پروفیسر غازی علم دین کی کتاب "لسانی مطالعے" کے بارے میں سوال

عدنان عمر

محفلین
عدنان عمر بھائی، میرا لہجہ شاید زیادہ تلخ ہو گیا۔ آپ نے درگزر فرمایا۔ رہنمائی فرمائی۔ میں سرتاپا ممنون ہوں۔
جہاں تک موضوع زیرِ بحث کا تعلق ہے تو میں شاید جذباتی ہو جانے کی وجہ سے اپنا نکتۂِ نظر واضح نہیں کر سکا۔ مدعا یہ تھا کہ دین کا تعلق بے جان و بے حس اشیا سے نہیں ہوتا بلکہ ذی ہوش و باشعور انسان سے ہوتا ہے۔ زبانیں، کپڑے، جوتے، سواریاں، اشیائے خورد و نوش وغیرہم مسلمان یا کافر نہیں ہوتیں نہ ان پر ایسے معیارات لاگو کرنا عقل مندی یا دین داری ہے۔
جب کردار میں عقائد کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے تو ماحول میں ضروری تبدیلیاں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے لیے الگ سے کسی جہاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاً کوئی عورت شہوات پر قابو پا لیتی ہے تو آپ کو اسے لباس کی موزونیت کا درس نہیں دینا پڑتا۔ درخت کی جڑ کو پانی پہنچتا ہے تو شاخیں خود بخود سیراب ہو جاتی ہیں۔ مگر پتوں کو تر کرنے سے ضروری نہیں کہ پودا پنپتا بھی رہے۔
علمائے عصر کا المیہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ یہ اصول کی بجائے فروع پر اسلام نافذ کرنے سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس رویے نے جو مضحکہ خیز مظاہر پیدا کیے ہیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزرے یا پھر شاید آپ نے کبھی ان پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی۔ چندے قبل ایک عاشقِ رسولﷺ کا مدنی طیارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے موٹر سائیکل کو ہرا رنگنے کے بعد غالباً اس پر نعتیہ اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔ سواری میں کچھ اور تبدیلیاں بھی ایسی کی گئی تھیں کہ اس 'طیارے' کی ہیئت کذائی دیکھنے کے بعد اچھے خاصے مسلمان مرتد ہو جائیں۔
میرا مؤقف یہی ہے کہ اسلام کو کردار اور معاملات پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بقولِ اقبالؒ اس ننگِ یہود قوم پر آپ اسلام کا ظاہری روغن جتنا چاہیں کر دیں اس سے اسلام کی تذلیل کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔
اگر ملت میں کردار اور ایمان کی روشنی پیدا ہو گئی تو آپ کو زبان کی اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسے آپ کے رسولﷺ کو نہیں پڑی۔ ورنہ موٹر سائیکل تو مدنی طیارہ بن ہی گیا ہے۔ اردو بھی مدنی زبان بن گئی تو ہم کیا اکھیڑ لیں گے؟
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف​
راحیل فاروق بھائی! آپ کی قلم کی جولانیاں دیکھ کر تو میرے قلم کو پسینہ آجاتا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ میں آپ سےسو فیصد متفق ہوں کہ دین کو اپنے کردارپر نافذ کرنا چاہیے۔ ہاں، کردار پر نافذ کرنے سے پہلے من کے اندر ایمان کا بُوٹا لگانا پڑتا ہے ورنہ دین کو اپنے نفس پر نافذ کرنا انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے جیسا کہ میرے لیے ہے۔ جہاں تک زبان کی بات ہے تواسلامی تعلیمات کی روشنی میں، میں زبان کو پتوں نہیں جڑ سے نسبت دیتا ہوں کیوں کہ زبان کے ذریعے ہی ہم پوری دنیا سے تعامل(انٹرایکٹ) کرتے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے حوالے سے میرے بھی چند تحفظات ہیں لیکن مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی والوں کے چند ظاہری اعمال اور وضع قطع اِس جماعت کے اصل رنگ کو کیموفلاج کردیتی ہے۔ کبھی آپ سے شرفِ ملاقات ہوا تو اس پر تفصیلی بات چیت ہوگی۔ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
 

