عدنان عمر بھائی، میرا لہجہ شاید زیادہ تلخ ہو گیا۔ آپ نے درگزر فرمایا۔ رہنمائی فرمائی۔ میں سرتاپا ممنون ہوں۔
جہاں تک موضوع زیرِ بحث کا تعلق ہے تو میں شاید جذباتی ہو جانے کی وجہ سے اپنا نکتۂِ نظر واضح نہیں کر سکا۔ مدعا یہ تھا کہ دین کا تعلق بے جان و بے حس اشیا سے نہیں ہوتا بلکہ ذی ہوش و باشعور انسان سے ہوتا ہے۔ زبانیں، کپڑے، جوتے، سواریاں، اشیائے خورد و نوش وغیرہم مسلمان یا کافر نہیں ہوتیں نہ ان پر ایسے معیارات لاگو کرنا عقل مندی یا دین داری ہے۔
جب کردار میں عقائد کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے تو ماحول میں ضروری تبدیلیاں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے لیے الگ سے کسی جہاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاً کوئی عورت شہوات پر قابو پا لیتی ہے تو آپ کو اسے لباس کی موزونیت کا درس نہیں دینا پڑتا۔ درخت کی جڑ کو پانی پہنچتا ہے تو شاخیں خود بخود سیراب ہو جاتی ہیں۔ مگر پتوں کو تر کرنے سے ضروری نہیں کہ پودا پنپتا بھی رہے۔
علمائے عصر کا المیہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ یہ اصول کی بجائے فروع پر اسلام نافذ کرنے سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس رویے نے جو مضحکہ خیز مظاہر پیدا کیے ہیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزرے یا پھر شاید آپ نے کبھی ان پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی۔ چندے قبل ایک عاشقِ رسولﷺ کا مدنی طیارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے موٹر سائیکل کو ہرا رنگنے کے بعد غالباً اس پر نعتیہ اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔ سواری میں کچھ اور تبدیلیاں بھی ایسی کی گئی تھیں کہ اس 'طیارے' کی ہیئت کذائی دیکھنے کے بعد اچھے خاصے مسلمان مرتد ہو جائیں۔
میرا مؤقف یہی ہے کہ اسلام کو کردار اور معاملات پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بقولِ اقبالؒ اس ننگِ یہود قوم پر آپ اسلام کا ظاہری روغن جتنا چاہیں کر دیں اس سے اسلام کی تذلیل کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔
اگر ملت میں کردار اور ایمان کی روشنی پیدا ہو گئی تو آپ کو زبان کی اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسے آپ کے رسولﷺ کو نہیں پڑی۔ ورنہ موٹر سائیکل تو مدنی طیارہ بن ہی گیا ہے۔ اردو بھی مدنی زبان بن گئی تو ہم کیا اکھیڑ لیں گے؟
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف