اور ادب کے سانچے میں ڈھالا ۔ ان کے افسانے جہاں ایک جانب دیہاتی معاشرت کے نمائندگی کرتے ہیں ،وہیں ان میں مابعد جدیدیت ایسے جدید دنیا کے مسائل، ہجر ت کے غم و مصائب، انسانی اقدار کا بحران ،روشن روایات کی پامالی، فکرِ معاش سے جنم لیتی نفسیاتی شکست و ریخت اور جذباتی کشمکش وغیرہ بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ان کے بیش تر افسانوں کا مادہ انسان دوستی سے پھوٹتا ہے اور لاشعوری تعلق امن، رواداری اورعدل و انصاف سے جڑتا ہے۔ان کا ایک ایسا ہی افسانہ " پرمیشر سنگھ" ہے جو ہجرت سے جڑے گہرے غم و اندوہ، تشخص کی تلاش ، انسان دوستی ، مذہب اورمعاشرے کی گہری وابستگی کو ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ یہ افسانہ جس کا تعلق برصغیر کی تقسیم سے ہے، اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں بعد از تقسیم کے مسائل کوجغرافیائی حدود سے بلند ہو کر انسانی نفسیاتی سطح پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انھوں نے تقسیم اور اس کے مصائب پر اور بھی افسانے تخلیق کیے ہیں جن میں "نیا فرہاد"، "اندمال"، :"کفن دفن"، "ارتقا"، "تسکین"، "فساد"، "میں انسان ہوں" اور "جب بادل امڈ آئے" شامل ہیں۔
"پرمیشر سنگھ" کا پلاٹ سادہ ہے اور اہم کرداروں میں پرمیشر سنگھ ، اس کی بیگم بنتو، بیٹی امرکور اور مسلمان بچہ اختر شامل ہیں۔تمام کردار شدید ذہنی اضطراب، الجھن اور کرداری دوہریت کا شکار ہیں ۔ تمام تر نفسیاتی الجھنیں چوں کہ ہجرت سے منسلک ہیں اس لیے اس افسانے کے کرداروں کے رویے نفسیات کی رو سے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے تحت سمجھے جاسکتے ہیں جس میں ذہنی صحت کے مسائل جن میں تناؤ (ٹینشن)دباؤ(ڈپریشن)، غیر ضروری حساسیت، چڑ چڑا پن، بدلہ لینے کے شدید جذبات، غم اور سوگ، ثقافتی شناخت کا بحران یا تشخص کے مسائل اور رویوں کی تبدیلی کا انسلاک کسی ناگوار یا صدماتی واقعے کا تجربہ کرنے یا اسے دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
پرمیشر سنگھ پاکستان سے ہجرت کر کے بھارتی پہنچنے والے ا ن بد نصیب مہاجرین میں سے ایک ہے جس کا پیارا بیٹا کرتار سنگھ ہجرت کی بھگ دڑمیں بچھڑ چکا ہے جب کہ اختر ان بدنصیب بچوں میں سے ایک ہے جس کے والدین ہجرت کے ہنگاموں میں اس سے بچھڑ چکے ہیں ۔افسانے کا آغاز ہجرت کے خونی مناظر سے ہوتا ہے۔ تتلیوں کا پیچھا کرتا اختر نہ جانے کب پاکستان جانے والے مہاجر قافلے سے بچھڑ چکا ہے جس پر اس کی والدہ ماتم کناں ہے اور سارا منظر ا ٓہوں ،سسکیوں میں رچا بسا ہے۔ اس غیر متوقع صورتِ حال پر اختر کی والدہ کا ناتواں احتجاج ملاحظہ کیجیے جس میں اس کے لاشعورمیں اپنی جان بچانے کا خوف، اس کے فطری مادری جذبہ محبت(Motherhood) پر غالب آجاتا ہے۔والدین عموماً بچوں پر جان نچھاور کرتے ہیں لیکن اختر کی والدہ کو جس صورتِ حال کا شکار دکھایا گیا ہے اس میں انتہا درجے کی بے بسی، خوف اور زندگی بچانے کی امید ہے اس لیے وہ عمومی رویے سے متضاد عمل کرتی ہے۔ وہ موہوم سی امید سے بھی بندھی ہے کہ شاید اختر جلد ہی اسےآن ملے:
’’اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔آہی رہا ہو گا’’ وہ سوچتی ‘‘کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔ (1)‘‘
بدلے کی آگ میں جلتےپرمیشر سنگھ کو ساتھیوں سمیت مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر لوٹ کھسوٹ اورقتل و غار گری میں مصروف دکھایا گیا ہے۔ ایسے ہی بلوے کے دوران اختر پرمیشر سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے قبضے میں آجاتا ہے۔اس نئی صورتِ حال میں پانچ سالہ اخترپرخوف ،بے چینی اور غصے کی ملی جلی کیفیات (Anxiety)حملہ آور ہوتی ہیں جس کےرد عمل میں وہ خود کوپہلے سے زیادہ پر اعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیات میں یہ کیفیت "کاؤنٹر فوبیا" (counter phobia )کہلاتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی دفاعی طریقہ کار ہے جہاں ایک فرد خو د کو ایسے حالات کے مقابل لاتا ہے یا اپنے خوف کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کے اضطراب میں کمی واقع ہوسکے۔ ملاحظہ کیجیے کس طرح وہ نعرہ تکبیر سے سکھوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے اور خود سہم جاتا ہے:
’’وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا ‘‘میں نعرۂ تکبیر ماروں گا’’ ‘‘(2)
پرمیشر سنگھ کے ساتھی اختر کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے اچانک اختر کی صورت میں اپنے بیٹے "کرتاراسنگھ"ہی کی معصومیت اوربھولپن کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ دوستوں کو اس کے قتل سےروک دیتا ہے۔ پرمیشر سنگھ کا یہ نفسیاتی مظہر فلیش بلب میموری "Flashbulb Memory"کے تحت سمجھا جاسکتا ہے جس میں ایک شخص غیر متوقع طور پر ماضی کے کسی واقعے کو یاد کرتا ہے ، جو اکثر ایک اہم یا تکلیف دہ تجربے سے جڑا ہوتا ہےاور اس سے اس کا عہد موجود میں طرز عمل متاثر ہوتا ہے۔چناں چہ جب پرمیشر سنگھ کے ساتھی اسے قتل کے ارادے سے بڑھتے ہیں اور ایک ساتھی کرپان نکال کراپنے تئیں مذہبی فریضے کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے توایسے میں پرمیشر سنگھ میں انسانی ہمدردی اور محبت جو کہ نفسیات میں انسان دوستی (Altruism)کہلاتی ہے، کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے اور وہ ساتھیوں سےکہتا ہے :
"مارو نہیں یارو، پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی۔اسے مارو نہیں۔ اتنا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے جس نے تمھیں اور تمھارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔ "(3)
اس پر اختر سے سوال کیا جاتا ہے کہ اسے کس نے پیدا کیا تو وہ کہتا ہے کہ پتہ نہیں، ماں تو کہتی تھی کہ وہ اسے بھوسے کے ڈھیر سے ملا تھا۔ اس پر سکھ قہقہے لگاتے ہیں لیکن پرمیشر سنگھ ایک ذہنی کیفیت سے فوراً دوسری میں چلاجاتا ہے اور اچانک رونے لگتا ہے۔ اسے کرتارا یاد آتا ہے۔
" پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا۔ ۔ ۔ “سب بچے ایک سے ہوتے ہیں یارو۔ میرا کرتار ابھی تو یہی کہتا تھا ۔" (4)
پرمیشر سنگھ کا یہ نفسیاتی ردِ عمل اس کے مخفی غم کے اظہاریے (Expressive crying) کے مظہر کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جو عین فطری ہے لیکن افسانے میں اس کا موقع محل یکسر مختلف دکھایا گیا ہے۔ یہاں پرمیشر سنگھ کو تشخص کی تلاش ہے۔ وہ جو کر رہا ہے، وہ نہایت کریہہ اور غیر انسانی ہے لیکن اس کی انسان دوستی جلد ہی اس پر غالب آجاتی ہے۔گویا یہ اس کےلاشعور کی شعور پر برتری کی علامت ہے ۔
