.
.ماں ، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "۔ ساجدہ نے ماں سے سوال کیا۔
ساجدہ کی ماں نےصحن میں جھاڑو دیتے ہو ے جواب دیا"۔ بیٹی مجھ بے پڑھی لکھی کو کیا پتہ ہے ان باتوں کا۔ جب اسکول جاؤ تو استانی جی سے پوچھنا۔"
" اچھا ماں ، میں باہر کھیلوں گی" اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھول کر۔ ساجدہ گلی میں آگی۔
گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہرطرف غلاظت کےڈھیر تھے۔ گلی کےدرمیان ایک گندے پانی کو نالا بہہ رہا تھا۔دو دروازے دور۔ اسکی دوست نجمہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی۔ ساجدہ بھی نجمہ کے برابر بیٹھ گی۔
" تم نے اپنی ماں سے پوچھا؟" نجمہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
" ہاں" ۔ساجدہ نے بے دلی سے کہا۔
" تو" ۔ نجمہ نے زور سے پوچھا۔
"ماں کو بھی نہیں پتہ وہ کہتی ہے استانی جی سے پوچھو"۔ ساجدہ بولی۔
" نا ، بابا میں تو کبھی نہ پوچھوں" ۔نجمہ نے کہا۔
" تم پوچھنا "
" اچھا "۔ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔"چلو کھیلیں"
٭٭٭
سخت گرمی تھی ۔ تمام بچے برگد کے درخت کی نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گے۔استانی نےدوسری جماعت کی کتاب کھولی اور کہا۔" آج ہم اپنے ملک کے بارے میں پڑھیں گے۔ صفحہ دس پر کتاب کھولو"
" ہمارے ملک کے دو حصہ ہیں۔ایک حصہ مغرب میں ہے اور دوسرا مشرق میں ۔ ہم مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہوتےہیں۔وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سب سے محبت کرتے ھیں "۔
" میرا تو کوئی بھائی نہیں۔ کیا بھائی بہنوں سے پیار کرتے ہیں؟۔ کیا اگر میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہ مجھے نئے کپڑے لاکر دیتا؟ میں نے کبھی برفی نہیں کھائی کیا وہ مجھے مٹھائی لا کر دیتا "۔نجمہ نے اداس ہو کراستانی سے پوچھا۔
سبق کے بعد ساجدہ اُستانی جی کے پاس گی۔ اُستانی جی، ساجدہ نے ادب سے کہا۔
" کیا بات ہے ساجدہ ؟ "
" کیا میں ایک سوال پوچھ ہوں؟ " ساجدہ ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
" پوچھو "۔
" استانی جی، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "
" یہ تو بہت اچھا سوال ہے ۔ کل میں تم سب کوایک ساتھ کلاس میں بتاؤں گی"۔ استانی نے جواب دیا۔
چلو جاؤ ۔ اندھیرا ہو رہا ہے۔ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہوگی"۔
٭٭٭
" ساجدہ ، تم آج سے باہر مت کھیلنا۔ لڑائی ہو رہی ہے۔ یہاں مغربی حصہ کی فوجیں آئی ہوي ہیں اور ہمارے سپاہی ان سے لڑرے ہیں" ۔ ماں نے ساجدہ کے بالوں میں مانگ ڈالتے ہوئے کہا۔
" ماں وہ تو ہمارے بھائی ہیں نا۔ ہم ان سے کیوں لڑتے ہیں۔استانی جی کہتی ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔ میں سپاہیوں سے کہوں گی کہ ان سے نہ لڑیں "۔
٭٭٭
زبرد ست بارش ہوری تھی۔ جھونپڑی میں کوئی جگہ خشک نہ تھی۔پانی ٹخنوں تک آچکاتھا۔ بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ ساجدہ خوف سے ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ باہر سے شور وغل کی آوازیں آرہی تھیں۔ جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بجلی کی چمک میں ساجدہ نے چارسائے دیکھے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے جیسے ساجدہ نے کبھی نہیں سننا تھا۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ساجدہ کا دل کرا کہ وہ دوڑ کر اپنے بھائیوں سے لپٹ جائے وہ اسکو ملنے آئے ہیں ۔ ماں نے ساجدہ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔ ان میں سے ایک نے زبردستی ساجدہ کو ماں سے جدا کیا ۔ ساجدہ نے ماں کی چیخیں سنی۔ کیسی نے اسے زمین پر گرا کر اسکی شلوار کھنچ لی۔ ساجدہ نے ا پنی ٹانگوں کے درمیان ایک زبردست درد محسوس کیا جیسے کیسی نے چھری سے اسکو کاٹا ہو۔ یہ درد پھر سارے بدن میں پھیل گیا۔اسکے بعد اسکی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
٭٭٭
کچھ دنوں بعد جب ساجدہ کی آنکھ کھولی تو اسکا سارا بدن آگ کی طرح جل رہاتھا۔
"ماں، ساجدہ چلائی"۔ نرس نے جھک کر ساجدہ کوگلے سے لگا لیا۔
"میری ماں کہاں ہے؟" ۔نرس کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے۔
٭٭٭
" دائی ماں آپ ساجدہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیں"۔
" یہ گیارویں بچی ہے میں ان سب کی کیسے دیکھ بھال کرو ں گی۔" محلے کی دائی نے کہا۔
" ہم آپ کی پیسوں سے مدد کریں گے۔ مگر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔"
" بیٹی تم مجھ کو اپنی ماں سمجھو" ۔دائی ماں نے ساجدہ کا ہاتھ پیار سے پکڑا اور کھلی جگہ میں لائی۔
" اب یہ سب لڑکیاں تمہاری دوست اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے سونے کی جگہ ہے " ۔دائی ماں نےایک چادر کی طرف اشارہ کیا۔
٭٭٭
ہر لڑکی کی کچھ نہ کچھ زمہ داری تھی۔ ساجدہ کے ذمہ کنواں سے پانی لانا تھا۔ وہ صبح جاتی اور کنواں سے پانی لاتی۔ کنواں بہت دور تھا اورہر وقت قطار لگی ہوتی تھی اور اسکی وجہ سے پانی لانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا بچیوں کے پیٹ بڑھنے لگے۔دائی ماں کو بچیوں کو بتانا پڑھا کہ ان کے جسم میں یہ تبدیلیاں کیوں آرہی ہیں۔
٭٭٭
ساجدہ کوخاموشی لگ گی اُس نےسب سے بات کرناچھوڑ دیا۔ہروقت اپنا پیٹ نوچتی رہتی یہاں تک کہ اس سےخون رسنے لگتا اور دائی اماں اس کے ہاتھ باندھ دیتی۔ ساجدہ ، جو کچھ بھی اسکے پیٹ میں تھا اس کونکال کر پھنک دینا چاھتی تھی۔
٭٭٭
نوماہ گزر گے۔ دائی ماں کا گھر بچوں سے بھر گیا۔ بہت بچے ماں پر نہیں گے۔ ان سانولی ماو ں کے بچوں کے رنگ سانولے نہ تھے۔ رنگ علاوہ ساجدہ کا بچہ اندھا پیدا ہوا۔ ساجدہ کواس بچے سے اسی نفرت تھی کہ اس نےاس سے بلکل تعلق قطع کرلیا۔ دوسری لڑکیاں اس کےبچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ ساجدہ اپنے حصہ کا کام روز کرتی اور ہر شام پہاڑی پر بیٹھ کر نیچے بہتے دریا کو دیکھتی۔
اسی طر ح کی ایک شام وہ پہاڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک چیل اس سے کچھ دور آکر بیٹھی۔ساجدہ نے چیل سے پوچھا تم کیوں اُڑتی ہو؟ چیل نے اپنے پر پھیلائے۔ ساجدہ نے کھڑے ہو کر چیل کی نقل کی۔ چیل نے پہاڑی کے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا ساجدہ نے بھی۔ چیل نے اپنے پر ہلائے اور وہ اڑنے لگی۔ ساجدہ کنارے تک پہونچ چکی تھی۔اس نے بھی ایک قدم بڑھایا۔۔۔
۔۔۔اور وہ بھی بہ پروازتھی۔ اس نے ہوا کو اس طرح محسوس کیا جیسے ہوا اس کے جسم سے اس کے بھائیوں کی دی ہوئی غلاظت کوصاف کر رہی ہو ۔ پہلی باراس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا ۔آخری بار ساجدہ نے سوچا پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟۔ وقت رُک گیا۔ اور ساجدہ کا ذہین خاموش ہو گیا۔
.