طالب سحر

محفلین
ویسے کیا پروفیسر صاحب نے جن محاوروں کو "غیر مذہبی" قرار دیا ہے ۔ نشاندہی کے باوجود اُن کے استعمال پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ بھی دیا ہے؟
اس کا مجھے علم نہیں ہے؛ کتاب پڑھنے کے بعد بتا سکتا ہوں۔ (ہفتے کے دن اور آج بھی اردو بازار، کراچی کی کچھ دکانوں میں اس کتاب کا معلوم کیا، لیکن یہاں کتاب دستیاب نہیں ہے۔ ) تاہم دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کتاب کے ایک تبصرے میں یہ پڑھا کہ اس طرح کے محاوروں کے پس منظر میں "مشرکانہ، کافرانہ نظریئے کی ترویج" ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تبصرہ نگار نے تو کفر کا فتوی دے دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فی زمانہ کسی بات کو "غیر مذہبی "قرار دینا کچھ لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتا ہے کہ وہ مذکورہ بات کہنے والے پر کفر کے فتوی صادر کریں اورقابلِ گردن زنی قرار دیں۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
اتنی بحث ہوئی۔۔۔ حالاں کہ مدعا تو نہایت واضح تھا۔۔۔کہ ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔۔۔ تہذیب یافتہ، شریف اور شائستہ گھرانوں کا یہ طرہ امتیاز ہے۔۔۔۔ اور سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے چند بے تکلف دیہاتیوں کو ’’اُخرُج یامحمد‘‘ کہنے پر فہمائشی اور نبی کے ادب پر آیات نازل فرمادیں۔
سورہ الحجرات کی آیت کے حوالے کا شکریہ، جس کے اس لڑی کے موضوع سے تعلق نہیں تھا۔ اب یہ بتایئے کہ پہلے مراسلے کے مندراجات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
بغل میں چھری منہ میں رام رام
نہ نو من تیل ہو نہ رادھا ناچے گی
وغیرہ جیسے ہندوؤں کے لیے نا پسندیدہ کہاوتوں پر بھی بات ہو جائے
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر کوئی دوست کتاب پڑھے تو یہ بھی بتائے کہ "دو ملاؤں میں مرغی حرام" کے بارے میں پروفیسر صاحب کی کیا رائے ہے ۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
بات صرف اتنی سی ہے کہ جہاں مذہب اور وہ بھی اسلام کی بات آتی ہے تو کچھ لوگ بہت بری طرح بھدک جاتے ہیں. وجہ وہی روائیتی ملا کی کی کارگزاریاں جو رواداری اور اعتدال سے مبرا ہوتی ہیں اور اصل تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرتی ہیں. باقی اپنی اپنی رائے دینے میں اور عمل کرنے میں سب آزاد ہیں جس کو جو بات اچھی لگتی ہے عمل کرتا ہے جو بری لگتی ہے اس سے صرفِ نظر کر لیتا ہے اور بات ختم. لیکن جب کوئی بھی اپنا نقطہ نظر چاہے حق میں یا مخالفت ہیں زبردستی دوسرے پر تھوپ دے تو وہ ناجائز عمل ہے.
 