اس کے پدری محبت کے جذبے(Fatherhood) کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں اس کے لاشعور میں بسی کرتارے کی یادیں اسے کرداری دوہریت (Duality) سے دوچار کردیتی ہیں۔ وہ لمحہ موجود ہی میں یک دم دوسری شخصیت کا روپ لے لیتا ہے اور حال سے یکسر بےگانہ ہوجاتا ہے۔ گویا اختر کا ملنا، کرتار ے ہی کا ملنا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’پرمیشر نے اختر کو یوں جھپٹ کر اٹھا لیا کہ اس کی پگڑی کھل گئی اور کیسوں کی لٹیں لٹکنے لگیں۔ اس نے اختر کو پاگلوں کی طرح چوما۔ اسے اپنے سینے سے بھینچا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا مسکرا کر کچھ ایسی باتیں سوچنے لگا جنھوں نے اس کے چہرے کو چمکا دیا ۔۔۔ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں بندروں کی طرح کودتا اور چھپتا رہا اور اس کے کیس اس کی لپک جھپٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ ‘‘(5)
پرمیشر کا یک دم اختر کے ساتھ گھل مل جانا اس کی چھپی انسانیت کو ظاہرکرتا ہے اور نفسیات میں"نفسیاتی تبدیلی"کہلاتا ہے۔ پرمیشر سنگھ اس کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے، سینے سے لگا تا ہے، آنسو بہاتا ہے۔ اس کا رویہ نفسیاتی حوالے سے کرتارے کے غم کا کیتھارسز(Catharsis)کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
پرمیشر سنگھ جولاہورسے اجڑا کر امرترسر آیا ہے، خود کو اس ماحول کا عادی بنانے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ اسے جو متبادل مکان دیا گیا ہے وہاں پہلے ایک مسلمان خاندان رہ رہا تھا جو اجڑ کر نہ جانے کہاں گیا۔اس مکان میں غیر ضروری حساسیت کی وجہ سے وہ سمعی فریب کاری ( Auditory hallucinations) کا شکار ہوتا ہے اور کچھ ایسا سنتا ہے جو اس کے سوا اورکسی کو سنائی نہیں دیتا۔ اسے مکان میں متعدد بار قرآنِ مجید پڑھنے کی آواز سنائی دیتی ہے ۔اس کے لیے اس مکان کے درو دیوار اور سارا ماحول نیا ہے جس میں وہ بنیادی طورپر اپنا انسلاک (اڈجسٹمنٹ) نہیں کر پارہا۔اس کی سمعی فریب کاری کا احوال ملاحظہ کیجیے:
"وہ اپنی بیوی اور بیٹی سمیت جب اس چار دیواری میں داخل ہوا تھا تو ٹھٹک کر رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا سی گئیں تھیں اور وہ بڑی پر اسرار سرگوشی میں بولا تھا۔"یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔"(6)
پرمیشر کا یہ ناموجود خوف جو ایک طرح سے اڈجسٹمنٹ فوبیا ہے،اس تک محدود نہیں رہتا بل کہ اس کی بیٹی تک بھی پہنچتاہے۔ وہ خود تو کروٹیں بدل کر سو جاتا لیکن امر کور کو اس خوف سے نیند نہ آتی کہ کوئی غیر مرئی مخلوق اس کے ساتھ ہے۔ یہ تصور اس کے دماغ میں رفتہ رفتہ راسخ ہوجاتا ہے۔ وہ شدید فریبِ نظر (ہیلوسی نیشن) کا شکار ہوجاتی ہے :
"اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائیاں ہر طرف بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آتی اور پھر جب ذار سی پو پھوٹتی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔ (7)
اس کی اس نفسیاتی حالت درحقیقت اس واقعے سے جڑی دکھائی گئی ہے جس میں اس کی قریبی سہیلی پریم کور کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور اسے قتل کرکے پھینک دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے اس کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے تھے ۔
وہ معاشرہ جہاں مذہب کے نام پر قتل و غار ت گری جاری ہو، وہاں دوسرے مذہب کے کسی شخص کی قبولیت خلافِ توقع ہے لیکن پرمیشر سنگھ کی ذہنی حالت دیکھ کر اس کے ساتھی ، اختر کو اس کے سپرد کردیتے ہیں لیکن ان کے لاشعور میں اجتماعی معاشرتی نفسیات (Social Psychology)اس کے آڑے آتی ہے۔ عدم برداشت، مذہبی منافرت اور رواداری کے خاتمے کے بعدمعاشروں کی ایسی صورتِ حال ہوجانا بعید از امکان نہیں ہوتا۔ اسی لیے سب سے پہلے وہ ننھا بچہ جو ابھی مذہب اور سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہے ، اس پرسکھ مت تھو پنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرمیشر کے دوست اختر کو حوالے کرتے ہوئے ہدایات دیتے ہیں کہ اس کے بال (کیس)بڑھوالے تاکہ کسی کو اس کے مذہب کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے یا معاشرہ اس سے خائف دکھائی نہ دے ۔یہ ہی نہیں ، اس معاشرے میں اس کی قبولیت کے لیے سکھ مت کا رہنما گرنتھی اختر کو سکھ بنانے کے سخت احکامات دیتا ہے اور یہ کہہ کر ڈرارا ہے کہ اگر اسے سکھ نہ بنایا گیا تو یہاں اسے اور اس کے خاندان کو نکال باہر کیا جائے گا۔
"گرنتھی جی نے بڑے دبدبے سے کہا" کل سے یہ لڑکا خالصے کی سی پگڑی باندھے گا، کڑا پہنے گا، دھرم شالہ آئے گا اور اسے پرشاد کھلایا جائے گا۔ اس کےکیسوں کو قینچی نہیں چھوئے گی ، چھوگئی تو کل ہی سے یہ گھر خالی کردو۔"(
پرمیشر سنگھ کی داخلی کیفیات ، کرب سے دوچار ہیں اور وہ اختر کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہتا ، اس کے دل میں ڈر ہے کہ اسی طرح کوئی کرتارے کے ساتھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے مسلمان بنا سکتا ہے لیکن معاشرتی بوجھ اس کی ارادے پر غالب آجاتا ہے اور گرنتھی کی دھمکی سے اس کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ بہرحال وہ اسے ظلم ہی سمجھتا ہے لیکن اس ظلم میں معاشرتی نفسیات کے بوجھ تلے خود بھی شریک ہوجاتا ہے۔
"تم لوگ کتنے ظالم ہو یارو اختر کو کرتارا بناتے ہو۔ اگر ادھر کوئی کرتارے کو اختر بنالے تو ؟ اسے ظالم ہی کہوگے نا۔"(9)
اختر اور پرمیشر جو دونوں بے سہارا ہونے کی وجہ سے نفسیاتی رشتے میں بندھے ہیں ، افساس ناک امر یہ ہے کہ ابتداً پرمیشر کی بیوی اور بیٹی اختر کو نفسیاتی طورپر قبول نہیں کرتی، وہ اختر کو کرتارے کی جگہ دینے سے قاصر ہیں۔ اس کی کرتارے سے مادری محبت کو نفسیاتی مظہر انسلاک (Attachment) کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ نفسیاتی سطح پر پرمیشر سے زیادہ مضبوط ہے اس لیے ابتداًاختر کو کرتارا تسلیم نہیں کرتی ۔ اختر کو گھر لانے پر وہ ایک ہنگامہ کھڑا کردیتی ہے اور کرتارے کے غم میں اختر کو ماردینے تک کا ارادہ رکھتی ہے لیکن پرمیشر ایک مضبوط پہاڑ کی طرح اختر کی حفاظت کرتا ہے اورردعمل میں بیگم کو ماردینے کی بات کرتا ہے جس سے وہ کچھ ڈر جاتی ہے البتہ محلے میں شورمچاکر سب کو پرمیشر کی حرکت سے آگاہ کرتی ہے۔
"میں رات ہی رات جھٹکا کر ڈالوں گی اس کا۔ کاٹ کے پھینک دوں گی ۔ اٹھالایا ہے وہاں سے ۔ لے جا اسے، پھینک دے باہر۔ "تمھیں نہ پھینک دوں باہر؟" اب کے پرمیشر سنگھ بگڑ گیا۔ تمھارا نہ کر ڈالوں جھٹکا ؟ " (10)
محلے کے لوگ بھی اسے ہی سمجھاتےہیں کہ پرمیشر ایک مسلمان کو سکھ بنا کر نیک کام کر رہا ہے، یوں مذہب کے پیچھے انسانیت چھپ جاتی ہے اور اس کے عمل کو مذہب میں رنگ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ معاشرے کی اجتماعی نفسیات ، اس کی بیگم کے دل میں ایک ہلکا سا نرم گوشہ توپیدا کردیتی ہے لیکن ایک ماں کااپنے بچے کو کھو دینے کے بعد کسی دوسرے بچے کو قبو ل کرلینا بہرحال ایک مشکل امر ہے جس کا سامنا پرمیشر کی بیگم اور بیٹی کو کرنا ہی پڑتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ میں معصوم اختر کو دھرم شالہ بھیج کر سکھ بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور اس کے سر پر بندھی پگڑی، ہاتھ کا کڑا، اور بڑھتے بالوں کی وجہ سے وہ کرتارے جیسا ہی دکھنے لگتا ہے۔ اس پرپرمیشر کی بیگم،جو اختر کا جھٹکا کردینے کی فکر میں تھی، اسے بھی پرمیشر کی طرح اختر میں کرتارا نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا فطری مامتا کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور وہ کرتارے کی یاد میں اختر کو محبت سے دیکھتی ہے۔ یوں اس کی شخصیت بھی دوہرے پن کا شکار ہوتےہوئے انسانیت کے قریب آجاتی ہے۔وہ اختر کے کپڑوں کو دھوتی ہے اور اس کے کیس سنوارتے ہوئے کرتارے کو یاد کرکے روتی ہے ۔ آنسو اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:
"وہی کانوں کی لووں تک کس کر بندھی ہوئی پگڑی، وہی ہاتھ کا کڑا اور وہی لچھیرا۔۔۔ذرا ادھر آ امر کورے!یہ دیکھ کیس بن رہے ہیں ۔ پھر ایک دن جوڑا بنے گا ، کنگھا لگے گا اور اس کانام رکھاجائے گا کرتار سنگھ۔"(11)
گو کہ پرمیشر اختر سے محبت کا اظہار کرتا ہے لیکن اتنی جلدی اختر نہ تو اسے باپ تسلیم کرتا ہے نہ ہی ہمدرد ، اسے اپنے والدین تک پہنچنے کی جلدی ہے۔ نفسیاتی طور پر اس مظہر کوAttachment Disruption" کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے جو کہ اس کی اندرونی شکست و ریخت، جذبات اور تجربات کا حاصل ہے۔ وہ اپنے سامنے سکھوں اور ہندوؤں کی قتل و غارت گری دیکھ چکا ہے اوردل ہی دل میں ان سے شدید خوف زدہ ہے جس کے سبب وہ لوگوں پر اعتبار نہیں کرپاتا ۔اسی لیے وہ نفسیاتی سطح پر تنہائی کے باوجود پرمیشرسنگھ کو سہارا سمجھ کر اس کی جانب راغب نہیں ہوپاتا۔ نتیجتاً پرمیشر ، جو شدید نفسیاتی کرب اور کشمکش سے گزر رہا ہے ، وہ ایک بار پھر سے جذباتی سطح پر ناپختگی کا ثبوت دیتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگتا ہے اور اختر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سمجھاتا ہے، تسلی دیتا ہے اور واپس اس کے والدین تک پہنچانے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس پر اختر راضی ہوجاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے پرمیشر کے حوالے سے یوں نفسیاتی حقیقت نگاری کی ہے:
" گھٹنوں کے بل اختر کے سامنے بیٹھ گیا۔ بچوں کی طرح یوں سسک سسک کر رونے لگا کہ اس کا نچلا ہونٹ بھی بچوں کی طرح لٹک آیا اور پھر بچوں کی سی روتی آواز میں بولا۔"مجھے معاف کردے اختر، مجھے تمھارے خدا کی قسم میں تمھارا دوست ہوں، تم اکیلے یہاں سے جاؤ گے تو تمھیں کوئی ماردے گا۔پھر تمھاری ماں پاکستان سے آکر مجھے
مار گی۔ میں خود جا کر تمھیں پاکستان چھوڑ آؤں گا۔ سنا؟پھر وہاں اگر تمھیں ایک لڑکا مل جائے نا کرتارا نام کا تو تم اسے ادھر گاؤں میں چھوڑ جانا۔ اچھا؟" (12)
کچھ ہی عرصے میں اختر اور پرمیشر کے خاندان کے درمیان امن قائم ہوجاتا ہے لیکن نہ تو وہ کرتارے کو بھول پاتے ہیں اور نہ ہی اختر اپنے والدین کو۔ اختر کو شدید بخار آتا ہے اس پر بھی پرمیشر اور اس کی بیگم دونوں اس کی خدمت کرتے ہیں لیکن اختر نفسیاتی طورپر پرمیشر ہی سے زیادہ جڑتا ہے۔ افسانے کا ایک نہایت جذباتی اور غیر متوقع منظر اختر اور قرآنِ مجید کی تلاوت کے حوالے سے پیش کیا گیاہے۔ پرمیشر کا خاندان اسلام سے سخت خائف دکھایا گیا ہے اور قرآنِ مجید کی تلاو ت سن کر ان کی جان نکلتی ہے ۔ اختر کو نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ اندھیرے میں سورہ اخلاص کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے کہ پرمیشر کی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ ڈر کے مارے بیوی اور بیٹی کو بھی اٹھادیتا ہے اور جب وہ چیخ مارتی ہے تو اختر کی بھی چیخ نکل جاتی ہے۔بیوی چراغ جلا کر بیٹی کے ساتھ سہم کر اسے ڈرتے ہوئے دیکھتی ہے کہ کہیں وہ جن بھوت تو نہیں۔ ایسے میں جب کہ ایک جانب شدید مذہبی منافرت ہے دوسری جانب پرمیشر سنگھ پدری محبت میں اس قدر گرفتار ہوجاتا ہے کہ وہ ہرشے کو نظر انداز کرکے اختر کو تلاوت سے روکنے کے بجائے اس کی اجازت دیتا ہے اوریہ بھی کہتا ہے کہ جب بھی نیند نہ آئے وہ تلاوت کرکے سو جایا کرے۔
" کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟” پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔“پڑھوں؟” اختر نے پوچھا۔“ہاں ہاں” پرمیشر سنگھ نے بڑے شوق سے کہا۔اور اختر قُل ہو اللہ اَحَد پڑھنے لگا۔ کُفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے گریبان میں چھوکی اور پھر پرمیشر سنگھ کی طرف مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ “تمھارے سینے میں بھی چھو کر دوں؟”“ہاں ہاں” پرمیشر سنگھ نے گریبان کا بٹن کھول دیا اور اختر نے چھو کر دی۔"(13)
افسانے میں پرمیشر کو ایک جگہ بہت خود غرض بھی دکھایا گیا ہے۔ جب فوجیوں کی گاڑی بچھڑنے والے بچوں کو لینے آتے ہیں تو وہ اختر کو چھپا دیتا ہے تاکہ وہ واپس نہ جائے۔ گاؤں میں اور بھی لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں اور فوجیوں کے جانے کے بعد مبارک باد دیتے ہیں لیکن پرمیشر پھر سے پچھتاوا محسوس کرتا ہے ۔ وہ انسانیت اور خود غرضی کے وسط میں کھڑا رہتا ہے اور اس کی خود غرضی اس پر غالب آجاتی ہے۔ اس کے دوہرے رویوں کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:
"پرمیشر سنگھ لاری کے آنے سے پہلے جو حواس باختہ ہورہا تھا تو اب لاری کے جانے کے بعد لُٹا لُٹا سا لگ رہا تھا۔ "(14)
لیکن یہ خود غرضی ایک پچھتاوا بن کر اس کے ضمیر پر اس قدر بھاری بوجھ ڈال دیتی ہے کہ وہ بالآخر شدید نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوکر اختر کو اس کے والدین کے پاس واپس بھیجنے کے لیے چل پڑتا ہے۔ فجر کی اذان کے وقت وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر سرحد کے پار دیکھتا ہے، اختر کو پیار کرتا ہے اور اسے دوسری جانب روانہ کردیتا ہے۔ دوسری جانب فوجی اس کے سکھ حلیے کو دیکھ کر سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں کہ اس کے سر کی پگڑی کھل جاتی ہے اور کنگھا گر جاتا ہے۔ اختر کے چلانے پر پرمیشر سنگھ اختر کی آوازکے تعاقب میں دوڑتا ہے تو فوجی اسے دشمن وطن سے سرحد میں داخل ہونے کی وجہ سے گولی ماردیتے ہیں جو اس کی ران میں لگتی ہے اور وہ افسوس ناک لہجے میں کہتا ہے:
"سپاہی جب ایک جگہ جا کر رُکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پٹی باندھ چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سیکڑوں پرتوں میں سے بھی پھوٹ آیا۔ اور وہ کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ “مجھے کیوں مارا تم نے، میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا؟ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔"(15)
یوں مجموعی طورپر دیکھا جائے تو یہ افسانہ اختتام پذیر ہوتے ہوئے انسانی رویوں ، ان کے محرکات، ان میں تبدیلی، داخل و خارج کی کشاکش، کرداری دوہریت و انتشاراوراجتماعی معاشرتی نفسیات ایسے مسائل ، پیچیدگیوں اور کشمکش کو ہدف بناتے ہوئے بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔یہ سوالات، لاجواب نہیں بل کہ احمد ندیم قاسمی نے بین السطور کامیابی سے ان کے جوابات بھی مہیا کردیے ہیں جن تک بیدار مغز قارئین ہی پہنچ پاتے ہیں۔
حوالہ جات
"Parameshar Singh" and The Psychology of Migration (Analytical Study). Dr. Muhammad Khurram Yasin