فلک شیر
محفلین
بات اگر کسی اور طرف نہ نکل جائے........تو مختصراً عرض ہے کہ سریت اور رمزیت ایک چیز ہے اور تلاش حق کے مختلف طرق میں اس کے داعی اور عامل بھی موجود ہیں..........اب یہ شریعت میں مطلوب ہے یا نہیں .....اور اگر ہے تو کس حد تک.....یہ سوال بڑا اہم ہے......
میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں ، وہ یہی ہے کہ فی زمانہ اس نوع کی چیزیں اُس طلب اور اظہار کے لیے کم استعمال ہوتی ہیں اور ذہنی عیاشی کے لیے زیادہ...........ٹھیک ہے کہ حقیقت کبرٰی کو جاننے اور ماننے کے سلسلہ میں متعدد جہات سے اختلاف مذاہب و ملل میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے............لیکن ایک سادہ سی بات کی طرف اہل علم متوجہ کیوں نہیں ہوتے..........کہ زندگی، خدا اور کائنات کے باہم تعلق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک سلسلہ پیغمبروں کا ہے...........اورایمانیات کے پس منظر میں ہم آپ اسی سلسلے کو مستند مانتے ہوئے ان کی بتائی ہوئی غیب کی خبروں کو تسلیم کرتے ہیں اور انہی کے اقوال و ارشادات کے مطابق اپنے عقائد استوار کرتے ہین........تو کیاضروری ہے کہ اس سلسلہ میں پھر نئے سرے سے ڈھنڈیا پٹوا دی جائے........اور فلاسفہ و شعراء، جن کا فرمایا ہوا اس ضمن میں مستند آپ کے ہاں ہے ہی نہیں.........کا قول قولِ فیصل مانا جائے.........ایک سوال کا جواب جب مل جائے تو پھر بات ختم........یہ سلسلے آخر کو جن خار زار وادیوں میں اس کمزور بنی آدم ناقص العقل کو لے جاتے ہیں.........وہ کم ہی کسی عامی کو باہر واپس جانے کا وقت دیتے ہیں........
آسی صاحب سے اس ضمن میں متفق ہوں کہ ذات باری کے متعلق معلومات اور عقیدہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھنے اور سمجھنے کے مکلف اور پابند ہیں........کیونکہ اس سلسلہ میں دوسرے لوگ جو خواہ انتہائی نیک نیتی ہی سے کھوج میں لگے ہوئے ہوں.......ان کے پاس وحی جیسا یقینی علم ہے ہی نہیں........
موہن سنگھ بڑا کمال شاعر ہے........لیکن کیا اس کا کہا ہوا بیت ہمارے لیے ایمانیات میں بھی سند ہے۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ وہ عرش پہ ہے تو میرا ایمان ہے کہ وہ عرش پہ ہے ، اس نے نہیں بتایا کہ کیسے ہے تو میں اس ضمن میں تحقیق کا مکلف نہیں ہوں.......اس نے کہا کہ اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ، تو میرا ایمان ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہین.......اس نے کہا کہ اس کی پنڈلی ہے تو میں ایمان لایا.......میں نہ تو اس کو تشبیہ دوں گا نہ تعطیل کروں گا نہ تجسیم ........جو بتایا گیا، جتنا بتایا گیا، آمنا و صدقنا........ومن اصدق من اللہ حدیثا
پس نوشت: دھاگہ پنجابی میں ہے ، لکھنے کے بعد ذہن میں آیا، تب تک اردو میں لکھ چکا تھا۔معذرت قبول کیجیے
میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں ، وہ یہی ہے کہ فی زمانہ اس نوع کی چیزیں اُس طلب اور اظہار کے لیے کم استعمال ہوتی ہیں اور ذہنی عیاشی کے لیے زیادہ...........ٹھیک ہے کہ حقیقت کبرٰی کو جاننے اور ماننے کے سلسلہ میں متعدد جہات سے اختلاف مذاہب و ملل میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے............لیکن ایک سادہ سی بات کی طرف اہل علم متوجہ کیوں نہیں ہوتے..........کہ زندگی، خدا اور کائنات کے باہم تعلق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک سلسلہ پیغمبروں کا ہے...........اورایمانیات کے پس منظر میں ہم آپ اسی سلسلے کو مستند مانتے ہوئے ان کی بتائی ہوئی غیب کی خبروں کو تسلیم کرتے ہیں اور انہی کے اقوال و ارشادات کے مطابق اپنے عقائد استوار کرتے ہین........تو کیاضروری ہے کہ اس سلسلہ میں پھر نئے سرے سے ڈھنڈیا پٹوا دی جائے........اور فلاسفہ و شعراء، جن کا فرمایا ہوا اس ضمن میں مستند آپ کے ہاں ہے ہی نہیں.........کا قول قولِ فیصل مانا جائے.........ایک سوال کا جواب جب مل جائے تو پھر بات ختم........یہ سلسلے آخر کو جن خار زار وادیوں میں اس کمزور بنی آدم ناقص العقل کو لے جاتے ہیں.........وہ کم ہی کسی عامی کو باہر واپس جانے کا وقت دیتے ہیں........
آسی صاحب سے اس ضمن میں متفق ہوں کہ ذات باری کے متعلق معلومات اور عقیدہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھنے اور سمجھنے کے مکلف اور پابند ہیں........کیونکہ اس سلسلہ میں دوسرے لوگ جو خواہ انتہائی نیک نیتی ہی سے کھوج میں لگے ہوئے ہوں.......ان کے پاس وحی جیسا یقینی علم ہے ہی نہیں........
موہن سنگھ بڑا کمال شاعر ہے........لیکن کیا اس کا کہا ہوا بیت ہمارے لیے ایمانیات میں بھی سند ہے۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ وہ عرش پہ ہے تو میرا ایمان ہے کہ وہ عرش پہ ہے ، اس نے نہیں بتایا کہ کیسے ہے تو میں اس ضمن میں تحقیق کا مکلف نہیں ہوں.......اس نے کہا کہ اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ، تو میرا ایمان ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہین.......اس نے کہا کہ اس کی پنڈلی ہے تو میں ایمان لایا.......میں نہ تو اس کو تشبیہ دوں گا نہ تعطیل کروں گا نہ تجسیم ........جو بتایا گیا، جتنا بتایا گیا، آمنا و صدقنا........ومن اصدق من اللہ حدیثا
پس نوشت: دھاگہ پنجابی میں ہے ، لکھنے کے بعد ذہن میں آیا، تب تک اردو میں لکھ چکا تھا۔معذرت قبول کیجیے