پرواز - پرندے کیوں اُڑتے ہیں
ایک مختصر افسانہ
سید تفسیر احمد
ایک مختصر افسانہ
سید تفسیر احمد
.ماں ، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "۔ ساجدہ نے ماں سے سوال کیا۔
ساجدہ کی ماں نےصحن میں جھاڑو دیتے ہو ے جواب دیا"۔ بیٹی مجھ بے پڑھی لکھی کو کیا پتہ ہے ان باتوں کا۔ جب اسکول جاؤ تو استانی جی سے پوچھنا۔"
" اچھا ماں ، میں باہر کھیلوں گی" اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھول کر۔ ساجدہ گلی میں آگی۔
گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہرطرف غلاظت کےڈھیر تھے۔ گلی کےدرمیان ایک گندے پانی کو نالا بہہ رہا تھا۔دو دروازے دور۔ اسکی دوست نجمہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی۔ ساجدہ بھی نجمہ کے برابر بیٹھ گی۔
" تم نے اپنی ماں سے پوچھا؟" نجمہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
" ہاں" ۔ساجدہ نے بے دلی سے کہا۔
" تو" ۔ نجمہ نے زور سے پوچھا۔
"ماں کو بھی نہیں پتہ وہ کہتی ہے استانی جی سے پوچھو"۔ ساجدہ بولی۔
" نا ، بابا میں تو کبھی نہ پوچھوں" ۔نجمہ نے کہا۔
" تم پوچھنا "
" اچھا "۔ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔"چلو کھیلیں"
٭٭٭
سخت گرمی تھی ۔ تمام بچے برگد کے درخت کی نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گے۔استانی نےدوسری جماعت کی کتاب کھولی اور کہا۔" آج ہم اپنے ملک کے بارے میں پڑھیں گے۔ صفحہ دس پر کتاب کھولو"
" ہمارے ملک کے دو حصہ ہیں۔ایک حصہ مغرب میں ہے اور دوسرا مشرق میں ۔ ہم مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہوتےہیں۔وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سب سے محبت کرتے ھیں "۔
" میرا تو کوئی بھائی نہیں۔ کیا بھائی بہنوں سے پیار کرتے ہیں؟۔ کیا اگر میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہ مجھے نئے کپڑے لاکر دیتا؟ میں نے کبھی برفی نہیں کھائی کیا وہ مجھے مٹھائی لا کر دیتا "۔نجمہ نے اداس ہو کراستانی سے پوچھا۔
سبق کے بعد ساجدہ اُستانی جی کے پاس گی۔ اُستانی جی، ساجدہ نے ادب سے کہا۔
" کیا بات ہے ساجدہ ؟ "
" کیا میں ایک سوال پوچھ ہوں؟ " ساجدہ ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
" پوچھو "۔
" استانی جی، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "
" یہ تو بہت اچھا سوال ہے ۔ کل میں تم سب کوایک ساتھ کلاس میں بتاؤں گی"۔ استانی نے جواب دیا۔
چلو جاؤ ۔ اندھیرا ہو رہا ہے۔ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہوگی"۔
٭٭٭
" ساجدہ ، تم آج سے باہر مت کھیلنا۔ لڑائی ہو رہی ہے۔ یہاں مغربی حصہ کی فوجیں آئی ہوي ہیں اور ہمارے سپاہی ان سے لڑرے ہیں" ۔ ماں نے ساجدہ کے بالوں میں مانگ ڈالتے ہوئے کہا۔
" ماں وہ تو ہمارے بھائی ہیں نا۔ ہم ان سے کیوں لڑتے ہیں۔استانی جی کہتی ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔ میں سپاہیوں سے کہوں گی کہ ان سے نہ لڑیں "۔
٭٭٭
زبرد ست بارش ہوری تھی۔ جھونپڑی میں کوئی جگہ خشک نہ تھی۔پانی ٹخنوں تک آچکاتھا۔ بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ ساجدہ خوف سے ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ باہر سے شور وغل کی آوازیں آرہی تھیں۔ جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بجلی کی چمک میں ساجدہ نے چارسائے دیکھے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے جیسے ساجدہ نے کبھی نہیں سننا تھا۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ساجدہ کا دل کرا کہ وہ دوڑ کر اپنے بھائیوں سے لپٹ جائے وہ اسکو ملنے آئے ہیں ۔ ماں نے ساجدہ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔ ان میں سے ایک نے زبردستی ساجدہ کو ماں سے جدا کیا ۔ ساجدہ نے ماں کی چیخیں سنی۔ کیسی نے اسے زمین پر گرا کر اسکی شلوار کھنچ لی۔ ساجدہ نے ا پنی ٹانگوں کے درمیان ایک زبردست درد محسوس کیا جیسے کیسی نے چھری سے اسکو کاٹا ہو۔ یہ درد پھر سارے بدن میں پھیل گیا۔اسکے بعد اسکی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
٭٭٭
کچھ دنوں بعد جب ساجدہ کی آنکھ کھولی تو اسکا سارا بدن آگ کی طرح جل رہاتھا۔
"ماں، ساجدہ چلائی"۔ نرس نے جھک کر ساجدہ کوگلے سے لگا لیا۔
"میری ماں کہاں ہے؟" ۔نرس کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے۔
٭٭٭
" دائی ماں آپ ساجدہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیں"۔
" یہ گیارویں بچی ہے میں ان سب کی کیسے دیکھ بھال کرو ں گی۔" محلے کی دائی نے کہا۔
" ہم آپ کی پیسوں سے مدد کریں گے۔ مگر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔"
" بیٹی تم مجھ کو اپنی ماں سمجھو" ۔دائی ماں نے ساجدہ کا ہاتھ پیار سے پکڑا اور کھلی جگہ میں لائی۔
" اب یہ سب لڑکیاں تمہاری دوست اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے سونے کی جگہ ہے " ۔دائی ماں نےایک چادر کی طرف اشارہ کیا۔
٭٭٭
ہر لڑکی کی کچھ نہ کچھ زمہ داری تھی۔ ساجدہ کے ذمہ کنواں سے پانی لانا تھا۔ وہ صبح جاتی اور کنواں سے پانی لاتی۔ کنواں بہت دور تھا اورہر وقت قطار لگی ہوتی تھی اور اسکی وجہ سے پانی لانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا بچیوں کے پیٹ بڑھنے لگے۔دائی ماں کو بچیوں کو بتانا پڑھا کہ ان کے جسم میں یہ تبدیلیاں کیوں آرہی ہیں۔
٭٭٭
ساجدہ کوخاموشی لگ گی اُس نےسب سے بات کرناچھوڑ دیا۔ہروقت اپنا پیٹ نوچتی رہتی یہاں تک کہ اس سےخون رسنے لگتا اور دائی اماں اس کے ہاتھ باندھ دیتی۔ ساجدہ ، جو کچھ بھی اسکے پیٹ میں تھا اس کونکال کر پھنک دینا چاھتی تھی۔
٭٭٭
نوماہ گزر گے۔ دائی ماں کا گھر بچوں سے بھر گیا۔ بہت بچے ماں پر نہیں گے۔ ان سانولی ماو ں کے بچوں کے رنگ سانولے نہ تھے۔ رنگ علاوہ ساجدہ کا بچہ اندھا پیدا ہوا۔ ساجدہ کواس بچے سے اسی نفرت تھی کہ اس نےاس سے بلکل تعلق قطع کرلیا۔ دوسری لڑکیاں اس کےبچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ ساجدہ اپنے حصہ کا کام روز کرتی اور ہر شام پہاڑی پر بیٹھ کر نیچے بہتے دریا کو دیکھتی۔
اسی طر ح کی ایک شام وہ پہاڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک چیل اس سے کچھ دور آکر بیٹھی۔ساجدہ نے چیل سے پوچھا تم کیوں اُڑتی ہو؟ چیل نے اپنے پر پھیلائے۔ ساجدہ نے کھڑے ہو کر چیل کی نقل کی۔ چیل نے پہاڑی کے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا ساجدہ نے بھی۔ چیل نے اپنے پر ہلائے اور وہ اڑنے لگی۔ ساجدہ کنارے تک پہونچ چکی تھی۔اس نے بھی ایک قدم بڑھایا۔۔۔
۔۔۔اور وہ بھی بہ پروازتھی۔ اس نے ہوا کو اس طرح محسوس کیا جیسے ہوا اس کے جسم سے اس کے بھائیوں کی دی ہوئی غلاظت کوصاف کر رہی ہو ۔ پہلی باراس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا ۔آخری بار ساجدہ نے سوچا پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟۔ وقت رُک گیا۔ اور ساجدہ کا ذہین خاموش ہو گیا۔
.