سید عمران

محفلین
سورہ الحجرات کی آیت کے حوالے کا شکریہ، جس کے اس لڑی کے موضوع سے تعلق نہیں تھا۔ اب یہ بتایئے کہ پہلے مراسلے کے مندراجات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
تعلق کیوں نہیں ہے؟ وہاں بھی اللہ تعالیٰ کو بے ادبی کے الفاظ پسند نہیں آئے تو باادب الفاظ کی ادائیگی سکھا رہے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
بات صرف اتنی سی ہے کہ جہاں مذہب اور وہ بھی اسلام کی بات آتی ہے تو کچھ لوگ بہت بری طرح بھدک جاتے ہیں. وجہ وہی روائیتی ملا کی کی کارگزاریاں جو رواداری اور اعتدال سے مبرا ہوتی ہیں اور اصل تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرتی ہیں. باقی اپنی اپنی رائے دینے میں اور عمل کرنے میں سب آزاد ہیں جس کو جو بات اچھی لگتی ہے عمل کرتا ہے جو بری لگتی ہے اس سے صرفِ نظر کر لیتا ہے اور بات ختم. لیکن جب کوئی بھی اپنا نقطہ نظر چاہے حق میں یا مخالفت ہیں زبردستی دوسرے پر تھوپ دے تو وہ ناجائز عمل ہے.
۱) غیر روایتی ملا کی تعریف کیا ہے؟
۲) آج ہم جتنا بھی دین پہنچا ہے اس کو ہم تک پہنچانے میں ملا کے علاوہ کسی اور کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ ان کو تنقید اور استہزاء کا نشانہ بنانا چاہیے۔
۳) ہم کو اپنے گریبان میں بھی منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ علماء کا مذاق اڑانے کے علاوہ ۔بحیثت مسلمان دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔ ہم تو دین کے احکام اپنے جسم پر بھی لاگو نہ کرسکے دوسروں تک کیا پہنچائیں گے۔
 

طالب سحر

محفلین
جب تک مذکورہ کتاب نہیں ملتی،اس پر کیے گئے تبصروں سے وہ اقتباسات جن میں قابلِ اعتراض الفاظ اور محاوروں کے بارے میں بات کی گئی ہے،پیشِ خدمت ہیں:

- انتظارحسین کے مضمون [ربط] سے:
خود اردو زبان کے محاوروں اور ترکیبوں میں کیسا کیسا کفر بھرا ہوا ہے، اس کی مثالیں بھی انہوں نے دی ہیں۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیے۔
قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ۔ فرماتے ہیں کہ اس محاورے میں منصب قضا کے حامل یعنی قاضی کی تذلیل کی گئی ہے۔
حکمتی۔ مراد چالا ک شخص ۔ کہتے ہیں کہ یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔
یہ جو ہم بولتے ہیں کہ اس کی تو ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ یا یہ کہ وہاں تو فرشتوں کا بھی گزر نہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ایسے محاوروں کا استعمال فرشتوں کی حیثیت کو کم کرنے بلکہ گرا دینے کے مترادف ہے۔
بسم اللہ ہی غلط ۔ مراد ابتدا ہی غلط ہو جانا۔ فرماتے ہیں کہ اس میں ذہنی خباثت اور دین اسلام کے خلاف سازش واضح اورعیاں ہے۔
مولا بخش ۔ استاد کا ڈنڈا ۔ اور مولا دو لا مطلب بھولا بھالا، لا پروا۔ فرماتے ہیں کہ لفظ مولا کو جواللہ کے معنی میں ہے استہزا کے انداز میں نئے معنی پہنائے گئے ہیں اور مولا دو لا کی ترکیب میں کس ڈھٹائی سے دولا کا استعمال کر کے عامیانہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔
نوج ۔ اردو میں یہ کلمہ پناہ اور کلمہ نفی ہے اور غازی صاحب کی دانست میں یہاں ’’نعوذ ‘ کو بگاڑ کر جو نوج بنایا گیا ہے و ہ نعوذ باللہ لفظ نعوذ کی صریحاََ توہین ہے۔​

- امین جالندھری صاحب کا تبصرہ اجراء کے شمارہ نمبر 18 میں صفحہ 554 تا 557 پر شائع ہوا تھا [ربط]:

Ameen_Jalandhari_1_zpsrvej7ny0.jpg

Ameen_Jalandhari_2_zps0cxrj8ph.jpg
 

عثمان

محفلین
ویسے کیا پروفیسر صاحب نے جن محاوروں کو "غیر مذہبی" قرار دیا ہے ۔ نشاندہی کے باوجود اُن کے استعمال پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ بھی دیا ہے؟

بہت سے شرکائے گفتگو کی جذباتیت سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔
آپ اوپر ایک مبصر کی بین السطور اس رائے سے متفق ہیں کہ ان محاوروں سے دین کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ ایسے میں حیرت کیسی ؟
 
Top