پرندوں سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ علم نہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ پرندے پر بھی رکھتے ہیں اور طاقتِ پرواز بھی۔ پرندوں کی اڑان بھی حضرتِ انسان کے تخیل کی پروااز سے مختلف ہوتی ہے۔حضرتِ انسان نے اپنے تخیل سے کام لیکر پرندوں کا شکار شروع کیا، اس لیے کہ وہ اڑتے پرندوں کے پر گن لیتے تھے۔ ہر پرندے کے پر گن کر انہیں دو سے تقسیم کردیں تو آدھے پرندے کے پر شمار ہوتے ہیں۔ پرندہ انسان کی نظر میں ایک ایسا لقمہٗ تر ہے جسے دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ علامہ اقبال کو پرندے کھانے سے زیادہ ان سے متعلق معلومات بہم پہنچانے سے دلچسپی تھی۔ انہوں نے ہی ہمیں پروانے اور جگنو کا فرق بتلایا ۔ انہوں نے ہی ہمیں شاہین اور کرگس کے جہانوں کا فرق بتلایا۔اس سے پہلے امتِ مسلمہ ان پرندوں سے متعلق سخت گمرہی میں مبتلا تھی ۔
پرندوں کی پرواز ہمیں سمتوں کی معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ جب ایک پرندہ اس طرح اُڑ رہا ہو کہ اس کا چہرہ ڈوبتے سورج کی جانب ہو تو اس کا داہنا پر شمال کی جانب اور بایاں جنوب کی جانب ہوتا ہے اور دُم مشرق کی جانب ہوتی ہے۔ اڑتے اڑتے اگر ایک پرندہ اپنے پر سمیٹ لے تو سمتوں کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی زندگی کی بساط بھی لپٹ جاتی ہے۔پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھنا راحت بخش، ان کی پرواز سے نت نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور یہ عمل راحت بخش اور انہیں ایک تر نوالہ سمجھ کر کھانا لذت بخش ہوتا ہے۔